جہانگیر ترین۔۔۔بادشاہ گر سے در بدر تک۔

میں جہانگیر ترین صاحب کو زمانہ ق لیگ سے سرسری جانتا تھا اور پھر تحریک انصاف میں آنے کے بعد ان کے نام اور کام سے بذریعہ میڈیا بہت کچھ پتہ لگتا رہا۔میڈیا میں یہ بھی آیا کہ جہانگیر ترین صاحب بڑی سرعت سے عمران خان کو راستے سے ھٹا کر وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں لیکن وقت نے یہ الزام بالکل غلط ثابت کر دیا، دوسرا الزام لگا کہ خیبرپختونخوا سے پچھلے دور حکومت میں قیمتی معدنیات لا کر کاروبار کیا جا رہا ہے مگر اس میں بھی کہیں صداقت ثابت نہیں ہو سکی۔ 2014 میں تحریک انصاف میں آزادی رضا کار فورس بنی تو جہانگیر ترین صاحب پیش پیش تھے۔ اور عمران خان کے ساتھ ذاتی اخراجات سے لے کر جلسوں ،دھرنے اور ملک بھر کے دورے کے لئے ترین کی خدمات بے لوث اور قابل ستائش رہیں۔البتہ کچھ مخالفت اور حسد پارٹی کے اندر موجود تھا جس کا جہانگیر ترین کو پتہ ھونے کے باوجود کوئی شکوہ نہیں تھا۔میں بھی عام قاری کی طرح خبریں پڑھ کر ان کو پرکھتا رہتا تھا اور سابقہ تعلق کی وجہ سے کچھ باتیں درست لگنا شروع ھوگئی میرا ایک دوست تحریک انصاف کا سرگرم کارکن ھے اور عمران خان صاحب کے ساتھ 2007ء سے چل رہا ہے، جب سے اس نے لاھور کی رکنیت مہم میں ممبر شپ لی تھی تو وہ بضد تھا کہ 2013ء میں تبدیلی آئے گی میرے دوست کا نام بھی عمران اور ساتھ باجوہ بھی ھے اکثر اس کے ساتھ تنقیدی اور اصلاحی گفتگو اور تحریک انصاف کی جدوجہد کے بارے میں بات اور دوستوں کی محفلیں اوپن ٹی ھاؤس میں سجتی رہیں۔ اور وہ قومی اور بلدیاتی انتخابات میں اپنا حصہ ڈالتا رہا۔لیکن جذبے اور جدوجہد میں کمی نہیں آئی 2013 کے انتخابات کے بعد اس کا یقین ھارنے کے باوجود مستحکم بلکہ مزید پختہ ھو گیا۔ھم کچھ دوستوں نے 2014ء کے دھرنے کی مخالفت کی اور یہ موقف اپنایا کہ خان صاحب کو استعفیٰ کی بجائے الیکشن کمیشن کی اصلاحات کا مطالبہ کرنا چاہیے لیکن عمران باجوہ مصر رہا کہ نواز شریف کو جانا چاہیے خیر دسمبر 2014 ء آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعہ کے بعد دھرنا ختم ھوا لیکن مطالبہ بڑھتے بڑھتے پانامہ کے نزول میں داخل ھو کر فتح یاب ھوا۔ ایک دن عمران باجوہ جو ھمارا دوست ھے کی وساطت سے کاشف حفیظ کا فون آیا کہ جہانگیر ترین صاحب نے آپ کو بلایا ھے اس سے عمران باجوہ کے ساتھ ھم بھی خوش تھے خیر عمران باجوہ جہانگیر ترین صاحب سے ملے اور ھمیں بھی مشن الیکشن 2018ء میں شامل ھو کر کام کرنے کی دعوت دی اور جہانگیر ترین صاحب نے سب دوستوں کو ملنے کے لئے بلایا ھم بھی تبدیلی اور کم از کم وراثتی طور پر مسلط حکمرانوں سے تنگ تھے کسی سیاسی تبدیلی یا سماجی اصلاح کے خواہشمند تھے اور سمجھتے تھے کہ عمران خان اپنے نوجوانوں کے ذریعے سماج کو بدل سکتے ہیں ۔کے پی کے حکومت اور کارکردگی پر روز بحث ھوتی حسب روایت عمران باجوہ تبدیلی کا جھونکا سمجھتے اور ھم بھی اس جھونکے یا دھوکے میں آ گئے۔دھوکا تو نہیں کہنا چاہیے کہ امید کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔اور ایک شعوری تبدیلی تو لوگوں میں اچکی ھے اس پر پھر کبھی لکھوں گا کہ عمران خان کامیاب ہوئے یا نہیں، ابھی بات جہانگیر ترین کی ھو رھی تھی خیر ھم بھی عمران باجوہ کی دعوت پر ایک صحافتی نظر سے دیکھنے ھم بھی گئے پر تماشا نہ ھوا بلکہ جہانگیر ترین صاحب کے بارے میں میری رائے بدل گئی۔ مھ کچھ دوست جناب افضل صاحب فیلڈ ریسرچ کے استاد الاساتذہ کراچی سے، دو خواتین ریسرچ مینجر اور راقم الحروف ملاقات کے لیے جہانگیر ترین صاحب کے پاس پہنچ گئے، وقت مقررہ پر وہ اپنے پہلو میں خاکوانی صاحب اور ایک عدد سنگ مرمر کی ٹائل جو گرم کر کے کپڑے میں لپٹی تھی ملاقات کی میز پر پہنچ گئی ایک کافی ذھین اور بے لوث ورکر خاتون ذھنی اور جسمانی طور پر سمارٹ مشعل نام تھا کو اور اپنی میڈیا ٹیم کو بھی بلا لیا گیا ۔چکن پیٹیز اور چائے سے ھماری تواضع کی گئی باھر میڈیا کا جم غفیر تھا کیونکہ ایک سابق رہنما پیپلز پارٹی تحریک انصاف میں شامل ھو نے والے تھے وہ بھی ملاقات کے انتظار میں تھے۔مگر جہانگیر ترین صاحب ھمارے ساتھ میٹنگ اور راؤنڈ ٹیبل پر گفتگو پر مصروف ھو گئے یہ میری ان سے پہلی باقاعدہ ملاقات تھی ملاقات میں تعارف کے بعد سب سے پہلا سوال انہوں نے مجھ سے کیا کہ ن لیگ کے کس وزیر کی کارکردگی کو آپ بہتر سمجھتے ہیں میں نے برملا کہا کہ جناب خواجہ سعد رفیق، چوھدری نثار اور احسن اقبال اس پر وہ زیادہ متوجہ ہوئے اور کئی اور صحافتی سوالات اور تحریک انصاف کی عوام میں پذیرائی کے بارے میں سوال کیے۔ میٹنگ میں انڈین الیکشن میں مودی کی کامیابی پر مکمل تحقیقی رپورٹ مشعل نے پیش کی۔ جبکہ پاکستان میں حلقہ وائز ریسرچ پر عمران باجوہ نے ایک تفصیلی پریزنٹیشن پیش کی تین گھنٹے مسلسل جہانگیر ترین انہماک سے سنتے اور سوال کرتے رہے مگر انتہائی پیشہ ورانہ اور سیاسی گہرائی سے جائزہ لیتے یہ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ جہانگیر ترین کتنا کام، کیا جذبہ اور کتنی باریکی سے کام کرتے ہیں یقیناً یہ تحریک انصاف کا اثاثہ ہیں ۔خیر اس کے بعد ضمنی الیکشن میں حلقوں کی ریسرچ اور موجود مسائل پر ھماری ٹیم نے کام کیا جس کو سراہا گیا آخری پریزنٹیشن عمران خان کو دی گئی جو انہوں نے بہت توجہ سے سنی اور دیکھی ، 2018ء الیکشن تک کسی نہ کسی سطح پر یہ کام چلتا رہا انہی دنوں سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین صاحب کا کیس چل رہا تھا جہانگیر ترین اپنے حوالے سے مطمئن اور عمران خان کے لیے پریشان تھے۔بعض تکینکی اور دیر سے جمع کروائی گئے ثبوت کی وجہ سے وہ نااہل ھو گئے ان کے بیٹے کو ٹکٹ دیا گیا اور وہ بھی واپس کر دیا گیا۔جہانگیر ترین دکھی تھے لیکن کام سے پیچھے نہیں ہٹے انہوں نے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ عمران خان کو وزیراعظم دیکھنا بڑی خواہش ھے۔ھم بھی بے لوث کام کرتے رہے اور وہ بھی عمران ث کے ساتھ ساتھ الیکشن جیتنے سے حکومت بنانے تک انہوں نے ھر قربانی دی۔اپنی نااہلی کے خلاف اپیل میں بھی گئے۔مگر فیصلہ برقرار رہا لیکن جہانگیر ترین کی حکومت سازی اور بادشاہ گری جاری رہی حکومت کو اتحادیوں کی طرف لانا ھو یا ان کی ناراضگی دور کرنی ھو، ٹرانسپورٹرز کے مسائل ھوں یا تاجروں کے جہانگیر ترین نے حکومت کو کندھا اور بے نامی مگر عملی مدد دی۔ عمران خان بھی سن سے مشاورت اور تعلق سے پیچھے نہیں ہٹے ۔مگر کیا ھوا کہ آٹا اور چینی بحران اور مافیا کا راج کے نام سے بہت کچھ منظر عام پر آنے لگا اسمبلی اور باھر جہانگیر ترین کا نام لیا جانے لگا۔ایف آئی کی تحقیق کے بعد رپورٹ منظر عام پر آئی تو پھر ترین کا نام جس مجھے کم از کم حیرت اور دکھ بھی ہوا۔کہ صرف 56 کروڑ کا فایدہ جہانگیر ترین کے لیے بے معنی ھے وہ ایک بڑے کاروباری اور تجارتی ماھر ھیں بہت دولت مند بھی ھیں مگر کیا صرف 56 کروڑ انہیں عزیز تھے جس کے لیے وہ کم ازکم بارہ سال جدوجہد کرتے رہے؟ یا سبسڈی پنجاب حکومت نے دی اور با امر مجبوری فائدہ انہیں ھو گیا کچھ تو راز ھے میرے خیال میں جہانگیر ترین صاحب کو اب بھی ثابت قدم رہنا چاہیے اور وہ ھونگے عمران خان انہیں بلا وجہ ضائع نہیں ھونے دیں گے قصور وار کو آٹا چینی بحران پیدا کرنے والوں کو سزا ضرور ملنی چائیے لیکن انصاف کے تقاضے پورے ھوں۔ اور کوئی کتنا بھی طاقتور ور ھو بچنا نہیں چاھیے مگر جہانگیر ترین نے عمران خان کو تخت پر بٹھایا ھے تو صبر بھی زیادہ کرنا ھوگا۔بادشاہ گر ھیں در بدر ھیں مگر جیت انصاف کی ھو گی اس پر غور بھی کرنا ھو گا اور کمیشن کی رپورٹ کا انتظار بھی کہیں امید ٹوٹ نہ جائے۔!

 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.