مسلمانوں پر اس وقت پے در پے فتنے، خونریز جنگیں، تباہی،
بربادی، اور دشمن مسلط ہیں یہ اوامر حقیقت میں مسلمانوں کو اﷲ تعالی کی طرف
رجوع کرنے کی یاد دہانی کرواتی ہیں۔ اس وقت کرونا وبا کی وجہ سے مسلم امہ
پر بھی کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ کرونا وبانے جہاں انسانوں سے رابطوں میں جسمانی
فاصلے پیدا کئے تو دوسری جانب رب کائنات کی روحانی قربت کا موقع بھی میسر
آیا۔اﷲ تعالی نے نافرمانیوں سے استغفار کے لئے ہر لمحہ مغفرت و رحمت کے
دروازوں کو کھلا رکھا ہے ،تاکہ انسان اپنی غلطیوں کی اصلاح کرلے اوراﷲ
تعالی کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنائے، فرمانِ باری تعالی ہے:اور اگر اﷲ
تعالی چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا، لیکن وہ تمہیں ایک دوسرے سے آزمانا
چاہتا ہے( سورۃمحمد: 4)نیز اﷲ تعالی کا فرمان ہے کہ دعا، دکھ سکھ میں مومن
کا اسلحہ ہے، اﷲ کی بندگی فتح کو قریب اور جلدی لاتی ہے، اور جب ظلم بڑھ
جائے تو مٹ جاتا ہے،اور تمہارا پروردگار تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے (
سورۃہود: 123)۔
روحانی طور پر ماہ رمضان میں مسلم امہ کا رجحان عبادات میں صلوۃ ، صو م ،زکوۃ
اورصدقات کی جانب بڑھ جاتا ہے ۔ رحمتوں و بخشش کے اس مہینے میں گناہ گار
بندے اپنی نافرمانیوں و کوتاہیوں سے استغفار طلب کرتے ہیں تو آخری عشرے میں
خشوع و خصوع سے غور وفکر کے لئے معتکف بھی ہوجاتے ہیں۔ اس وقت نسل انسانی
کو وبا کے ساتھ ساتھ کرونا فوبیا کا بھی سامنا ہے۔ وبا کا علاج تو ممکن ہے
لیکن جب کوئی اَمر فوبیا بن جاتا ہے تو اس کو دور کرنے کے لئے بڑی محنت اور
قوت برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔کرونا وَبا اس وقت ایک عالمی فوبیا کی صورت
بھی اختیار کرچکی ۔ یہاں اس بیماری کو سنجیدگی سے لیا ،یا نہیں سمجھاگیا
لیکن ہر دوکس نے کرونا فوبیا سے خوف کے دامن کو اپنی جھولی ضرور بھری۔
روزہ انسانی جسم کو اندرونی طاقت دیتاا و رقوت مدافعت کو بڑھا دیتا ہے ،
نظام ہضم کو آرام ، جگر کو کھانا ہضم کرنے کے علاوہ مزید پندرہ اعمال سر
انجام دیتا ہے۔ ْطبی ماہرین کے مطابق خلیوں کے درمیان (Inter Celluler)
مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے خلیوں کا عمل بڑی حد تک سکون آشنا ہو جاتا
ہے۔ لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں (Epitheliead) کہتے
ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی
صرف روزے کے ذریعے ہی آرام اور سکون ملتا ہے۔ اسی طرح سے ٹشو یعنی پٹھوں پر
دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ پٹھوں پر یہ ڈائسٹالک دباؤ دل کے لئے انتہائی اہمیت کا
حامل ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی
اس وقت دل آرام کی صورت میں ہوتا ہے۔ شدید تناؤ یا ٹینشن بطور خاص ڈائسٹالک
پر یشر کو کم اورپھیپھڑے براہِ راست خون صاف کرتے ہیں۔ اگر پھیپھڑوں میں
خون منجمد ہو جائے تو روزے کی وجہ سے بہت جلد یہ شکایت رفع ہو جاتی ہے اس
کا سبب یہ ہے کہ نالیاں صاف ہو جاتی ہیں۔ روزہ کی حالت میں پھیپھڑے فضلات
کو بڑی تیزی کے ساتھ خارج کرتے ہیں اس سے خون اچھی طرح صاف ہونے لگتا ہے
اور خون کی صفائی سے تمام نظامِ جسمانی میں بہتری کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
ایام صیام میں جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا
گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزے رکھ کر آسانی سے
اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام
اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے بآسانی اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہو
سکے۔ماہرین طب روزوں کا ایک اہم فائدہ بھی بتاتے ہیں کہ خون میں سرخ ذرات
کی تعداد زیادہ اور سفید ذرات کی تعداد کم پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق
روزے میں حرارتِ جسمانی گر جاتی ہے لیکن جب اصلی بھوک عود کر آتی ہے۔ تو حا
لتِ جسمانی اصلی حالت کی طرف مائل ہو جاتی ہے اسی طرح جب روزہ کھولا جاتا
ہے اور غذا استعمال ہوتی ہے تو حرارتِ جسمانی میں کسی قدر اضافہ ہو جاتا ہے
روزہ رکھنے کے بعد خون کی صفائی کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔ قلت الام (یمینا)
کی حالت میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ خون کے سرخ خلیات کی تعداد میں ترقی ہو
جاتی ہے ایک مشاہدہ کے مطابق معلوم ہوا کہ صرف 12 دن کے روزوں کے تسلسل کی
وجہ سے خون کے خلیات کی تعداد 5 لاکھ سے بڑھ کر 36 لاکھ تک پہنچ گئی۔
کرونا وائرس کے باعث مئی کے مہینے کو انتہائی خطرناک قرار دیا جارہا ہے ،
ماہ مئی میں ہی رمضان المبارک گزرے گا، اگر کرونا وبا سے بچاؤ کے لئے ہم
اپنی توجہ عبادات و قرآن کریم کی جانب مرکوز کردیں تو کئی طبی مسائل سے
بخوبی بچا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی رمضان المبارک میں وتیرہ بنالیا جاتا ہے کہ
کام پر جایا نہ جائے یا اوقات کار کم کردیئے جائیں ، اس کا مقصد روزے دار
کو آرام پہنچانا قرار دیا جاتا ہے ۔ امسال کرونا وبا کی وجہ سے سماجی
فاصلوں و مجمع سے دوری کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے ، اس لئے اس موقع سے
فائدہ اٹھانے کے لئے روزے داروں کی توجہ گھروں میں عبادات و قرآن کریم
پڑھنے اور اُس پر غور و فکر پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اس طرح عالمی وبا سے نجات
کا ذریعہ بھی موقع ملے گا اور اپنی کوتاہیوں سے استغفار کی مہلت بھی ۔
مساجد میں نمازوں کے حوالے سے علما اکرام نے احتیاطی تدابیر کے ساتھ اہتمام
کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں ۔ ریاست کے احکامات اپنی جگہ اور علما اکرام
کے ہدایات بھی قابل احترام ، ہمیں رب کی رضا کے لئے جہاں مساجد کو احتیاطی
تدابیر کے ساتھ آباد بھی رکھنا ہے تو ماہ رمضان کی اصل روح برداشت ، صبر و
تحمل کو بھی عملی طور پر اپنانے کی بھی ضرورت ہے ۔ ماہ رمضان ہمیں جن
احکامات کا حکم دیتا ہے ، اس پر عمل پیرا ہوکر ایک جانب ماہ صیام کے ثمرات
سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو دوسری طرف روزے رکھنے سے اپنے جسم کے نظام قوت
مدافعت کو قدرتی طریقے سے موثر بنا سکتے ہیں۔ خشوع و خصوع کے ساتھ ماہ صیام
میں رب تعالیٰ سے صراط مستقم پر چلنے کی دعا و کوتائیوں ، گناہوں ہر
استغفار روحانی سکون کا سبب بھی بنے گا ۔ہم اس اَمر کو بخوبی سمجھنا ہوگا
کہ سماجی فاصلے کرونا وائرس کو ختم نہیں ، کم ضرور کرسکتے ہیں ، جب کہ
روحانی طاقت سے ہر مشکل کا مقابلہ کرکے ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
|