اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آب زم زم مسلمانوں کے
لئے کتنا اہمیت کا حامل ہے اور کیوں نہ ہو، یہ شفا کرنے والا وہ مقدس پانی
ہے جس کی اہمیت صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کو نبی کریم رحمۃ
للعالمین ﷺ نے خود بتلائی ہے اور اس مقدس پانی کو نوش کرنے سے قبل جو نیت
کرنی ہے وہ بھی حضور اکرم ﷺ نے سکھائی ہے۔ اللھم انی اسألک علماً نافعاً و
رزقاً واسعاً و شفاءً من کل داعِ۔ اس مہلک وبائی مرض کورونا وائرس کے
متاثرمریضوں کو آب زم زم دینے کی تجویز امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس نے
کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ کورونا سے متاثرہ افراد کی نفسیاتی اور جذباتی
امداد کیلئے آب زم زم فراہم کیا جائے۔ اپنی تجویز میں امام کعبہ نے کہاکہ
ان تمام ہاسپتالوں میں آب زم زم فراہم کیا جائے جہاں کورونا وائرس کے مریض
زیر علاج ہیں، اس سے ان کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر علاج میں مدد ملے گی
اور وہ جلد صحت یاب ہوسکیں گے۔ ویسے آج دنیا کے کئی مسلم گھرانوں میں اس
وبائی مرض سے بچنے کے لئے مسلمان مقدس ترین پانی ’’آب زم زم‘‘ کا استعمال
کررہے ہیں اور اﷲ رب العزت کو منانے کیلئے توبہ و استغفار کرتے ہوئے مہلک
بیماری سے بچنے کی امید رکھے ہوئے ہیں۔ہر سال لاکھوں مسلم مریض آب زم زم سے
شفایاب ہوتے ہیں ، کیونکہ حج و عمرہ کو آنے والے لاکھوں حجاج و معتمرین اس
مقدس پانی کو اپنے اپنے ممالک لے جاتے ہیں اور اسے تبرک کے طور پر تقسیم
کرتے ہیں ۔
کورونا وائرس کاشکارسوپر پاور ملک امریکہ بھی بے بس
خوف و ہراس اور غم و اندوہ کے ماحول میں‘ مرنے والوں کی آخری رسومات کیلئے
پوری احتیاط کے ساتھ ہاسپتلوں کے عملے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹرس
و دیگر طبی عملہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد مرنے سے قبل جس طرح
ممکن ہوسکتا ہے کہ مریضوں کو بچانے کی انتھک کوششیں کررہے ہیں لیکن تقدیر
کا فیصلہ اٹل ہے ۔ جس کی موت ،جہاں لکھی ہوئی ہے اور جیسے بھی لکھی ہوئی ہے
ہوکر ہی رہے گی اور جو بچنے والے مریض ہیں وہ وائرس کے شکار مرنے والے
مریضوں کے قریب ہی بیڈ یا وارڈ میں رہے ہونگے لیکن پھر بھی زندگی کی مزید
گھڑیاں دیکھنے کے قابل ہیں اسی لئے وہ مہلک وبا کے ذریعہ مرنے والوں کے
ساتھ رہنے کے بعد بھی ابھی زندہ ہیں اور یہی وہ قدرت الٰہی ہے جس پرانسانوں
کو غور و خوص کی ضرورت ہے ۔سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جاکر
واپس آگئے ہیں مہلک بیماری سے لاکھوں لوگ بچ چکے ہیں ۔اس مہلک وبا ’’کورونا
وائرس‘‘ سے بچنے کے لئے کئی طرح کی احتیاطی تدابیر کئے جارہے ہیں حکومتیں
عوام کی جان کی سلامتی کیلئے سخت سے سخت احکامات جاری کرچکے ہیں اور اس پر
سختی کے ساتھ عمل بھی جاری ہے۔ آج دنیا کے 185سے زائد ممالک میں کورونا
وائرس داخل ہوچکا ہے اور اس مہلک بیماری سے متاثر ہونے والوں کی تعداد
19,24,878سے متجاوز کرچکی ہے اور مرنے والوں کی تعداد 1,19,766سے زائد
ہوچکی ہے۔ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ کے شہر
نیویارک میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ایسے ایسے مناظر منظرعام پر آرہے ہیں کہ دیکھ کر ہر
کوئی گھبرا جائے اور وہ خوف و ہراس کی کیفیت سے دوچار ہوجارہے ہیں۔
ہاسپتلوں میں لاشیں بھری پڑی بتائی جارہی ہیں اور ان لاشوں کو باڈی بیگز
میں ڈال کر ہاسپتلوں کی راہداریوں میں قطاروں کی شکل میں رکھا جارہا
ہے۔رپورٹس کے مطابق ہاسپتلوں کے باہر ریفریجریٹڈ ٹرک آرہے ہیں اور ہر ٹرک
میں درجنوں لاشیں ڈال کر روانہ کیا جارہا ہے ۔ ہاسپتلوں میں ایک طرف لاشوں
کے انبار ہیں تو دوسری جانب طبی عملے کے ارکان جو انتہائی افسردہ اور
پریشان، خوف و دہشت میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکہ جو سوپر پاور کی
حیثیت سے دنیا پر اپنی ڈھاک بٹھا رکھا تھا آج یہیں سب سے زیادہ کورونا
وائرس کے متاثرین ہوگئے ہیں،پورے ملک میں 23ہزار کے لگ بھگ ہلاکتیں ہوچکی
ہیں۔ امریکہ کا شہر نیویارک سٹی اس وقت کورونا وائرس کی وباء سے سب سے
زیادہ متاثر ہے جہاں کے ہاسپتلس میں ضروری طبی سازو سامان بھی ناکافی بتایا
جارہا ہے، ایک تجربہ کار نرس جو اس فیلڈ میں 12سال سے زائد کا تجربہ رکھتی
ہیں کا کہنا ہیکہ نیویارک شہر کے جس ہاسپتل میں وہ کام کرتی ہیں وہاں انہیں
اپنی حفاظت کے لئے ضروری سامان یعنی ذاتی حفاظتی سامان بھی کم مل رہا ہے۔
اس نرس کا کہنا ہیکہ انہیں ایک این 95ماسک ملا ہے اور انہیں کہا گیا کہ اسے
پانچ شفٹوں میں استعمال کریں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس وبا سے پہلے ہمیں ان
سامان کو دوبارہ استعمال کی اجازت نہیں تھی ، ایک بار استعمال کرکے اسے
پھینک دیا جاتا تھا۔ جبکہ اب عملے سے کہا جارہا ہے کہ اسے اپنی شفٹ کے
دوران استعمال کریں اور شفٹ کے خاتمے پر اسے کاغذ کے تھیلے میں بند کردیں
اور اگلی شفٹ پر اسے دوبارہ استعمال کریں۔ پانچ شفٹوں میں استعمال کے بعد
ہم اسے واپس کرکے نیا ماسک لے سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہر مریض کے
ساتھ ایک مشین ہوتی ہے جو مریض کے جسم میں پہنچائے جانے والی دوا کی مقدار
کا حساب رکھتی ہے اور اس کا کام ہوتا ہیکہ ضرورت سے زیادہ دوا کو انسانی
جسم میں جانے سے روکے۔ نرس کا کہنا ہیکہ اب ہمارے پاس وہ پمپس ختم ہوگئے
ہیں، ہمارے پاس مریضوں کو بے ہوش کرنے کے لئے صحیح آلات موجود نہیں ہیں۔
بتایا جارہا ہے کہ بعض نرسیں اپنی ڈیوٹی کے بعد گھر بھی نہیں جارہی ہیں
کیونکہ گھر میں ان کے بچے اور عمر رسیدہ والدین ہیں۔ موجودہ صورتحال سے
متعلق نرس کا کہنا ہے کہ ہم گھروں میں بھی دباؤ کا شکار ہیں، ہم ہر وقت
اپنے مریضوں ، اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں سوچتے ہوئے پریشان ہوتے
ہیں۔ ان کا کہنا ہیکہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں ایسی صورتحال
سے دوچار ہونا پڑے گا۔ نرس نے اس ڈرو خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی
صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے اور ابھی سے طبی ضروری اشیاء کی قلت ہورہی ہے۔
وہ اس ڈر کا اظہار بھی کررہی ہے کہ ہماری تمام ضروری اشیاء کی رسد ختم
ہوجائے گی اور ہمیں 24گھنٹوں تک کام کا حکم بھی دیا جاسکتا ہے ۔اس وباء کے
سلسلہ میں نرس کا کہنا ہیکہ یہ مئی یا جون تک جاری رہے گی ۔ عوام سے انکا
کہنا ہیکہ ضروری عملے یعنی پولیس، نرسیں ، ڈاکٹرز، اور ایسے لوگ جن کا اس
وبا پر قابو پانے کے لئے گھروں سے نکلنا ضروری ہے ، اس کے علاوہ تمام لوگ
گھروں کے اندر بند رہیں ، یہی ایک طریقہ ہے اس مہلک وبا پر قابو پانے کا۔
وہ کہتی ہے کہ اگر ایسا نہیں کرینگے تو اس وبا کا خاتمہ جلد ختم نہیں
ہوپائے گا۔ اس وقت دنیا میں نیویارک شہر کی صورتحال سب سے زیادہ خراب
دکھائی دیتی ہے۔عملے کو احتیاطی تدابیر کیلئے ضروری اشیاء کی کمی، مریضوں
کیلئے ضروری اشیاء کی کمی اور پھر ہر روز بے تحاشہ متاثرین کا اضافہ،
ہاسپتلوں میں مریضوں کیلئے جگہ کی گنجائش نہیں اور پھر ابھی تک اس مرض کی
کوئی دوا ایجاد نہیں ہوسکی ہے۔ مہلک وبا سے مرنے کے بعد ہلاک ہونے والوں کی
آخری رسومات کیلئے انتظامات بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے ۔ یہ اس ملک کے
اہم ترین شہر کی حالت ہے جہاں مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا
جارہا ہے تو وہیں مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔دنیا بھر میں
اس مہلک وبائی مرض کیلئے عام شہریوں کو سخت احتیاط برتنے کیلئے کہا جارہا
ہے وہیں امریکہ کے ہاسپتلوں میں طبی عملے کو جو اپنی جانوں کو جوکھم میں
ڈال کر خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں انکی اپنی جان کی سلامتی کیلئے ضروری
اشیاء تک برابر سپلائی کرنے سے سوپرپاور ملک لاچار دکھائی دے رہا ہے۔ آج
سوپرپاور ملک امریکہ کے صدر اور دیگر اعلیٰ قیادت اور دشمنانِ اسلام کو
سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہورہا ہے۔مشرقِ وسطی اور
دیگر مسلم ممالک میں گذشتہ دو تین دہائیوں سے امتِ مسلمہ پر خطرناک حملے
کئے جارہے تھے کبھی ان پر میزائل داغے جاتے رہے تو کبھی خطرنا ک ہتھیاروں
کے ذریعہ خطرناک آتش گیر مادے فضائی اور زمینی حدود سے گرائے گئے اور
دیکھتے ہی دیکھتے معصوم اور بے قصور مردو خواتین اور بچے جل بھن کرجاں بحق
ہوگئے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور لاکھوں
افراد بشمول بچے، ضعیف،مردو خواتین زخموں سے دوچار ہوچکے ہیں۔ ان معصوم
یتیم بچوں، بیواؤں اور ضعیف مظلومین کی آہیں شاید آج رنگ لارہی ہیں ۔بڑے
بڑے ظالم و جابرحکمراں ابھی اﷲ کے اس عذاب کو سمجھ نہیں پائے ہیں شاید بہت
جلد انہیں اسکی سمجھ ہوجائے گی۔ بے شک آج اس وبائی مرض سے مرنے والے اور
مریضوں میں بے قصور افراد بھی ہوسکتے ہیں ۔ کورونا وائرس کی شکل میں’’ قہر
الٰہی ‘‘کے سامنے سوپر پاور کہلائے جانے والے ممالک بے بس اور مفلوج ہوکر
رہ گئے ہیں۔ انکے پاس کھربوں ڈالرس کے خطرناک ہتھیار تو ہیں لیکن طبی عملے
، مریضوں اور مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے کیلئے ضروری اشیاء کی کمی
محسوس ہورہی ہے۔عام لوگوں کو اس بیماری سے بچنے کیلئے ماسک اور دیگر ضروری
اشیاء کے استعمال کی ترغیب دی جارہی ہے لیکن ذرائع ابلاغ سے ملنے والی
رپورٹس سے پتہ چلتاہے بعض ممالک میں مہلک وبائی مرض میں ملوث افراد کی
خدمات انجام دینے والے طبی عملے کو احتیاطی ضروری اشیاء برابر نہیں مل
پارہی ہیں اور ان سے کہا جارہا ہے کہ جیسا بھی ہوسکتا ہے اسے استعمال
کریں۔آج اسلامی ممالک میں بھی وبائی مرض پھیل رہا ہے اور اس مرض کے پھیلنے
کے ڈر سے اﷲ رب العزت کے گھر بند کردیئے گئے۔ جس طرح مسلم حکمراں دشمنانِ
اسلام کا ساتھ دے کر اپنے اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش کئے اور معصوم
مسلمانوں کے قتل عام میں برابر کے شریک رہے آج انکا حال بھی بُرا ہے ۔ وہ
بھی اپنے انجام سے خوف زدہ ہیں۔
کورونا وائرس کے بعد ترکی میں ہزاروں قیدیوں کی رہائی
ترکی پارلیمنٹ نے کورونا وائرس پھیلنے کے پیشِ نظر ہزاروں قیدیوں کی رہائی
کیلئے قانون پاس کیا ہے۔ قانون کے مطابق عمر رسیدہ مرد و خواتین قیدیوں
سمیت دیگر مجرموں کو رہائی ملے گی اور ابتدائی طور پر 45ہزار قیدیوں کو ملک
کی مختلف جیلوں سے رہاکیا جائے گا۔ ترکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس قانون سے
90ہزار لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ البتہ اس قانون کے زمرہ میں دہشت گردی،
جنسی زیادتی ، قتل و منشیات کے مجرم نہیں آتے۔واضح رہے کہ ترکی میں 61ہزار
سے زائد کورونا وائرس کے متاثرین بتائے جارہے ہیں جبکہ جاں بحق ہونے والوں
کی تعداد 12سو سے زائد بتائی جارہی ہے ۔ ترکی کے تقریباً 31صوبوں میں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کرفیو نافذ کیا گیا ہے اور اس
دوران کسی بھی شخت کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔
متحدہ عرب امارات کا غیر ملکیوں کے لئے اہم فیصلہ
کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک بحران کا شکار ہیں۔ متحدہ عرب
امارات نے ملک میں مقیم غیر ملکیوں کے اقاموں میں ڈسمبر تک توسیع کرنے کا
اعلان کیا ہے۔ غیرملکیوں کے اقاموں کی توسیع خودکار نظام کے تحت ہوگی خواہ
وہ ملک میں مقیم ہوں یا بیرون ملک گئے ہوئے ہوں جو بحران کی وجہ سے واپس
نہیں آسکتے۔ محکمہ اقامہ و شناختی کارڈ نے کہا ہیکہ یکم؍ مارچ سے ختم ہونے
والے اقاموں کی ڈسمبر تک توسیع کرنے کے لئے ادارے میں آنے کی ضرورت نہیں
ہے۔ محکمہ اقامہ و شناختی کارڈ کے ترجمان بریگیڈیئر خمیس الکعبی نے کہا کہ
یہ فیصلہ حکومت نے غیر ملکی تارکین کی سہولت اور آسانی کے لئے کیا ہے۔یہ
سہولت وزٹ ویزوں پر آنے والے غیر ملکیوں کے لئے بھی ہے جو ملک میں موجود
ہیں، یہ وزٹ ویزے بھی ڈسمبر تک فعال سمجھے جائیں گے۔ متحدہ عرب امارات میں
وزارت صحت نے اب تک 23ہزار 380غیر ملکیوں کا کورونا ٹسٹ کیا ہے ، وزارت کے
مطابق معذور، بیمار اور معمر افراد کی سہولت کیلئے وزارت نے گھر میں جاکے
کورونا ٹسٹ لینے کا بھی انتظام کیا ہوا ہے۔
تیل کی پیداوار میں کمی۔ عالمی سطح پر بڑا معاہدہ
کورونا وائرس کی وجہ سے جس طرح جانی نقصان میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے
ایسے ہی عالمی سطح پر معیشت بُری طرح متاثر ہورہی ہے اور یہ سلسلہ کب تک
جاری رہے گا ، دنیا کی حالت کتنی بُری طرح متاثر ہوگی اس کا اندازہ کرنا
محال ہے۔ اس وبا کی وجہ سے تیل کی مانگ میں کمی آچکی ہے ، دنیا کے بیشتر
ممالک میں عوام کو گھروں میں رہنے کے لئے کہا گیا ہے جس کا اثر تیل پر بھی
پڑا ہے۔ تیل کی مانگ میں کمی کے پیشِ نظر تیل کی پیداوار میں 10فیصد کم
کرنے کا اوپیک ممالک اور انکے اتحادیوں میں اتفاق ہوگیا ہے۔ 12؍ اپریل کو
ویڈیو کانفرنس کے ذریعے طے پانے والا یہ معاہدہ تاریخ میں تیل کی پیداوار
کم کرنے کا سب سے بڑا معاہدہ بتایا جارہا ہے۔عالمی سطح پر تیل کی مانگ میں
تقریباً ایک تہائی تک کمی بتائی گئی ہے کیونکہ دنیا میں تین ارب لوگ کورونا
وائرس کی وجہ سے اپنے گھروں میں بند ہیں۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ دنوں
اوپیک ممالک کے اتحادیوں نے 10ملین بیرل یومیہ کی کمی کا اعلان کیا ہے جس
کا اطلاق یکم؍ مئی سے ہوگا۔ یہ عالمی رسد کا تقریباً دس فیصد ہوگا۔ اس کے
علاوہ اوپیک سے باہر کے ممالک جیسے امریکہ، کینیڈا ، برازیل اور ناروے بھی
پانچ ملین بیرل یومیہ کی پیداوار میں کمی کریں گے۔بتایا جاتا ہیکہ جولائی
اور ڈسمبر کے درمیان رسد کی اس کمی میں نرمی لاکر اسے 15سے 8ملین بیرل
یومیہ لے جایا جائے گا اور جنوری 2021اور اپریل2022تک اس کمی کو چھ ملین
بیرل تک لے جایا جائے گا۔ یہ تو موجودہ حالات کے تناظر میں فیصلہ کیا گیا۔
مستقبل میں حالات کس نوعیت کے ہونگے اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا
۔
***
|