بھارت جو پوری دنیا میں ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے
کا ڈھنڈوراپیٹ رہا ہے اور اس بات کا دعویدار ہے کہ بھارت میں ہر قسم کی
اقلیت کو ان کے حقوق حاصل ہیں ، دراصل جمہوریت اور سیکولرازم کے نام پر
سیاہ دھبہ ہے ۔بھارت کے کالے کارنامے ہمیشہ سے ہی اُسی کے سرپڑے اور صرف
یہی نہیں بلکہ ان کارناموں کو پوری دنیا نے دیکھا جس سے بھارت کو ہمیشہ سے
ہی شرمندگی کا سامنا رہا مگر بھارت جیسا ڈھیٹ ملک شاید ہی اس دنیا میں کہیں
موجود ہو۔بہرحال اس وقت بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی اس وقت بھارت کو
سیکولر کی بجائے ہندواسٹیٹ بنانے کے لئے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریے
پر عمل پیرا ہے، آر ایس ایس ہندو انتہاء پسندوں کی تنظیم ہے جس پر کئی بار
پابند ی بھی عائد کی جا چکی ہے، بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے
، دونوں کا مقصد ایک ہی ہے ۔اس تنظیم کے لوگ انتہائی حد تک مسلمانوں سے
نفرت کرتے ہیں اور کسی بھی طرح سے بھارت سے مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتے
ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریند ر مودی اس وقت بھارت کے وزیراعظم کے بجائے آر
ایس ایس کے سربراہ کا کردار نبھا رہے ہیں، بنیادی طور پر نریندر مودی خو د
بھی ایک انتہا پسند اور مسلم دشمن سوچ رکھنے والے شخصیت کے طور پر دنیا میں
پہچانا جاتا ہے ،جس کی نظر میں انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی
کبھی ہوسکتی ہے ۔ نریندر مودی کو اس بات کا اندازہ بالکل نہیں ہے کہ ان کی
پالیسیاں اور مسلم دشمنی بھارت کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کردیگی جہاں نہ تو
بھارت آگے کا رہے گا اور نہ پیچھے کا، بھارت یوں تو مقبوضہ کشمیر پر ایک
عرصے سے مظالم ڈھا رہا ہے اور وہاں مسلمانوں کا کس طرح سے قتل عا م ہورہا
ہے اس سے پوری دنیا اچھی طرح واقف ہے لیکن ہندوستان میں لوک سبھا اور ایوان
بالا راجیہ سبھا سے منظور ہونے والے متنازعہ شہریت بل جس کے تحت سال 2015سے
قبل پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سمیت دیگر ممالک سے بھارت آنے والے
ہندو، جین، سکھ،پارسی،یہودی اور عیسائی مذہب غیر قانونی تارکین وطن کو تو
بھارتی شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں دی جائے گی، جو کہ مودی
سرکار کی مسلم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور سیکولر بھارت کے دعوؤں کی
کھلی نفی ہے، مودی سرکار نے مسلم دشمنی میں اس سے قبل مورخہ 5اگست کو
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تھی اور اب تک وہاں پر ظلم کے پہاڑ
توڑنے میں مصروف ہے جہاں 9ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا اور وہاں پر کرفیو
کی صورتحا ل ہے، زندگی سسک کر جی رہی ہے ۔اس کے علاوہ اگر مودی کی مسلم
دشمن کارناموں میں دہلی فسادات اور گجرات فسادات بھی قابل ذکر ہے ۔حقیقت یہ
ہے کہ بھارت میں صدیوں سے آباد مسلمان برصغیر کی تقسیم کے بعد ہی سے مشکلات
کا شکار چلے آرہے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت جو فسادات پھوٹے، ان میں بہت
سے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت بھی کرنا پڑی لیکن اکثریت کے لئے نہ پاکستان
ہجرت کرنا ممکن تھا اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتی تھی۔ مسلمان بدلے ہوئے
حالات میں بھارت کے پرامن، قانون پسند اور وفادار شہری کی حیثیت سے رہنا
چاہتے تھے۔ لیکن ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں جو گانٹھ باندھ لی
تھی وہ نہ کھل سکی اور روز بروز ان کے مسلمانوں کے خلاف جذبات میں شدت آتی
گئی اور آج یہ شدت اپنی عروج پر ہے ۔بھارتی سرکار کی مسلمانوں سے دشمنی کا
اندازہ صرف اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب ہٹلر کے پیروکار مودی نے بطور
وزیراعلیٰ ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا ،اسے ہندو اکثریت
نے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کردیا اور ایک بار نہیں انتخابات کے ذریعے
دوسری بار بھی اسے اس منصب سے نوازا گیا اور وہ پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں
کے وجود کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔ بی جے پی کے لیڈر بار بار
یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر مسلمان بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو بن
کر رہنا ہوگا۔ ورنہ وہ بھارت سے چلے جائیں۔ اس مقصد کے لیے وہ مختلف حکمت
عملی پر کام کررہے ہیں ایک حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمانوں کو ترغیب اور تربیت
کے ذریعے ہندو بنایا جائے۔ اسے ’’گھر واپسی تحریک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ہندو لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان مسلمانوں کے آباؤ اجداد اصل میں ہندو تھے جب
غیر ملکی مسلمان ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تو انہوں نے زبردستی یہاں کے
باشندوں کو اپنا مذہب چھوڑنے اور مسلمان ہونے پر مجبور کردیا۔ اب بھارت میں
ہندوؤں کی حکومت ہے تو ان مسلمانوں کو اپنے گھر یعنی ہندو مذہب میں واپس
آجانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں کو لالچ بھی دیا جاتا ہے اور ڈرایا
بھی جاتا ہے لیکن ’’گھر واپسی‘‘ کی یہ تحریک بری طرح ناکام رہی ہے ،اس کے
علاوہ ہندؤں نے تقسیم برصغیر سے پہلے مسلمانوں کے خلاف بہت سی تحاریک چلائی
جن میں ’’شدھی اور شنگٹن ‘‘ کی تحریکیں قابل ذکر ہیں جو بری طرح ناکام ہوئی
۔مذہب تبدیل کرنے میں ناکامی کے بعد اب مودی حکومت نے شہریت کا متنازع
قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا ہے جس کے تحت مسلمانوں کو بھارت میں رہنے کے
لئے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے پرکھے اس سرزمین پر صدیوں سے آباد تھے اور
اس کا دستاویزی ثبوت ان کے پاس موجود ہے۔ اس شرمناک قانون کے خلاف پورے
بھارت میں شدید احتجاج برپا ہے اور اس احتجاج میں غیر متعصب اور روشن خیال
ہندو بھی مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بھارت کی کئی ریاستوں نے بھی اس
قانون کو مسترد کردیا ہے۔ ابھی یہ احتجاج جاری تھا کہ پوری دنیا میں کرونا
وائرس پھیل گیا اور بھارت بھی اس کی زد میں آگیا۔ لیکن مسلمان دشمنی ملاحظہ
ہو کہ اس وبا کے پھیلاؤ کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی جس کے بعد اب
بھارتی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ، انہیں کرونا کا
مریض کہہ کر پکارا جارہا ہے اور تو اور وہ علاج و معالج کی سہولت سے بھی
محروم ہیں ، اس وقت مودی سرکار بھارتی مسلمانوں کے خلاف مزید زہر اگلنے میں
مصروف ہے اگر مزید ایسا ہی ہوتا رہا تو یہ تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ بھارت
کی مسلم آبادی کرونا وائرس سے بڑی تعداد میں متاثر ہوسکتی ہے ،ایسے میں
عالمی ادارہ صحت کو اس بارے کچھ کرنا چاہیے۔
|