ہم ایبٹ آباد میں ہونے والے
سانحے کے بارے میں ہر طرف سے اٹھنے والے بے شمار سوالات کو ایک طرف رکھتے
ہیں ، کہ ملک کی خود مختاری کے بارے میں زیادہ باخبر اور زیادہ ذمہ دار
ہمارے حکمران ہی ہیں، اسی لئے وہ عوام وغیرہ کی خواہشات کے برعکس وسیع تر
ملکی مفاد میں اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ بسا اوقات حکمران ، میڈیا اور دانشور
ایک نظریہ کے حامی ہوتے ہیں اور عوام ان کے بالکل برعکس دوسرا زاویہ نگاہ
رکھتے ہیں۔اسامہ بن لادن کے معاملے میں اسی قسم کی صورت حال پائی جاتی ہے،
کون جانے اس واقعے کی تہوں سے کتنے انکشافات برآمد ہوں گے، کیا راز سامنے
آئیں گے، کتنے پردے فاش ہونگے؟ ان تمام باتوں سے قطع نظر حیر ت کی بات یہ
ہے کہ ادھر امریکہ نے اعلان کیا ، ادھر ہمارے حکمرانوں نے اسے عظیم فتح
قرار دے دیا، ہمارے میڈیا نے بھی بہت جذباتی انداز میں گفتگو کی۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت خاموش اور کسی حد
تک دم بخود ہے، ایسے واقعات پر اول اول یقین نہیں آیا کرتا، مگر حقیقت کو
تسلیم کرنا پڑتا ہے، عوام کو دوسرا صدمہ ہمارے حکمرانوں ، میڈیا اور
دانشوروں کے رویے سے ہوا، کہ اسامہ کے بارے میں توہین آمیز انداز اختیار
کیا گیا، کیونکہ وہ بھی امریکیوں اور اپنے حکمرانوں کی طرح اس بات پر یقین
رکھتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی کی بنیاد اسامہ نے رکھی، امنِ عالم کی
تباہی بھی اسامہ کے ذمہ ہے، دنیا میں ہزاروں افراد کے قتل کا ذمہ بھی اسامہ
پر ہے۔ظاہر ہے ایسا شخص کسی رو رعایت کا حقدار کیسے قرار پاسکتا ہے؟ لیکن
عوام کا یہ خیال نہیں۔ تیسرا صدمہ یہ کہ ہماری خود مختاری کہاں ہے؟
پاکستانی عوام یا ہم جیسے کم فہم لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آسکی کہ
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرنے کی ذمہ داری اگلے ہی لمحے امریکہ سے ہزاروں میل
دور سنگلاخ پہاڑوں میں بیٹھے ایک شخص پر کیسے ڈال دی گئی، یقیناً وہاں
ٹیکنالوجی کی جدید سہولتوں کا فقدان ہی ہوگا، تو اس قسم کے ماحول میں بیٹھ
کر امریکہ جیسے ملک میں اس قدر منظم دہشت گردی کیسے ممکن ہوگئی۔ کسی نے
تحقیق کر کے نہیں بتایا کہ ان جہازو ں نے امریکہ کے فلاں فلاں اڈوں سے اڑان
بھری، عملہ کون تھا، مسافر کتنے اور کون تھے، عوام کو کچھ نہیں بتایا
گیا،پھر اگلے ہی لمحے ملزم کا فیصلہ بھی ہوگیا، اور سب سے اہم بات یہ کہ
تما م دنیا نے اس فیصلے کو تسلیم بھی کر لیا، جن میں ہماری پاکستانی حکومت
اور بعض دانشور پیش پیش تھے۔
انصاف کی یہ کونسی شکل ہے کہ ایک شخص کے لئے ملکوں کے ملک ہی تباہ کردیئے
جائیں، مرنے والوں کی کوئی تخصیص ہی نہ ہو، شادی کی تقریبات بھی جس سے
محفوظ نہ رہیں، ایسی ایسی بمباری کی جائے جسے محاوروں کی زبان مل جائے،
”پاکستان امریکہ کے سامنے سرنگوں ہوجائے ورنہ ’تورا بورا‘ بنا دیا جائے
گا“۔اسامہ کی تلاش میں مرنے والے’ دہشت گردوں‘ میں ہزاروں بچے ، مائیں اور
بوڑھے بھی شامل ہیں، کوئی بعید نہیں کہ ہمارے دانشور بے گنا ہ مارے جانے
والے ان افراد کی موت کا ذمہ دار اسامہ کو ہی قرار دے دیں، کہ بے چاری
امریکی حکومت کو مجبوراً ایسا کرنا پڑا۔
اگر گزشتہ دس برس سے دہشت گردی کی جنگ اسامہ کے خلاف ہی جاری تھی تو اب یہ
اپنے انجام کو پہنچ جانی چاہیے، کیونکہ امریکہ نے اپنا ٹارگٹ حاصل کرلیا
ہے، اگر یہ جنگ اب بھی جاری رہے گی ، تو پھر یہ جنگ کبھی ختم ہی نہیں
ہوسکتی ،کیونکہ امریکی رویوں کی وجہ سے اب ہزاروں اسامے دنیا میں پائے جاتے
ہیں،امریکہ اپنے عمل سے دنیا میں نفرت اور انتقام کے بیج بوتا اور اس کی
فصل کاٹتا ہے، وہ افغانستان ہو یا عراق ، وہ پاکستان ہو یا لیبیا، امریکہ
اپنے دشمن خود بناتا اور دنیا کے امن کی تباہی کا اہتمام کرتا ہے۔ امریکہ
جب تک اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور مسلمانوں کی تباہی کا مرتکب ہوتا رہے
گا ، اسامہ پیدا ہوتے رہیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کو پاکستانی
حکمرانوں جیسے غلام بھی میسر آتے رہتے ہیں اور یہ بھی الگ بات ہے کہ ایسے
حکمران اپنے عوام کی نظروں سے گرتے رہیں گے۔ |