دنیا بھر کی حکومتوں نے کورونا وائرس کے خلاف کئی طریقوں
سے اپنا ردِعمل ظاہر کیا ہے اور اس سلسلے میں سب سے واضح نظر آنے والا
مختلف پہلو، اس بیماری کی ٹیسٹنگ یا جانچ کا طریقہِ کار ہے۔
تو کون کون سے ٹیسٹ موجود ہیں اور مختلف ممالک میں یہ کتنے وسیع پیمانے پر
استعمال ہو رہے ہیں؟
کورونا وائرس کے ٹیسٹ کتنی اقسمیں کے ہیں؟
برطانیہ کے بیشتر ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے ٹیسٹوں کا مقصد یہ دیکھنا
ہے کہ آیا کسی میں کورونا وائرس موجود ہے بھی یا نہیں۔
سواب ٹیسٹ ناک یا گلے سے لئے گئے نمونہ سے کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں وائرس
کے جینیاتی مواد کی نشاندہی کے لیے لیبارٹری کو بھیج دیا جاتا ہے۔۔
ایک دوسری قسم کا ٹیسٹ اینٹی باڈی کا ٹیسٹ ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے یہ دیکھا
جا سکتا ہے کہ آیا پہلے ہی کسی شخص کو یہ وائرس ہوچکا ہے یا نہیں۔
اس دوسری قسم میں ایک آلے پر خون کے ایک قطرے کا استعمال کرتے ہوئے قوتِ
مدافعت کو دیکھا جاتا ہے۔ یہ بالکل حمل کے ٹیسٹ جیسا ہی ہے۔
برطانوی حکومت نے ساڑھے تین لاکھ اینٹی باڈی ٹیسٹ کتس خریدی ہیں لیکن ابھی
تک ان میں سے کچھ ایسا نہیں مل سکا جسے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کے لیے
قابل اعتماد سمجھا جا سکے۔
یہ ٹیسٹ کس حد تک درست نتائج دیتا ہے؟
ہسپتالوں میں استعمال کیے جانے والے تشخیصی ٹیسٹ بہت قابل اعتماد ہیں۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان ٹیسٹوں کے دوران کورونا وائرس کے ہر کیس
کی نشاندہی ممکن ہوسکے گی۔ اگر کوئی مریض اپنے انفیکشن کے بالکل آغاز میں
ہے یا اگر اس کے جسم میں وائرس کی تعداد بہت کم ہے تو ایسے میں مریض کا
ٹیسٹ منفی بھی آ سکتا ہے۔
ابھی تک اینٹی باڈی ٹیسٹ اتنے قابل اعتماد ثابت نہیں ہوسکے۔
برطانیہ میں محکمہِ صحت کے سیکرٹری میٹ ہینکوک نے گذشتہ روز کہا تھا کہ 15
بہترین اینٹی باڈی ٹیسٹوں کا تجربہ کیا گیا لیکن ان میں سے ابھی تک کوئی
بھی بہتر نہیں ۔
برطانیہ میں ان ٹیسٹیوں کی نگرانی کرنے والے پروفیسر جان نیوٹن نے میڈیا کو
بتایا کہ چین سے خریدی گئی ٹیسٹنگ کتس ایسے مریضوں میں اینٹی باڈیز کی
نشاندہی کرنے میں کامیاب رہے جو کورونا وائرس سے شدید بیمار تھے۔ لیکن ایسے
مریض جن کی حالت اس وقت زیادہ خراب نہیں تھی، ان میں ناکام رہے۔
ٹیسٹنگ کیوں ضروری ہے؟
لوگوں کی ٹیسٹنگ کرنے کے پیچھے دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ، انفرادی
طور پر ان کی تشخیص کی جائے اور دوسرا یہ معلوم کیا جائے کہ ان یہ میں
وائرس کس حد تک پھیلا ہے۔
یہ معلومات محکمہ صحت اور طبی عملے کو مستقبل میں اس کیخلاف منصوبہ بندی
میں مدد بھی دے سکتی ہے جن میں یہ بھی شامل ہے اور یہ بھی کہ انتہائی
نگہداشت کے کتنے یونٹس کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
ٹیسٹنگ، معاشرتی دوری جیسے اقدامات کے متعلق فیصلو ں میں بھی مددگار ثابت
ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر لوگوں کی بڑی تعداد پہلے ہی انفیکشن سے
متاثر ہو چکی ہے تو ایسی صورت میں لاک ڈاؤن کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں
رہتی۔
اور زیادہ وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صحت کے کارکنوں
سمیت، بہت سارے لوگ بلا وجہ خود کو الگ الگ کر سکتے ہیں۔
مختلف ممالک کتنے وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ کر رہے ہیں؟
جنوبی کوریا، جو برطانیہ کے مقابلے میں کہیں گنا زیادہ اور وسیع پیمانے پر
ٹیسٹنگ کرنے میں کامیاب رہا ہے، انھوں نے ٹیسٹنگ کٹس کی تیاری کو منظور
کرنے کے لیے بہت تیزی سے کام کیا تھا۔ اس اقدام نے انھیں بہت سی کٹس ذخیرہ
کرنے کے قابل بنایا۔
اگرچہ جنوبی کوریا کی آبادی برطانیہ سے کافی کم ہے لیکن ان کے پاس اس وقت
دگنی تعداد میں لیبارٹریاں اور ہفتہ وار ٹیسٹنگ کی سہولت برطانیہ سے ڈھائی
گنا زیادہ ہے۔
جرمنی نے برطانیہ کے مقابلے تین گنا زیادہ ٹیسٹ کیے ہیں۔
27 مارچ تک ، جرمنی نے ایک لاکھ شہریوں میں سے 1096 کے ٹیسٹ کیے ہیں جبکہ
یکم اپریل تک برطانیہ ہر لاکھ آبادی میں سے صرف 348 کے ٹیسٹ کرنے میں ہی
کامیاب ہو سکا تھا۔
اس کے موازنے میں اٹلی میں ہر ایک لاکھ کی آبادی میں 895، جنوبی کوریا میں
842، امریکہ میں 348 اور جاپان میں 27 کے تناسب سے کیا گیا ہے۔
|