حکومت کی جانب سے کابینہ میں تبدیلیاں کوئی نئی بات نہیں
۔ عمران خان ایک ایسی ٹیم بنانے کیسعی کرتے رہتے ہیں جو اُن کے وژن کو
کامیابی دلاسکے ، لیکن بدقسمتی ہے کہ ان کے معیار پر بیشتر وزرا ء پورے
نہیں اُتر رہے ،حکومتی اراکین کے حوالے سے تنقید کا سامنا ، معمول کی بات
بن چکی ہے۔ اب تک کی جانے والی تبدیلیوں میں پہلی بار وزرات اطلاعات میں
ردوبدل کا اپوزیشن نے بھی خیر مقدم کیا اور تحریک انصاف کا ’’ واحد مثبت
قدم ‘‘قرار دیا ۔ دیر آید درست آید کے مصداق وزیراعظم کو ادراک ہوا (
کرایا)ہوگا کہ اب انہیں میڈیا سے محاذ آرائی کے بجائے ریاست کے بیانیہ کو
عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
بیشتر حکومتی وزرا ء و ترجمانوں کا زور بیان سیاسی مخالفین پر رہا اور
انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانا وتیرہ رہا ۔شائد یہ حکومتی اسٹریجی
یا تجربے کی کمی ہو ۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو جب وفاقی
اطلاعات کی ذمے داری سونپی گئی تھی تو ان کا انداز نہایت جارحانہ و بے رحم
تھا۔ ( فواد چوہدری سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بھتیجے ہیں، باقی آپ
خود سمجھدار ہیں) شاید اُس وقت پی ٹی آئی کو اس طور کے جارحانہ بیانات اور
سخت جواب دینے والی شخصیت کی ضرورت تھی ، تاہم ذرایع کے مطابق موصوف کے غصے
کی اصل وجہ مبینہ تخت لاہور کا نہ ملناتھا، انہوں نے2018میں وزیراعلیٰ
پنجاب بننے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا ، لہذا گمان کیا جاتا ہے کہ وہ
اپنی کسی وزارت سے خوش نہیں ،کیونکہ انہیں اس سے زیادہ کی توقع رہی۔فواد
چوہدری کے بعد تجربہ کار فردوس عاشق اعوان کو خصوصی معاون کا درجہ دے کر
اہم ذمے داری سونپی گئی ۔ اُس وقت عمومی گمان تھاکہ شاید فردوس عاشق اعوان
، فواد چوہدری کی کمی پوری نہ کرپائیں ، کیونکہ پی ٹی آئی کومخالفین کے
خلاف جارحانہ کھلاڑی کی ضرورت تھی ۔ لیکن فردوس عاشق اعوان نے وزرات
اطلاعات کی پیچ پر جب کھیلنا شروع کیا تو ان کے اسٹروکس وکٹ کے چار اطراف
پڑنے لگے ( انہیں ویسے بھی کرکٹ کا شوق رہا اور خواتین کرکٹ کی کوچ بننا
چاہتی تھی اگر سیاست میں نہ ہوتی) ۔ لہذا انہوں نے پرانے شوق کو پورا کرنے
کے لئے جارحانہ بیان بازی کے سیاسی گراؤنڈ پر فواد چودھری کو بھی پیچھے
چھوڑ دیا ۔ ہر چینل ، پریس کانفرنسوں سمیت بیشتر معاملات میں صرف فردوس
عاشق اعوان زیادہ نظر آنے لگی ۔ بیشتر نجی چینلز، سرکاری پی ٹی وی کا نقشہ
پیش کرنے لگے ۔ جارحانہ پالیسی اختیار کئے۔ فردوس عاشق اعوان نے جارحانہ
پالیسی میں وقفہ لینا بھی ضروری نہیں سمجھا اور ان کی پوری توجہ صرف اور
صرف سیاسی مخالفین کے خلاف سخت ترین بیانیے پرمبذول رہی ۔
اس وقت وزیراعظم کی کابینہ نصف سنچری مکمل کرچکی ہے ، ان کے ترجمانوں نے
مختلف سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ محاذ سنبھالا ہوا ہے۔ گمان غالب یہی
ہے کہ ضرورت اس اَمر کی محسوس کی(کرائی) گئی ہو کہ ریاست کا بیانیہ کہیں گم
ہوچکا ہے ، لہذا ریاستی بیانیہ کو موثر بنانے کے لئے سنجیدہ شخصیت لانا
ناگزیرہے ۔ اس بار نظر انتخاب کوہاٹ کے سید احمد شاہ( شاعر احمد فراز) کے
نامور فرزند ارجمند شبلی فراز پر پڑی ۔ سینیٹر شبلی فراز کو وفاقی وزیر
اطلاعات و نشریات بنانے کے فیصلے کا ہر دو جانب سے خیر مقدم کیا گیا۔ سینیٹ
میں قاید ایوان بالا سینیٹرشبلی فراز کے فیملی بیک گراؤنڈ سمیت سیاسی پختگی
اور اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے قریباََ سب ہی گرویدہ ہیں ۔ لہذا وفاقی اطلاعات
و نشریات کے لئے شبلی فراز کی تعیناتی سے اپوزیشن کے لئے یہ اَمر اطمینان
کا باعث بناہوگا کہ انہیں اب فردوس عاشق اعوان کو میڈیا میں 18گھنٹے جھیلنا
نہ ہوگا اور ان کی سخت گوئی کے مقابلے میں شاید سنجید ہ تنقید ہی سامنے آئے
۔
سونے پر سہاگہ یہ بھی ہواکہ خصوصی معاون وزیراعظم برائے وفاقی وزارت
وطلاعات و نشریات کے لئے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹنٹ جنرل (ر) عاصم
سلیم باجوہ منتخب کئے گئے ،جو پہلے ہی سی پیک اتھارٹی میں چیئرمین کی حیثیت
سے کام کررہے ہیں،ان کو ساتھ معاون خصوصی وزیراعظم برائے اطلاعات کی اضافی
ذمے داری ملنے کے بعد حسب توقع مخالف عناصر کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے۔
زمینی حقائق دیکھے جائیں تو شدت سے احساس دلایا گیا کہ حکومت کا بیانیہ
سطحی ہوچکا ، اس لئے ریاست کے بیانیہ کو موثر بنانے کے لئے تجربہ کار(
سنجیدہ و متحمل مزاج)شخصیت( ٹیم) کی ضرورت تھی ، بلخصوص سوشل میڈیا کے اس
تیز رفتار دور میں ، حکومت کو ریاستی بیانیہ درست کرنا چیلنج کی حیثیت
رکھتا ہے، چونکہ عاصم سلیم باجوہ مسلح افواج کے انتہائی ذمے دار شعبے آئی
ایس پی آر کا وسیع تجربہ ، ملکی و غیر ملکی میڈیا سے بہترین تعلقات و اثر و
رسوخ رکھتے ہیں لہذا اس تبدیلی کو ارباب اختیار کی جانب سے اچانک نہیں بلکہ
سوچ بچار کے بعد اہم فیصلہ سازی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ فیس بک و ٹویٹر کا
اولیّن موثر استعمال کی شروعات بھی عاصم باجوہ کا کارنامہ ہے ، توقع کی جا
رہی ہے کہ لیفٹنٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اپنے تجربے سے سیاسی قیادت(
حکومتی ٹیم) کو مستفید کریں گے ۔ شبلی فراز جیسی شخصیت کے ساتھ معاونت
حکومت کے لئے سود مند قرار دی جارہی ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ کسی سابق فوجی
افسر کا اب سیاسی حکومت کا ترجمان بن کر سامنے آنا ،منفرد تجربہ ہوگا ،
لیکن تحریک انصاف کے ساتھ یہ مسئلہ روزاوّل سے رہا ہے کہ وزریراعظم کو
الیکٹیبلز سے سنجیدہ احباب کا انتخاب کرنا مشکل رہا ۔ پی ٹی آئی میں شخصی
گروپوں کے دھڑے بندیوں اور اختلافات نے عمران خان کو بروقت فیصلے کرانے میں
مشاورت کے لئے مناسب کردار ادا نہیں کیا ۔ ان خدشات کا اظہار بھی سامنے آیا
ہے کہ ٹیکنوکریٹس کو بطور پالیسی ساز معتین کرنیکا سلسلہ جاری ہے، پہلے
حفیظ شیخ، رزاق داؤد، رضا باقر، ثانیہ نشتر، ظفر مرزا اور اب عاصم باجوہ۔'
|