آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ :
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی
کوششیں آزادی کے ڈیڑھ دہائی بعد تقریباً 1962 ءسےہی شروع ہوگئی تھی۔ خاص
طور پر جب حکومت نے قانون سازی کے ذریعہ شرعی قوانین کو بے اثر کرنے کی
کوشش کی، توحضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب نے1963 ءمیں تحفظِ مسلم پرسنل
لا کے موضوع پر پہلی عظیم الشان کانفرنس پٹنہ میں منعقد کی۔ یہ کوششیں بعد
میں بھی جاری رکھی گئیں اور ایک ایسے متحدہ پلیٹ فارم کے قیام پر غوروخوض
چل ہی رہا تھاکہ حکومت نے لے پالک بل کے ذریعہ کھلم کھلا یہ اعلان کیاکہ یہ
یونیفارم سول کوڈ کی طرف پہلا قدم ہے۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد بورڈ کے
قیام کی تحریک میں اورتیزی آگئی۔ بالآخر مسلمانان ہند کے مختلف مسالک کی
عظیم شخصیتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں اور اس سلسلے کی سب سے پہلی نشست
حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب کی نگرانی اور حکیم الاسلام حضرت
مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی سرپرستی میں دیوبند
میں ہوئی، جس میں یہ طے پایا کہ آل انڈیامسلم پرسنل لا کا نمائندہ کنونشن
ممبئی میں منعقد کیا جائے۔
چنانچہ 27۔28 دسمبر 1972ء کو ممبئی میں یہ عظیم الشان اجلاس منعقد ہوا۔ ایک
طرف لاکھوں عوام کا مجمع تھا، تو دوسری طرف حنفی، شافعی، مقلد، غیرمقلد،
دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، داؤدی بوہرہ، سلما نی بوہرہ،جمعیۃ علمائےہند
اور جماعت اسلامی ہند؛ غرضے کہ تمام مسلم فرقوں، مسلکوں اور جماعتوں کے
رہنما موجود تھے، جس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تاسیس پر اتفاق
ہوااور 7 اپریل 1973ء کو حیدرآباد دکن میںبورڈ کی باقاعدہ تاسیس عمل میں
آئی۔ قاری محمد طیب صاحب اس کے پہلے صدر اورمولانا منت اللہ رحمانی پہلے
معتمد عمومی منتخب ہوئے۔ بورڈ کے پلیٹ فارم سے یہ پیغام دیا گیا کہ ہم
باہمی جھگڑوں،مسلکی،سیاسی اور علاقائی گروہ بندیوں سے بالا تر ہوکرقانونِ
شریعت کی حفاظت کے لیے پوری قوت اور کامل اتحاد کے ساتھ واضح موقف اختیار
کریں گے۔ بورڈ نے شریعتِ اسلامی کے عائلی قوانین کے تحفظ کی خاطر جدوجہد
کرنے، مسلمانوں کو معاشرتی زندگی کے شرعی آداب واحکام سے واقف کرانے اور
مسلم معاشرہ سے تمام غیر اسلامی رسم ورواج اور غیر شرعی امور کو مٹانے کے
لیے جامع منصوبہ بنایا اور اس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بورڈ نے ملک کے
گوشے گوشے میں مقامی، ضلعی اور صوبائی سطح پرعظیم کانفرنسیں اور اجتماعات
منعقد کیے۔ اس موضوع سے متعلق بیش قیمت رسائل بھی لکھے گئے اور ملک کی
مختلف زبانوں میں ترجمہ کراکرملک کے گوشے گوشے میں پہنچائے بھی گئے، جس سے
لوگوں میں مسئلہ سے واقفیت پیدا ہوئی۔ اس کی اہمیت کا احساس بیدار ہوا، ان
کے اندر اپنے حقوق کے تحفظ کا جذبہ پیدا ہوا اورانھیں اپنی ذمہ داریوں کا
احساس ہوا۔ یہ مسلمانانِ ہند کے لیے تاریخ سازاور قابلِ قدرپیش رفت تھی، جو
مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک کے نتیجہ میں ہوئی۔ یہ بورڈ مسلمانانِ ہند کا
متفقہ مرکزی ادارہ ہے، جس کی کوششیں مستقل جاری و ساری ہیں۔ اس میں تمام
قابلِ ذکر شخصیتوں کی شرکت ہے اور حکومت بھی بورڈ کا وزن محسوس کرتی ہے۔ ان
دنوں اصلاح معاشرہ، تفہیم شریعت،دارالقضااور بابری مسجدکے سلسلے میں کوششیں
جاری ہیں۔
آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے مقاصد حسب ذیل ہیں :
(1) ہندوستان میں مسلم عائلی قوانین کے تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو
قائم اور باقی رکھنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیا ر کرنا۔
(2) بالواسطہ، بلا واسطہ یا متوازی قانون سازی، جس سے قانون شریعت
میںمداخلت ہوتی ہو، علاوہ ازیں وہ قوانین جو پارلیمنٹ، یا ریاستی قانون ساز
مجلس میں وضع کیے جا چکے ہوں یا آیندہ وضع کیے جانے والے ہوں، یا اس طرح
کے عدالتی فیصلے جو مسلم عائلی قوانین میں مداخلت کا ذریعہ بنتے ہوں،تو
انھیں ختم کرانے یا مسلمانوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی جدوجہد
کرنا۔
(3) مسلمانوں کو عائلی و معاشرتی زندگی سے شرعی احکام و آداب، حقوق و
فرائض اور اختیارات و حدود سے واقف کرانا اور اس سلسلے میںضروری لٹریچر کی
اشاعت کرنا۔
(4) شریعت اسلامی کے عائلی قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں پر ان کے نفاذ کے
لیے ہمہ گیر خاکہ تیارکرنا۔
(5) مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک کے لیے بوقت ضرورت مجلس عمل بنانا، جس
کے ذریعے بورڈ کے فیصلے درآمد کرنے کی خاطر پورے ملک میں منظم جدوجہد کی
جا سکے۔
(6) علما اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک مستقل کمیٹی کے ذریعے مرکزی یا
ریاستی حکومتوں یا دوسرے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ذریعے نافذ کردہ
قوانین اور گشتی احکام یا ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے
والے قانونی مسودات کا اس نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے رہنا کہ ان کا مسلم
پرسنل لا پرکیا اثر پڑتا ہے۔
(7) مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابین خیر سگالی، اخوت اور
باہمی اشتراک و تعاون کے جذبات کی نشو نما کرنا اور مسلم عائلی قوانین کی
بقا و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے درمیان رابطے اور
اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔
(8) ہندستان میںنافذ محمڈن لا کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لینا اور
نئے مسائل کے پیش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقیقی مطالعے کا
اہتمام کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی
اساس پر ماہرین شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میںپیش آمدہ مسائل کا
مناسب حل تلاش کرنا۔
(9) بورڈ کے مذکورہ بالا اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے وفود کو ترتیب دینا،
مطالعاتی شرائط تشکیل دینا، نیز سیمنار، سمپوزیم، خطابات، اجتماعات اور
کانفرنسوں کا انتظام کرنا اورضروری لٹریچر کی اشاعت اور بوقت ضرورت اخبارات
و رسائل اور خبرناموں وغیرہ کا اجرا اور اغراض و مقاصد کے لیےدیگر ضروری
امور انجام دینا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کی خدمات و کارنامے :
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کی خدمات کی فہرست خاصی وسیع ہے،اس میں سے
کچھ اہم نکات حسبِ ذیل ہیں :
(1) بورڈ کا پہلا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ہندوستانی مسلمانوں کوعائلی
قوانین پر متفق و متحد کیا۔
(2) مسلمانوں میں عائلی قوانیں کے تئیں احساسِ تحفظ پیدا کیا۔
(3) بورڈ کی تحریک پر حکومت نے 1978 ءمیں لے پالک بل واپس لے لیا۔1980ء میں
جب یہ بل دوبارہ پیش کیا گیاتو مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔
1975 (4) میں ایمرجنسی کے نفاذ اور جبری نس بندی کے سخت ہنگامی حالات کے
دوران بورڈ نے دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا اور اعلان کیا کہ نس
بندی حرام ہے۔
1978 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنئو بینچ کے فیصلے کے مطابق حکومت کو
مفادِ عامہ کے لیے مذہبی مقامات کی زمین قبضہ کرنے کی اجازت دی گئی
تھی۔بورڈ کی تحریک پر یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔
(6) شاہ بانو کیس میں شوہر پر یہ لازم کیا گیا تھاکہ وہ عورت کو دوسرے نکاح
تک اسے نان و نفقہ دے گا۔یہ بات شریعت سے متصادم تھی،چنانچہ بورڈ نے ملک
بھر میں زبر دست تحریک چلائی ،یہاں تک کہ 6مئی 1986ء کوحکومتِ ہند کو مسلم
مطلقہ بل منظور کرنا پڑا۔
(7) بورڈ نے دفعاتی ترتیب کے لحاظ سے ’’مجموعہ قوانین اسلامی‘‘ مرتب
کرایا۔برِ صغیر میں فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب کے بعد یہ پہلی کامیاب کوشش
تھی۔
(8) حکومتِ ہند عرصے سے نکاح کے لازمی رجسٹریشن کا قانون لانا چاہتی تھی۔اس
سے پہلے ہی بورڈ نے ماڈل نکاح نامہ ترتیب دیا۔میاں بیوی اگر اس نکاح نامے
پر دستخط کریں،تو انہیں باہمی اختلافات نبٹانے کے لیے عدالت جانے کی ضرورت
نہیں پڑے گی،دارالقضا یا شرعی پنچایت کے ذریعہ مسئلے کا حل ہوجائے گا۔
(9) عام مسلمانوںاور غیر مسلم قانون دانوں کو شریعت سے واقف کرانے کے
لیے’’تفہیم شریعت کمیٹی‘‘ تشکیل دی گئی۔
(10) بورڈ نے دوسرے بہت سے مقدموں کے ساتھ بابری مسجد کا مقدمہ عدالتِ
عالیہ میں لڑا اور اب عدالتِ عظمیٰ میں ایک مستقل فریق کی حیثیت سے اس
مقدمہ کی پیروی کررہا ہے۔
قسط جاری۔۔۔۔۔۔
|