مجھے اچھی طرح یادہے کہ 1992میں پاکستان نے کرکٹ کاعالمی
کپ جیتا۔اس سے اگلاعالمی کپ سال 1996میں منعقدہوا۔ ابھی ہماری ٹیم کھیل کے
میدان میں اتری نہیں تھی کہ پاکستان ٹیلی وژن نے ایک نغمہ جاری کیا ،جس کے
بول کچھ یوں تھے۔ ’’ ہم جیتیں گے، ہم جیتیں گے،ہرمیدان میں ہرطوفان میں
ہرمشکل میں جیتیں گے‘‘۔اسکے بعدہماری ٹیم کاکیاحشرہوا، ساری دنیانے
دیکھاکیونکہ وقت سے قبل بلند بانگ دعوے اﷲ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔ زندگی میں
جتنے بھی حالات آتے ہیں ، اﷲ کی طرف سے آتے ہیں اوراﷲ تعالیٰ ہی ان حالات
کو ٹھیک کرسکتاہے۔ہارجیت ، کامیابی اورناکامی ، عزت اورذلت اﷲ تعالیٰ کے
ہاتھ میں ہے اورانسان کبھی اﷲ تعالیٰ کے بغیر اپنے بارے میں اچھے فیصلے
نہیں کرسکتا۔
پاکستان میں کوروناوائرس کے ظہورسے ہی ہم نے بیانیہ اپنایاکہ کروناسے
ڈرنانہیں بلکہ کروناسے لڑناہے۔یہاں بھی ہم نے اﷲ تعالیٰ سے بے
نیازہوکرخودہی اس خطرناک وباسے اعلان جنگ کیاہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم
ہمیشہ خودکو حالات جنگ میں تصورکرتے ہیں ۔ ہمای سیاسی پارٹیاں اپنے مدمقابل
کو مخالف پارٹیاں کہتی ہیں اورہم ایک دوسرے کے خلاف انتخابات لڑتے ہیں۔
انتخابات لڑنے کے بعد جولوگ ایوان اقتدارمیں چلے جاتے ہیں ، وہ وہاں بھی
لڑتے زیادہ ہیں اورقوم کی ترقی کے لئے کام کم کرتے ہیں۔
کوروناسے لڑنے کابیانیہ میڈیاکے ذریعے خوب پروان چڑھا۔ بچے بچے کی زبان پر
یہی الفاظ ہوتے ہیں کہ ہم کوروناسے لڑتے ہیں ۔ مگر ہم یہ بات بھول گئے ہیں
کہ خودکو سپرپاورکہنے والی قومیں آج تک کوروناسے نہیں لڑسکے اورنہ لڑنے کی
سکت رکھتے ہیں۔ امریکہ اوریورپ اس وباکے سامنے بے بس کھڑے ہیں ۔ انکے
ہسپتالوں میں لاشوں کے ان گنت ڈھیر ہمیں پکارپکارکرکہہ رہے ہیں کہ انسان کے
ہاتھ میں اس مسئلے کاکوئی کامیاب حال موجودنہیں ہے۔جوتدبیرعمل میں لائی گئی
اس کوناکامی کامنہ دیکھناپڑا ،جودوااستعمال کی گئی ،اس نے درد میں اوراضافہ
کردیااورآج یہ حال ہے کہ ایکسویں صدی کاانسان ،جس کے ہاں زندگی کے تمام
اسباب اوروسائل نقطہ عروج پرہیں، آج کوروناکے سامنے بے بس نظرآتاہے۔انسانی
آلات امراض کاسینہ سینہ چیرچیرکر غیرمرئی جراثیم کو گرفت میں لے چکے ، مگر
کوروناکے سامنے دنیاکی تمام ٹیکنالوجی اورایجادات اپنی ناکام کو تسلیم کرتے
ہیں۔
ہمارے ہاں بھی کوروناکی وبابے قابوہوتی ہوئی نظرآتی ہے۔ کوروناکے مریضوں کی
تعدادمیں روزبروزاضافہ ہوتاجارہاہے اورساتھ ساتھ ہلاکتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔
ہم نے کوروناکے ڈرسے اپنے پوے انظام زندگی کو بند کردیاہے۔ پورے ملک میں
لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے ۔ یہاں تک ہماری عبادت گاہیں بندکرنے کے منصوبے
بنائے جارہے ہیں ۔ اس کامطلب ہے کہ ہم نے کوروناکے سامنے اپنی ناکامی
کوتسلیم کیاہے۔ آج تک کوروناوائرس کاعلاج دریافت نہیں ہوا، مگر ہمارابیانیہ
نہیں بدلااورہم آج بھی کہتے ہیں کہ ہم کوروناسے لڑتے ہیں۔ ہمیں کوروناسے
لڑنانہیں بلکہ ہمیں خودکوبچاناہے اوربچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اﷲ سے
رجوع کرے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے ۔ دنیاکی ہرآفت سے بچنے کاصرف
اورصر ف ایک ہی راستہ ہے اوروہ ہے اﷲ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے خودکوبے بس
سمجھنا اوراپنے تمام مسائل کاحل صرف اورصرف اﷲ تعالیٰ سے طلب کرنا۔ آج
کوروناکی وبانے یہ ثابت کردیاکہ انسان کس قدرکمزوراورمحتاج ہے ، مگرپھر بھی
سراٹھاکر کس قدر فخراورتکبرسے کہتاہے کہ ہم آفت خداوندی سے لڑتے ہیں ۔اس
قدرکمزورانسان نے رحم مادرسے لیکر قبرتک کی منزل میں اس خداسے بے نیازہوکر
جینے کاارادہ کربیٹھا۔ یہ اس احمقانہ ارادے کی برکات ہیں ، جوپوری دنیا میں
انسان کی ہمہ گیر تباہی کی شکل میں ہرسمت دکھائی دے رہی ہیں۔انسان کی اس
قدرگستاخی اورحماقت کانتیجہ تویہ ہوناچاہئے تھاکہ ایسے احمق کے لئے خداکے
دروازے بندکردئے جاتے ، مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے کھلے چھوڑے
ہیں۔ ایسے حالات میں ہمارے پاس صر ف اورصرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کوروناسے
لڑناچھوڑدے بلکہ اﷲ تعالیٰ کی مددسے خودکواس وباسے بچائے۔
|