لاک ڈاؤن اور عوام

پوری دنیا کی طرح ارض پاکستان بھی کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکا ہے یہ وباء ہرگزرتے د ن کے ساتھ برُی طرح پورے ملک میں پھیل چکاہے ان حالات میں موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ہر ممکن کوشش کرتی نظر آرہی ہیں کہ کوروناجیسی وباء پر اپنے تمام وسائل استعمال کرکے نمٹاجاسکے اور متاثرہ افراد کو بہترین اور معیاری طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے جارہے ہیں سرکاری اعداوشمارکے مطابق کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعدادتقریباً200سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ دس ہزار کے قریب افراد متاثرہوچکے ہیں اسی طرح انسانی جانوں کو محفوظ بنانے کیلئے متفقہ طور پر لاک ڈاؤن اور دفعہ 144کے نفاذجیسے فیصلے کئے گئے جس کے بعد ملک بھر میں تمام مارکیٹوں کے علاوہ سرکاری ونجی تعلیمی اداروں ،سرکاری دفاتر ،ہرقسم کی ٹرانسپورٹ سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی کو بند کرکے عوام کواپنے گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت جاری کی گئی لیکن پاکستان جیسے ملک میں لاک ڈاؤن جیسے سخت فیصلے عوام کیلئے انتہائی مشکل تھے جس پر موجودہ حکومت نے کافی سوچ وبچار کے بعد عوامی پریشانیوں کومدنظررکھتے ہوئے چند شعبوں میں نرمی کرتے ہوئے مخصو ص وقت تک اپنے کاروبار کھولنے کی مشروط اجازت دے دی مگر پاکستانی عوام جو ہمیشہ غیر سنجیدہ رہتی ہے وہ جزوی نرمی کا بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں پر نکل آئی اس موقع پر دیہاڑی دار اور چھوٹے دکاندار جن کاگزربسر کوروناوائرس کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہوچکاتھا انھوں نے بھی اپنی دکانیں کھول لیں حکومتی ایوانوں میں ہونے فیصلوں کومن وعن عمل درآمد کروانے والے ڈسٹرکٹ اور تحصیل سطحی افسران اور اہلکاران کوعوام کی جانب سے سخت مزاحمت کاسامنا کرناپڑرہاہے ایک طرف اپنی روزمرہ زندگی چلانے کیلئے کوشاں عوام ہے تو دوسری جانب انتظامیہ اور پولیس کے ذمہ داران ہیں جو لاء اینڈ آرڈر پر عمل کروانے کی کوششوں میں مصروف نظرآتے ہیں اسی دوران دکانداروں اور مقامی انتظامیہ، پولیس کے درمیان آنکھ مچولی کامیچ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ اچانک کسی طرف سے آوازآتی ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی آرہی ہے یاپھر SHO آرہاہے تو بغیر اجازت دکانیں کھول کر بیٹھنے والے دکاندار فوراًاپنی دکانوں کے گیٹ بند کر دیتے ہیں جبکہ بعض اوقات دکان پر آنے والے میل /فی میل کسٹمرز کو دکان میں بیٹھا کر باہر سے گیٹ بند کردیاجاتاہے جس پر دکانداروں کوکئی مرتبہ پولیس سے فحش گالیاں سننے اورلاٹھی چارج کے علاوہ مقدمات کابھی سامناکرناپڑرہاہے عوام اپنے حالات سے تنگ آکر ان کاروباری جگہوں پر کام کرنے پر مجبور ہے دوسری جانب ہماری جانوں کو محفوظ بنانے کیلئے سرگرم افسران اور اہلکاران اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر دن رات ایک کئے ہوئے ہیں مگر عوام لاک ڈاؤن اور دفعہ 144کی پابندی کرنے کے موڈمیں نظر نہیں آرہی جبکہ کوروناوائرس کے پھیلنے کی رفتار روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس مرض میں مبتلاافراد کی تعداد میں کئی گنااضافہ ہوچکاہے حکومتی اداروں کی جانب سے ہر روز اخبارات ،شوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کے ذریعے عوام کو اپنے گھروں تک رہنے کی ہدایت کی جارہی ہیں مگر افسوس پاکستانی قوم کسی بھی ہدایت پر عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں ہے بلکہ ہر شہر میں آئے روز پولیس اورعوام کے درمیان قانون کی پاسداری کروانے کے دوران جھگڑوں کی خبریں منظرعام ہیں عوام اور پولیس ،انتظامیہ کے درمیان چوہے بلی کاکھیل تاحال جاری ہے جس سے کورونا وائرس کے بچاؤ کیلئے ہونے والی تمام کوششیں بے سود ہوتی نظر آتی ہیں اگر عوام لاک ڈاؤن کے دوران آپس میں سماجی فاصلے کوقائم کرنے ،غیر ضروری گھروں سے باہر نکلنے اور دیگر حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا ہوتی ہے تو پھر اس وباء سے جلد چھٹکارا پایاجاسکتا ہے اسی طرح مقامی انتظامیہ ،پولیس کے اہلکاران بھی مارکیٹوں میں جاکر چھوٹے دکانداروں اور دیہاڑی داروں کو ڈرانے دھمکانے اور گرفتار کرنے کی بجائے مؤثر انداز میں حکومتی ہدایت پر عمل کروانے کی کوشش کریں تاکہ گھر سے باہر اپنی جائز ضرویات کے تحت آنے والے افراد کو سمجھاکر انھیں اپنے گھروں تک محدود رکھاجاسکے ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Saleem Khalid
About the Author: Saleem Khalid Read More Articles by Saleem Khalid: 3 Articles with 2072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.