لاک ڈاؤن ،قانون اور قانون شکنی

ایک طرف تو کورونا کی وباء نے دنیا بھر میں حشر برپا کر رکھا ہے یہ وباء دنیا بھر میں اب تک ہزاروں انسانوں کو نگل چکی ہے امریکہ اسپین اٹلی فرانس جیسے ممالک میں تو اس نے تباہی مچا رکھی ہے میری دھرتی پر بھی اس نے اپنے منحوس پنجے گاڑنے کی بھر پور کوشش کی اب تک ایک سو پینتیس کے قریب پاکستانی اس وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں سات ہزار سے زائد لوگ اس وائرس کی زد میں آچکے ہیں الحمدوﷲ بہت سارے پاکستانی میرے ملک کے قابل فخر ڈاکٹرز کی شبانہ روز محنت اور پیشہ وارانہ مہارت کی وجہ سے صحت یاب ہوچکے ہیں حکومت پاکستان نے فوری طور پر حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہوئے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تمام پاکستانی شہریوں کو بھرپور آگاہی فراہم کی مساجد ،مدارس ،تعلیمی ادارے اور مارکیٹیں بند کروا دیں تاکہ لوگ کہیں بھی اکٹھے نہ ہو سکیں زیادہ تر اپنے گھروں میں رہیں تاکہ کورونا کا پھیلاؤ روکا جاسکے باقی حفاظتی تدابیر جو بھی ہیں وہ تمام قارئین اب تک جان ہی چکے ہیں اس لئے مجھے آج چند اور گزارشات کرنی ہیں لاک ڈاؤن کے حوالے سے کہ حکومت وقت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ ،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام اس قانون کی کس حد تک پاسداری کر رہے ہیں ہم سب کتنا اپنے ملی فرائض کو بروئے کار لا رہے ہیں اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیئے تو آیئے ذرا بغور دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی جانوں کو کہاں تک عزیز رکھتے ہیں یا خود کو کورونا کے ساتھ بغلگیر ہونے جا رہے ہیں ؟سب سے پہلے میں ذکر کرنا چاہوں گا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی حکمت عملی کا کہ وہ کر کیا رہی ہیں ؟ اس وقت ملک بھر میں احساس کفالت پروگرام کے تحت لوگوں کی مالی معاونت کی جارہی ہے جس میں پہلے مرحلے میں ان خواتین کو امداد فراہم کی جا رہی ہے جو بینظیر انکم سپورٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں جو صبح آٹھ بجے سے لیکر شام پانچ بجے تک ایک بہت بڑے ہجوم کی شکل میں بغیر کسی فاصلے کی پابندی کے اور بغیر کسی ماسک کے ایک دوسری کے ساتھ اسطرح جڑ کے کھڑی ہوتی ہیں جیسے دیوار میں اینٹ کے ساتھ اینٹ جڑی ہوئی ہوتی ہے وہ دھکم پیل ہورہی ہوتی ہے کہ الحفیظ و الامان کیا ایسے ہجوم میں کورونا کو اپنے شکار ڈھونڈنے میں کو ئی دقت پیش آئے گی ؟یقینی طور پر جواب نفی میں ہی ہوگا مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کتنے پیسوں کے لیئے انگھوٹھا لگوا کر کتنے دیئے جا رہے ہیں اور کس طرح کٹوتی کے نام پر دیہاڑیاں لگائی جا رہی ہیں ؟مجھے آج اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہے کہ پچھلے ماہ جن خواتین نے 9000 روپے وصول نہیں کیئے تھے اس بار انکے وفاقی حکومت نے 21000بھیجے ہیں کیونکہ یہاں وفاقی حکومت کا کوئی قصور نہیں بلکہ نیک نیتی سے بارہ ہزار موجودہ اور نو ہزار سابقہ اکٹھے دے دیئے ہیں مگر یہاں کیا ہورہا ہے کہ بائیو میٹرک کروانے کے بعد انکو بارہ ہزار تھما ئے جارہے ہیں باقی نو ہزار کدھر جارہے ان بیچاری غریب اور ناخواندہ خواتین کو کچھ علم نہیں وہ بارہ ہزار بھی خوشی خوشی وصول کر رہی ہیں انکا حق انتہائی ٹیکنکل طریقے سے ہڑپ ہو رہا ہے جس کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں کیونکہ کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ میں تو انہوں نے بائیومیٹرک طریقے سے مکمل رقم وصول پا لی مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس بلائے ناگہانی اور آفت کے دور میں کس نے کتنی دولت سمیٹ کر غرباء کا حق غصب کیا وہ تو روز محشر پروردگار بہترین عدل کرے گا ہاں تو بات ہورہی تھی لاک ڈاؤن پر عمل کرنے اور کروانے کی کیا احساس کفالت پروگرام کے لیئے جمع ہونے والے ہجوم سے کورونا پھیلنے کا کوئی خدشہ نہیں ؟سبزی اور فروٹ منڈیوں میں بھی اگر سوشل ڈسٹنس کا خیال نہ کیا جائے تو یہاں بھی کورونا نہیں حملہ کرتا ہوگا ؟منڈی مویشیاں کے رش سے بھی کورونا خائف ہوتا ہوگا ؟صرف مساجد اور مدارس پر ہی کورونا حملہ آور ہوتا ہوگا کیونکہ یہاں پانچ وقت ہاتھ منہ بھی دھوئے جاتے ہیں اور صفائی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کیا کورونا کی کفار مکہ سے رشتہ داری ہے جو صرف نمازیوں پر حملہ آور ہوتا ہے ؟پھل فروش کتنی مرتبہ ہاتھ دھوتا ہے پھل بیچتے ہوئے ؟ انہیں ہاتھوں سے وہ پھل شاپر میں ڈال رہا ہوتا ہے کسی نے دیکھا اسے سینیٹائزر استعمال کرتے ہوئے ؟سبزی فروش کیا بار بار ہاتھ دھو رہے ہیں ؟کتنی بار سینیٹائزر استعمال کر رہے ہیں وہ ؟یہاں سوشل ڈسٹنس پر نظر کیوں نہیں رکھی جارہی ۔ یہ بجا کہ اس وباء سے بچاؤ صرف احتیاط سے ہی ممکن ہے تو پھر احتیاط کا قانون ہر جگہ کیوں نہیں ؟باہمی قربت کا قانون ہر جگہ کیوں نہیں ؟ مساجد میں تو ہم نے باجماعت نماز کا نقشہ ہی بدل دیا ٹھیک کیا پھر سبزی منڈی فروٹ منڈی اور مویشی منڈی میں فاصلہ رکھنے کے قانون میں رعائت کیوں ؟خدارا اگر قوم کو کورونا سے محفوظ رکھنا ہے تو ملک بھر میں احتیاطی تدابیر بھی ہر جگہ ایک سی کروانی پڑیں گی کیونکہ کون جانتا ہے کہ کس جگہ کون کورونا وائرس دامن میں لیئے گھوم رہا ہے اور دریا دلی سے لوگوں میں بانٹتا پھر رہا ہے ۔قارئین اب دیکھتے ہیں اپنی با شعور عوام (خود ساختہ ) کی طرف جو دفعہ 144کو جوتے کی نوک پر رکھ کر میرا ڈونا ،میسی اور رونالڈو بن کر کک مارتے ہوئے ہوا میں اڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں سنا ہے کہ کورونا کا حملہ بچوں اور بزرگوں پر زیادہ شدید ہوتا ہے شائید اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگ اپنے چھوتے چھوتے بچوں کو گھر میں روکنے کی بجائے باہر گلیوں میں کھیلنے کی آزادی دیئے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں اور بزرگوں کو گھر کا سودا سلف لانے کے لیئے بغیر کسی حفاظتی تدبیر کے باہر بھیج رہے ہیں آخر ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں نازک سی کلیاں ہیں انہیں اس موذی وائرس سے بثائیں اور بزرگ ہمارے وہ برگد ہیں جن کی چھاؤں میں ہم نے نمو پائی ان کا تحفظ ہم پر واجب ہے مگر لوگ اس بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں اب تو ہمیں سمجھ جانا چاہیئے کہ اس موت کے پرکالے کورونا نے دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے اور ہم ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں ۔ ہم صرف قانون شکنی ہی نہیں کر رہے بلکہ احتیاط نہ کر کے خود کو ہلاکت میں بھی ڈال رہے ہیں ۔اور خاس طور پر وہ تاجر زیادہ شور مچا رہے ہیں جن کو اپنا رمضان سیزن اور عید سیزن متاثر ہوتا دیکھائی دے رہا ہے ان کو انسانی زندگیوں سے زیادہ دولت کی ہوس جینے نہیں دے رہی کیونکہ انہوں نے خود ساختہ مہنگائی کی کند چھری سے عوام کی کھال اتارنی تھی جو انہیں ہوتا ہوا دیکھائی نہیں آرہا حکومت وقت نے بھی ناجانے کس مصلحت کے تحت بہت سارے کاروبار کھولنے کی اجازت دے دی ہے کہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کھول سکتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نو سے پانچ بجے تک کورونا کا ریسٹ ٹائم ہے کیا اس وقت میں کورونا کچھ نہیں کرتا ؟ایک طرف دن بدن مریض بڑھتے چلے جارہے ہیں اور دوسری طرف ہم چھوٹ دیتے جا رہے ہیں جو سمجھ سے باہر ہے ۔

M H Babar
About the Author: M H Babar Read More Articles by M H Babar: 83 Articles with 64550 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.