ایک آپریشن کراچی کے لیے بھی کیجیے

 آپ ذرا ایک لمحے کے لیے ہی تصور کرلیں کہ آپ اپنے گھر کے واحد چشم و چراغ ہیں ،آپ کی بوڑھی ماں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں کی روشنی آپ ہی ہیں ،اپنی بیوی، بچوں اور عزیزوں کی زندگی کے آنگن میں خوشیوں کے دیئے آپ سے جلتے ہیں،آپ کے گھر کے چولہے کی آنچ آپ کے دم سے ہے ، صبح آپ گھر سے نکلتے ہیں اور شام یا رات گئے لوٹتے ہیں،اگر کسی دن جب آپ زندگی کی گاڑی دھکیلنے کے لیے معاش کی تلاش میں نکلیں اور نکلتے ہی کسی چوراہے ، کسی فٹ پاتھ یا کسی سڑک کے کنارے آپ ٹارگٹ کلنگ کا شکار بن جائیں،آپ کسی خود کش بم دھماکے کی زد میں آکر کسی عمارت کے ملبے تلے دب جائیں،کسی شام آپ”کٹی پہاڑی“پر کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جائیں اور آپ کی کٹی پٹی لاش وہیں پڑی ملے ،تو ذرا دیر کے لیے سوچیے !آپ کے گھر والوں کی کیا حالت ہوگی؟آپ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ آپ کے خوشیوں کے آنگن میں کیسا کہرام مچ اٹھے گا،اس کا خیال ہی آپ کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے کہ آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کے گھر والے کس کے سہارے جیئں گے؟؟؟؟ بالکل یہی حالت،یہی صورتحال اور یہی سچویشن آج کراچی کے شہریوں کی ہے ،جو ایک عرصے سے اسی خوف کے سائے تلے جی رہے ہیں،ہر روز دس سے بارہ افراد کی نشانہ کشی ہورہی ہے ،ہفتے میں دو سے تین ہڑتال کی چھٹیاں، پتھارے، ہوٹل اور گاڑیوں کا نذر آتش ہونا ،سڑکوں میں خون،فضا میں خو ف و سراسیمگی کراچی کی معمولات زندگی کا حصہ بن کر رہ گئیں ہیں۔

یہ شہر کبھی عروس البلاد کے نام سے مشہور تھا،لیکن آج اس ”شہروں کی دلہن “کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے ؟یہ زخموں سے چور اور لہولہان ہے،اس کی سوگوار فضائیں آہ و بکا اور اور سسکیوں سے گونج رہی ہیں،آشیانے ویران ہورہے ہیں،بستیاں اجڑ رہی ہیں،بچے یتیم،بیویاں بیوہ اور ماﺅں کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہیں،گلیاں سنسان،سڑکیں خون سے رنگین اور ہواﺅں میں تخریب کی ایک بو سی رچی بسی ہے،سرراہ موت ننگا ناچ ناچ رہی ہے ،مسجدوں ، مزاروں اور بازاروں میں انسانی اعضاء اور خون کے لوتھڑے بکھرے پڑے ہیں،پورے شہر میں ہر سو خوف و ہراس کا سماں اور ہو کا عالم ہے ،دن میں بھی تیرگی چھائی رہتی ہے،شام ہوتے ہی ہر طرف الو بولنے لگتا ہے ،دن بہ دن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں،دن دہاڑے گلی کوچوں میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں بے شمار گھروں کے چراغ گل ہوچکے ہیں، کبھی کوئی مارکیٹ انہی فسادات کی آگ میں جل رہی ہوتی ہے ،کبھی کسی ”پردیسی“ کے ہوٹل،تھلہ یا ریڑھی کو راکھ کا ڈھیر بنتے دیر نہیں لگتی، کبھی کبھی تو غریب شہر کے بے جان رکشوں کو بھی بلا قصور نذر آتش کردیا جاتا ہے ۔

یوں تو پورے ملک کی ہی صورتحال یہی ہے،پوری قوم اس وقت بد امنی اور کرب و بلا کے طوفان خیز بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے،وطن عزیز پر عجیب و غریب اور مختلف مصائب و مسائل کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، کراچی سے کوئٹہ اور لاہور سے سوات تک پورا ملک قتل و غارت گری اور سفاکیت کے طوفان و آندھی کی شدید لپیٹ میں ہے،بلا امتیاز پوری ہی قوم خودکش حملوں کے ملبے تلے کراہ رہی ہے،ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ایک نیا حادثہ ، ایک نئی افتاد اور ایک نیا بحران ا مڈ آتا ہے،مگر بے وجود حکومت کے بے جان حکمرانوں کو اس کی کوئی خبر نہیں ،وہ ان تمام باتوں سے بے نیاز پارلیمنٹ کے بالا خانوں میں مقید بحسن و خوبی امریکہ کے احکامات کی بجا آوری میں مصروف ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ تو وہ اپنے کل کے دشمنوں کے ساتھ اقتدار کی بندر بانٹ کے ذریعے کررہے ہیں،بلوچستان میں یہود و ہنود (اسرائیل و بھارت)اپنے مکارانہ گٹھ جوڑ سے شورش ،فتنہ اور انتشار پھیلا رہے ہیں،سرحد و قبائلی علاقوں میںفوجی آپریشن اور ڈرونز برسائے جارہے ہیں،پنجاب وفاق کے ساتھ دست و گریباں ہے،جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی لسانیت و عصبیت کی آگ میں جھلس رہا ہے،اس کی گردن کو انسانیت کے دشمنوں نے اپنے پنجہ خونیں میں دبوچ رکھا ہے،ہر طرف خون اور اشکوں کی برسات ہورہی ہے،پتہ نہیں! وہ کونسی آفت بلا خیز رہ گئی ہے ،جو اس کے مکینوں پر قیامت صغری بن کر نہ ٹوٹی ہو؟؟

ملک کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جہاں پوری قوم دل گرفتہ ہے،وہیں” منی پاکستان“ کے حالات خون کے آنسو رلانے کے لیے کافی ہیں،شکستہ دل، مضطرب دھڑکنوں اور بے ترتیب سانسوں کی حامل اس عجیب مخلوق کی داستان بھی نرالی ہے،جسے سن کر تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے،اس بدنصیب قوم کا دکھڑا ہی یہی ہے،ایک ایم پی اے ، ایک سابق ایم این اے اور ایک سیکٹر انچارج کے قتل پر پورے شہر میں کہرام مچ اٹھتا ہے،پرامن یوم سوگ پر بھی 40سے42گاڑیاںجلادی جاتی ہیں،پاکستان کی 70فیصد انکم کا ذریعہ کراچی کی صنعتیں ہیں،لیکن اب ان ساری صنعتوں کے مالکان آئے روز کی ہڑتالوں، بھتہ خوری اور بلیک میلنگ کی وجہ اپنا سارا انویسٹ بیرون شہر اورغیر ممالک میں لگا رہے ہیں،اسی وجہ سے پورے ملک کی معیشت ڈی گریڈ ہوتی جارہی ہے۔اس کی کسی کو چنداں فکر نہیں، فکر ہے تو بس اپنی وزارت اور اپنے اسٹیٹس کی ہے!

کرچی کا مسئلہ کیا ہے؟کراچی میں لمحہ بھر کے لیے بھی کیوں امن قائم نہیں رہ سکتا؟انسانیت کے مسلح دشمن کھلے عام دندناتے رہتے ہیں،انہیں کوئی لگام کیوں نہیں ڈال سکتا؟اس کے لیے کتنی ساری میٹنگیں ہوئیں؟کتنے سارے ہنگامی اجلاس بلوائے گئے ؟ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بلند بانگ بیانا ت بھی کام نہ آئے اور عبدالرحمن ملک کے لندن کے مسلسل طواف بھی سعی لاحاصل رہے ،آخر اس کی گھتی سلجھنے میں کیوں نہیں آتی؟کیا کراچی میں امن و امان کا مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ ہے جو نہ صوبائی حکومت سے سنبھلنے میں آرہا ہے اور نہ وفاق کے پاس اس کوئی حل ہے؟آخر کراچی کی سیاسی جماعتیں،یہاں کی صوبائی حکومت اور وفاق اس معاملے میں سنجیدہ کیوں نہیں ہے؟؟؟؟

عسکری دانشوروں سے لیکر ایک عام شہری تک کا ماننا ہے کہ کراچی میں حالیہ بد امنی کی لہر کا واحد حل بلا امتیاز فوجی آپریشن ہے،حکومت اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے مخصوص علاقوں پر سرچ آپریشن تو کر لیتی ہے مگر جن علاقوں میں دہشت گردوں کی اصل کمین گاہیں موجود ہیں ، ان کو کوئی نہیں پوچھتا ؟حکومت اگر اس مسئلے پر واقعی سنجیدہ ہے تو پھر تمام حساس علاقوں میں فوجی ایکشن سے کیوں گریزاں ہے؟صرف اپنا اتحاد بچانے کے لیے سینکڑوں انسانوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دینا انسانیت دشمنی نہیں ؟نام نہاد جمہوریت کے علمبردار،انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مظلوموں کے ساتھی کہاں مرے جاتے ہیںجب کراچی میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے؟کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا !

کراچی کے ناتواں کاندھوں پر 25 برسوں سے بوری بند لاشیں لادی جارہی ہیں،یہاں کے لوگوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کیا جاتا ہے،پیٹیاں نہ ملنے پر ٹارچر ،سڑکوں سے اسمبلی تک گولی اور گالی کی سیاست اور فیکٹریوں ،دکانوں اور ٹیلے والوں سے یومیہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے،لیکن حکومت ان سارے حالات سے آنکھیں موندے اپنے دبیز غالیچوں اور ریشمی پردوں والے بالاخانوں میں حسین خوابوں میں گم گشتہ ہے،حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں،لیکن خدارا ! ہوش کے ناخن لیجیے!سوات اور بلوچستان کی طرح ایک آپریشن کراچی کے نام بھی کیجیے !!!
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 28944 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More