اسلام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے توعزم و شجاعت
جرأت ہمت اور دلیری جوانمردی کے عظیم کارناموں سے بھری ملے گی۔ اسلامی دور
میں کفر کو چنے چبوانے کے لیے طرح طرح کے جانثاروں نے اپنی جانثاری کی مثال
قائم کر دی۔ کہیں طارق بن زیاد۔۔ کہیں محمد بن قاسم۔۔۔اور قتیبہ بن مسلم۔۔۔
کے کارنامے رقم ہیں یہاں تک کے ہر ماں کی یہی آرزو تھی کہ اس کا بیٹا ان
تمام سپاہ سالاروں جیسے اوصاف کا حامل ہو۔۔۔۔۔وہ اپنے بیٹوں کو شجاعت و
دلیری کا سبق پڑھایا کرتی تھیں اور ان لوگوں کی دلیری بھی ایسی کہ آج تک
مثال نہیں ملتی ۔ اگر کسی چھوٹے سے علاقے میں بھی کسی بہن کی آبرو کو خطرے
میں محسوس کیا تو نہ کسی حکمران کی پروا کی نہ کسی امیر کا خوف محسوس کیا
اور دلیری جرأت و ہمت کی داستان رقم کر دی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی شخص نے ایک مسلم عورت
کے پردہ کا مزاق اڑایا۔ سر بازار اس کا پردہ کھنیچ اتارا تو نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا جانثار تڑپ اٹھا۔۔۔ تھا بھی کم سن،کسی چیز کی پروانہ
کرتے ہوئے تلوار اٹھائی اور اس شخص کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اسلام کے مزاق
اڑانے والے کو اس کی بے ہودہ عملی کا مزا چکھا دیا۔۔۔ لیکن آج سر عام پردے
کا مزاق اڑایا جارہا ہے، نہ کسی کی غیرت نے انگڑائی لی نہ کسی کے خون میں
تپش پیدا ہوئی۔
اگر آپ کہتے ہیں وہ تو دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تھا تب تو اسلامی
احکامات کی قدر کی جاتی تھی ہم خلیفہ معتصم باللہ عباسی کی داستان شجاعت کو
دیکھتے ہیں کہ انھوں نے عیسائیوں کی حکومت کی پروا نہ کرتے ہوئے کیسے اسلام
کی بیٹی کی پکار پر لبیک کہا ۔۔ معتصم باللہ عباسی خلافت اسلامی پر متمکن
تھا کہ رومیوں نے عراق کے ایک شہر پر حملہ کر دیا اور ایک عورت کی حرمت
پرڈاکہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کی تو اس نے وامعتصماء کا نعرہ بلند کیا۔(یعنی
اے معتصم میری مدد کر) معتصم باللہ کو جب اس کی فریاد پہنچی تو وہ اس وقت
تخت پر بیٹھے بیٹھے بولا(لبیک لبیک)”یعنی میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں؛تخت
سے اترا اور اعلان جہاد کروایا ۔۔۔ رومیوں کے سب سے بڑے مستحکم قلعے عموریہ
پر ٹوٹ پڑا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔۔قیدی عورتوں کو آزاد
کروایا۔۔۔۔
لیکن ! آج پاکستان کی بیٹی! اسلام کی بیٹی! پوری امت مسلمہ کی بیٹی !غلیظ
امریکیوں کی قید میں نجانے کیسے اذیتیں برداشت کرتی ہو گی ،نجانے کتنی بار
ان غلیظ کافروں کی گندی نظروں کا مقابلہ کرتی ہوگی ۔۔۔۔۔
لیکن ! آج کسی کی غیرت نہیں جاگی ۔کسی بھائی کی نیند حرام نہیں ہوئی ،کوئی
بھائی بھی بہن کی آبرو پر نہ مٹا ، کسی نے بھی اس کی پکار پر لبیک نہ کہا
۔بس احتجاج اور خالی خولی نعروں سے ہمدردی جتانے کی کوشش کی گئی کوئی عملی
مظاہرہ نہ ہوا۔ہمارے حکمران تو خواب گاہوں میں بے سود پڑے ہیں ۔جن کو آرام
کا خیال ہے۔
اور اتنا ہی سوچو کہ اگر وہ تمہاری بیٹی ہوتی؟عافیہ بھی آپ کی بیٹی کی طرح
بیٹی ہے لیکن کسی نے اس کو بیٹی سمجھا ہی نہیں ۔۔تو کافر زیادہ دلیر ہوا
اور چھیاسی سال کی قید کا اعلان کر دیا۔۔۔۔ شاید اس کی کل عمر بھی اتنی نہ
ھو جتنا کافروں نے قید کا لکھ دیا۔۔۔۔
کوئی طارق بن زیاد بن کر ہی آجائے، جس نے ایک مسلمان کی بیٹی نہیں بلکہ ایک
عیسائی لڑکی کی عزت و آبرو کا بدلہ لینے کے لیے اپنی بارہ ہزار نفری کو
سمندر پار لے جا کر کشتیاں جلا دیں ۔ہسپانوی عیسائیوں کے چھکے چھڑادیئے
۔ایک عیسائی کی بیٹی کی ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے اندلس اور فرانس کو فتح
کر لیا اور اسلام کے جھنڈے گاڑ دیئے تھے۔۔۔
کیا آج کوئی ہے جو محمد بن قاسم بن کر آجائے۔۔۔۔ اور عافیہ کی پکار پر لبیک
کہہ دے ۔۔۔
کیا کوئی ہے!
کہیں ایسا نہ ہو کل قیامت کے دن عافیہ کا ہاتھ ہوا اور ہمارا گریبان۔۔۔۔۔
|