کورونا کا خوف دم توڑنے کو ہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ کورونا
ایک وبا ہے،لیکن یہ اتنی جان لیوا بیماری نہیں جتنا شور مچایا گیا ہے۔جب جب
کورونا کا خوف ختم ہونے لگتا ہے،کہیں نہ کہیں سے بڑی خبر منظر عام آجاتی
ہے۔کورونا وبا ہے ،مگر دنیا نے کورونا وائرس کو سیاست اور مفادات کے لئے
استعمال کرنا شروع کر دیا۔کورونا کی حقیقت یہ ہے 23ہزار افراد کی اموات
والے ملک اٹلی نے کورونا کی اصلیت کھلول دی ہے۔اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد
کے12فیصد افرادکورونا سے جان بحق ہوئے، جب کہ دیگر افراد پیچیدہ بیماریوں
کی وجہ سے مرے،لیکن ہر کسی کو کورونا کا مریض قرار دے دیا گیا۔یہی حال
دوسرے ممالک کی خبروں میں ہوا ہے۔اﷲ تعالیٰ کا کروڑوں شکر ہے کہ پاکستان
میں کورونا کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد بہت کم ہوئی ہے۔لیکن انتہائی خوف نے
عوام کو شدید متاثر کر رکھا ہے۔اس کا حکمران سیاسی بھر پور فائدہ اٹھا رہے
ہیں،اپنی بڑی غلطیوں پر کورونا کی دھول ڈال دی گئی ہے ،اپنے آقاؤں کی
خواہشات کو پورا کیا جا رہا ہے ،یہاں تک کہ لوگوں کو مساجد سے دور رکھنے کی
بہت کوشش کی گئی ،مگر لا محالا عوام اور علماء اکرام کے تیور دیکھ کر ماہِ
رمضان المبارک میں مساجد کو کھولنے کی اجازت دینا پڑی،لیکن اس کے ساتھ ساتھ
ضروری ہدایات بھی جاری کی گئی ،جسے علماء اکرام اور عوام نے سنجیدگی سے لیا
ہے اور ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ مساجد میں ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔اس
قدر عوام کا ڈسپلن قابل ستائش ہے،مگر دوسری طرف سڑکوں پر عوام کی بے
احتیاطی عروج پر ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں،جنہیں دیکھنا ہوگا۔
اب کورونا سے پیش آنے والے اثرات کو بچشم سر دیکھتے ہیں ۔عوام کورونا وائرس
کے ختم ہونے کی خبروں سے تذبذب کا شکار ہیں۔چین کا کہنا ہے کہ کورونا اتنی
جلدی جان چھوڑنے والا نہیں ،لیکن سنگا پور میں ایک یونیورسٹی کا دعویٰ ہے
کہ کورونا سال رواں ماہ جون میں ختم ہو جائیگا،یعنی مختلف ممالک نے وائرس
کے خاتمے کی مدّت مختلف بیان کی ہے۔اس حوالے سے پچیدہ صورت حال ہو چکی ہے
،ہر ملک کے ماہرین ،سائنسدان اپنی اپنی تھیوری بیان کر رہے ہیں ۔وویکسین
،دوا اور اینٹی باڈیز ادویات کے تجربات ہو رہے ہیں،شاید ان میں سے کسی ایک
سے انسانوں کو وبا سے بچایا جا سکے ۔
کورونا وائرس کی وبا نے جو بڑا چیلنج ملک کے لئے پیدا کر دیا ہے وہ عدیم
المثال ہے ۔اس لئے اس مصیبت کا مقابلہ حکمرانوں سے بڑے لائحہ عمل کا تقاضہ
کرتا ہے۔جب کہ ملک سیاسی ،معاشی اور اقتصادی طور پر تاریخ کے مخدوش ترین
حالات سے گزر رہا ہے ۔انہیں حالات میں حکومت جون کے پہلے ہفتے میں بجٹ پیش
کر رہی ہے ۔یہ ’’کورونا بجٹ‘‘ہو گا۔جس میں وزیر خزانہ کی جانب سے بڑی
مراعات کا دعویٰ کیا ہے ۔کہنے کو تو کہا جا رہا ہے کہ معیشت کو بھی چلانا
ہے اور لوگوں کی جان بھی بچانی ہے ؛اس لئے حکومت عوام کی امیدوں پر پورا
اترنے کے لئے صوبوں سے مل کر بجٹ بنائیں گی۔لیکن ہمارے ملک کی جمہوری
حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ بجٹ کو صرف ہندسوں کا گورکھ
دندھا بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ملک کے مالی حالات اس قدر خستہ حال
ہیں کہ ریلیف والا بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں ہے ۔یوں تو بین القوامی اداروں
اور ترقی یافتہ ممالک نے کورونا وائرس پر بڑے بجٹ مختص کیے ہیں ،مگر یہ
ریلیف بجٹ ترقی پزیر ممالک تک نہیں پہنچے ہے،جس کی وجہ سے ڈیڑھ ماہ سے لاک
ڈاؤن کے دوران لوگ انتہائی مشکلات کا شکار رہے ہیں ۔پاکستان میں حکومت کی
جانب سے بار بار جھوٹ بولا گیا ۔ویسے کچھ عرصے سے ہمارے ملک کی سیاست میں
جھوٹ کچھ اور زیادہ ہو چکا ہے اور جب جھوٹ قدر بن جائے تو معاشرے برباد ہو
جاتے ہیں ۔سچ اور جھوٹ سے مادی زندگی پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انسان پر
اترنے والی وبائیں اخلاقی زوال کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ہم جھوٹ اور اخلاقی پستی
کی انتہا کو چھو رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ
حزب اقتدار ، حزب اختلاف اور عوام میں بے اعتمادی کی فضا بڑھ رہی ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کو عوام کے حالات کی سنگینی کا احساس ہونا چاہیے ۔حکومت
کو معیشت کا دباؤ لاک ڈاؤن کے خاتمے پر مجبور کر رہا ہے۔اب حکومت اور
اپوزیشن کو غیر سنجیدہ پن سے گریز کرنا ہو گا۔تمام سیاسی پارٹیز کو ساتھ لے
کر چلنے میں عافیت ہے ،مسلم لیگ (ن) ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے
رہنما ملک چلانے کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں ۔ان سے تجاویز لینا چاہیے ،کیوں
کہ بہر حال ان کی تجاویز موجودہ حکمرانوں سے بہتر ہوں گی۔مہلک وبا کا غیر
متوقع پھیلاؤ اس بات کا متقاضی ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر مشترکہ اجلاس
بلایا جائے،وہاں سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مسئلے کی تسہیل کرتے ہوئے حل
نکالنے کی کوشش کریں ۔یہ مسئلہ آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے،اس لئے اس
سنگین صورت حال کا حل اسمبلی کی عمارت کے اندر بہتر طریقے سے ہو سکتا
ہے۔اجلاس میں تمام تنازیات کو پسِ پشت ڈال کر صرف کورونا سے چھٹکارا حاصل
کرنے کے ایجنڈے پر خیالات کا اظہار کیا جائے،حکومت ان مختلف خیالات اور
تجاویز کو اکھٹا کر کے ایک جامع اور مؤثر پالیسی مرتب کر سکتی ہے ۔
ہمارے سیاست دان اپنی غلطیوں پر افسوس کرنا پسند نہیں کرتے ۔انہیں اپنی کسی
بھی غلطی پر معافی مانگنا اپنی اَنا کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف لگتا ہے
۔یہی صورت حال عمران خان کے ساتھ ہے ۔وہ اپنی غلطیوں پر نادم ہونا پسند
نہیں کرتے۔وہ اپنے سیاسی مخالفین سے تنگ نظری کا سلوک روا رکھتے ہیں ۔لیکن
حکومت کرتے ہوئے ایسے بہت سے لمحات آ جاتے ہیں جب بدترین مخالفین سے مدد
لینا پڑتی ہے ۔با وقار قیادت ان مواقع کی نزاکت کو محسوس کر لیتی ہے اور نا
لائق قیادت بات چیت کے سیاسی حساب کتاب سے نکل جاتی ہے۔عمران خان نے بہت سے
ایسے ہی بہترین مواقع ضائع کئے ہیں ۔جب مشترکہ لائحہ عمل سے ملک اور عوام
کی بھلائی کے کام کیے جا سکتے تھے،لیکن ان کی جھوٹی اَنا،تکبر اور ہٹ دھرمی
نے ملک اور عوام کا نا قابل تلافی نقصان کر دیا ہے ۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ
انہیں جانے اپنی کس کارکردگی پر غرور ہے۔
وزیر اعظم کو چاہیے کہ جمہوری انداز کو اپنائیں ،جس پر وہ آمادہ نظر نہیں
آتے ۔عمران خان یا تو اپنے ارد گرد چند لوگوں کی مشاورت پسند کرتے ہیں یا
انہیں اقتدار میں لانے والوں کی بات کو اہمیت دیتے ہیں ۔لیکن اس مہلک وبا
کو مقابلہ کرنے کے لئے انہیں دوسرا انداز اپنانا ہی پڑے گا۔کیوں کہ ان کے
پاس کوئی شاہ راہ عمل نہیں ہے ،جو صحیح سمت کی رہنمائی کرتا ہو۔معیشت میں
نئی روح پھونکنے کے لئے بھی بڑے پیمانے پر مشترکہ مشاورت کی ضرورت ہے ۔اگر
اب بھی حکمران اپنی پرانی روش پر گامزن رہے تو وہ دن دور نہیں کہ عوام
برداشت کا دامن کھو دے گی ،تب انہیں کوئی بچنے کا راستہ نظر نہیں آئے
گا۔حکمران نوشتۂ دیوار پڑھ لیں تو اچھا ہے۔
|