کورونا ایک ٹرمپ کارڈ یا کینگ کارڈ

بین الاقوامی سیاست تاش کے پتوں کی طرح ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گھومتی رہتی ہے۔ ہر پتا ایک خاص اہمیت اور وزن رکھتا ہے۔ وقت سے پہلے پھینکے گئے پتے بغیر رنگ والی دکی(دوا) کی حثییت اختیار کر لیتے ہیں۔ جو اپنے وزن کے ساتھ اہمیت بھی نہ ہونے کے برابر رکھتے ہیں۔ لیکن یہ صرف ماہر سیاست دان ہی جانتے ہیں کے دکی کس وقت استعمال کرنی ہے اور بادشاہ کو کون سے وقت پے کرتب دیکھانا ہے۔ ورنہ بادشاہ اور یکہ بھی بغیر رنگ والی دکی کی طرح بیکار ہی ہو جاتے ہیں۔

امریکا دنیا پے حکومت کرنے کےلیے ہر ملک کہ خلاف ایک خاص کارڈ کھیلتا رہا ہے۔ یہ کارڈ اس کی معاشی عسکری اور سفارتی پالیسی کو دیکھ کر کھیلا جاتا ہے۔ لیکن امریکا جب بھی کھیل کھیلتا رہا ہے اہمیت اور وزن کے سارے کارڈ اپنے پاس رکھتا رہا ہے۔ ماضی میں امریکا کا عراق کےخلاف آمریت اور جوہری ہتھیاروں کا کارڈ کھیل کر حملہ کرنا ہو یا افغانستان پے دہشت گردی کا الزام لگا کے چڑھائی۔ شام میں باغیوں کو مدد کرنی ہو یا سوڈان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہو۔ مصر میں مورسی حکومت کا تختہ الٹنا ہو یا یمن میں خانہ جنگی۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا ہو یا پھر کشمیر پے ثالثی کا کارڈ کھیل کر کشمیر کی قانونی اور سیاسی حثییت کو تبدیل کرنا ہو۔ ہر کارڈ کو ایک خاص وقت اور اس کی اہمیت کے مطابق استعمال کیا گیا۔

چائنہ کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکا نے یکےبعد دیگرے کۂی کارڈ کھیلے مگر کوئی بھی چائنہ کی بڑتی ہوہی معاشی سرگرمیوں اور بہترین خارجہ پالیسی کے مقابلہ میں ایک بے رنگ دکی سے زیادہ کچھ حثییت اختیار نہ کر سکا

مثلاً ساؤتھ چاہنہ سی پے چاہنہ کی عملداری کو بین الاقوامی عدالت میں چیلنج کروا کر اسے غیر قانونی قرار دلانا ہو۔ ہواوے پے امریکا اور یورپ میں کاروبار کرنے پے پابندی عائد کرنا۔ چاہنہ سے امریکا اور یورپ جانے والی برآمدات پے اضافی ٹیکس لگانا۔ انڈیا کے ذریعے سکم بارڈ پے انڈین فوج کو متنازع علاقہ میں تعنیات کروانا ہو، پاکستان کو معاشی اور عسکری محاذ پے مجبور کرنا کے وہ سی پیک کو روک دے۔ چائنہ کے اتحادیوں پے معاشی پابندیاں عائد کرنا وغیرہ پچھلے کچھ عرصہ میں امریکا کی معاشی عسکری اور سفارتی مہم کا چائنہ کے خلاف ایک اہم پہلو رہا ہے۔ لیکن امریکا نے جتنے بھی کارڈ کھیلے وہ سب بیکار اور بے رنگ دکی سے زیادہ کچھ حاصل نہ کر سکے۔ چائنہ نے ان تمام معاملات کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا اور مغرب کو ہر محاذ پر شکست دی۔

کورونا واۂرس کا چین کے شہر ووہان میں حملہ تھا یا ایک قدرتی وبا تھی اس کے بارے میں انٹرنیشنل میڈیا میں مختلف قیاس آراۂیاں ہو رہی ہیں۔ چین نے اس کا الزام امریکا پے لگایا اور اسے ایک حیاتیاتی حملہ قرار دیا۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ وہ ٹرمپ کارڈ تھا جو امریکا نے آخری ہتھیار کے طور پر چاہنہ کے خلاف استعمال کیا۔ لیکن کیا امریکا اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل کر پایا تو جواب نہیں میں ملتا ہے۔اگر ماضی میں امریکا کی دوسرے ملکوں کے خلاف محاذ آرائی دیکھی جاہے تو امریکا ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا لیکن پھر بھی اپنی پالیسی میں کوئی واضع تبدیلی نہیں لاۂی۔دنیا پے سپر پاور ہونے کا رعب جمانے اور معاشی فاہدہ حاصل کرنے کے لیے بہت سے ملکوں پے معاشی اور عسکری حملے کر کے انھیں تباہ کیا گیا۔ اس لیے صرف یہ دیکھ کر کے امریکا کو مقاصد حاصل نہیں ہوہے اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کورونا واۂرس امریکا کی طرف سے چائنیز معیشت پر ایک حیاتیاتی حملہ نہیں تھا۔

لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب کورونا کا حملہ ہوا تو یورپ اور امریکہ اسے اپنے لیے ایک مسیحا سمجھ رہے تھے۔ جو چائنیز معیشت ان کے لیے درد سر بنی ہوئی تھی اس کو کورونا نے تین چار ماہ میں تباہ کر دیا تھا۔ لیکن چائنہ کے تینتیس سو بلین ڈالر کے فارن ریزرو اس کی معیشت کو سہارا دینے اور اسے آئی ایم ایف کے سامنے بھیک مانگنے سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی تھے۔

اب اگر فرص کر لیا جائے کہ یہ وائرس خود چائنہ نے تیار کیا یا چائنہ کو کورونا وائرس کے حملے کا علم تھا تو بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔

وائرس کو ابتدائی سٹیج پر نہ روکنا۔ واۂرس پھلنے کے بعد اقدامات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ چائنیز انٹیلی جینس اس سے باخوبی آگاہ تھی اور وائرس کو ووہان میں پھلنے دیا گیا۔ ووہان کو پورے ملک سے الگ کر دیا گیا۔ ووہان میں چند دنوں میں دس ہزار بیڈ کا ہسپتال تیار کرنا۔ وائرس کو چائنہ کے بڑے صنعتی اور تجارتی مراکز بیجنگ اور شنگھائی جسے شہروں میں پھیلنے سے روک دیا گیا۔ پورے ملک میں آئسولیش وارڈ، اور قرنطینہ سنٹیرز بنا دینا کوئی معمولی اقدامات نہیں تھے. پھر چار ماہ کے قلیل عرصہ میں وائرس پے کنٹرول کر کے ملکی معیشت کو واپس بحال کرنا چائنہ کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ چائنیز اس حملے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ باصلاحیت اور مضبوط قوم بن کے ابھری۔ اور اس نے یہ ثابت کیا کہ وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر کے اسے شکست دے سکتی ہے۔ چائنہ پہلے تین ماہ میں دنیا کو یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب رہا کہ یہ حملہ امریکا اور یورپ کی طرف سے ایک حیاتیاتی حملہ تھا اور اس کا جواب دینے کا وہ پوراحق رکھتا ہے۔

اور ایسا ہی ہوا چائنہ کی طرف سے جب یورپ اور امریکا پے کورونا کا حملہ کیا گیا تو اس نے پورے مغرب کے معاشرتی اور معاشی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

مغرب چونکہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا لھذا اسے ہر محاز پر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

اگر یہی حالات رہے تو امریکا اور مغرب کی بڑی بڑی کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ حتی کہ نیٹو اور یورپی یونین کا وجود بھی ختم ہو سکتا ہے۔ جو کہ چائنہ کہ لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ آنے والے دنوں میں مغرب اسی صورت حال سے دوچار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے جس طرح سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اپنی فتح کےجھنڈے ماسکو میں گاڑھ دیے تھے۔

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد چین ہی وہ واحد ملک ہے جو دنیا کی معیشت کا پہیہ دوبارہ سے بحال کر سکتا ہے۔ جس کے لیے چاہنہ پہلے ہی ون بیلٹ ون روڈ جیسے عظیم منصوبہ کے زریعے دنیا کو چاہنہ سے منسلک کر رہا ہے۔ اور پھر چین کو چائنہ ویژن 2025 کوالٹی آف پروڈیکٹ کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی بڑی مشکلات درپیش بھی نہیں ہو گی۔

بہرحال کورونا امریکا کا کھیلا ہوا ٹرمپ کارڈ ہو یا چائنیز کی طرف سے کھیلا گا کینگ کارڈ۔ یا پھر ایک قدرتی وباء لیکن چائنہ کے لیے ابھی تک ایک کینگ کارڈ ہی ثابت ہو رہا ہے۔ جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ چاہنز عہدےدار اس سے اتنے بے خبر نہیں تھے جتنا وہ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں۔ اور چاہنز نے اسے اس اسٹرائیکر کی طرح کھیلا جو بورڈ پے پھیلی تمام رکاوٹوں کو صاف کر کے مستقبل میں اپنے لیے ساری راہیں ہموار کر دیتا ہے۔
 

Ashfaq Habib
About the Author: Ashfaq Habib Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.