رسوائی و ذلت : کفیل خان سے صفورہ زرگر تک

ماہرین سیاست سے اگر سوال کیا جائے کہ کیا ایک معمولی ڈاکٹر کسی ایسے صوبے کے وزیراعلیٰ کی ذلت کا سبب بن سکتا ہے جس کی آبادی تقریباً 24 کروڈ ہو تو جواب ملے گا مشکل ہے ۔ اس کے بعد سوال میں یہ وضاحت بھی کی جائے کہ اگر اس وزیراعلیٰ کو ایوان اسمبلی میں دوتہاٗی سے زیادہ اکثریت حاصل ہے تو جواب ہو گا ناممکن ہے لیکن ڈاکٹر کفیل خان نے اس کو حقیقت بنادیا ۔ اسی طرح اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ایک یونیورسٹی کی طالبہ 135 کروڈ کی آبادی والے ملک کے وزیرداخلہ کی رسوائی کا سبب بن سکتی ہے؟ ایک ایسا وزیر داخلہ جس کے بارے میں یہ خوش فہمی پائی جاتی ہو کہ وہ کل یگ کا چانکیہ ہے تب تو لوگ کہیں گے اس کا تصور بھی محال ہے لیکن صفورہ زرگر نے اس مفروضے کو بھی غلط ثابت کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ بزدل و احمق سیاستدانوں کا سب سے بڑ ا دشمن ان کا غرور اور کینہ پروری ہوتا ہے ۔

کفیل اور صفورہ میں بہت کچھ مشترک ہے مثلاً دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں اور بی جے پی کے عتاب کا شکار ہیں ۔ دونوں کو پہلے جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا اس میں انہیں عدالت نے ضمانت دے دی ۔ اس کے بعد اپنی رسوائی کی پردہ پوشی کے لیے حکومت کو ایک ایسے کالے قانون کا سہارا لینا پڑا جس کے آگے عدالت بھی مجبور ہے لیکن ان میں بہت کچھ مختلف بھی ہے۔ مثلاً صفورہ ایک خاتون ہے ۔ وہ فی الحال حاملہ ہے اور اس کا تعلق وادیٔ کشمیر سے ہے۔ صفورہ زرگر کا اتر پردیش کے شہر گورکھپور کے بجائے دارالخلافہ دہلی کا مکین ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ زیادہ تر ٹیلیویژن چینل اسی شہر میں ہیں۔ ان کا سی اے اے اور این آرسی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بھی کم اہم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مدمقابل یوگی کے بجائے امیت شاہ کی موجودگی اور ان کو بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل میں قید کیا جانا بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

ڈاکٹر کفیل خان اتر پردیش کے ایک سرکاری اسپتال ( بی آر ڈی)میں لکچرر تھے ۔ انہوں نے اپنے اسپتال میں بچوں کی جان بچانے کے لیے ازخود محنت کرکے آکسیجن کے سلنڈر مہیا کیے ۔ یہ ان کی بہت بڑی خدمت تھی لیکن کوئی ایسی غیر معمولی بات بھی نہیں تھی کہ عالمی شہرت حاصل ہوجاتی لیکن یوگی نے حسد کا شکار ہوکر سلنڈر کی فراہمی میں اپنی کوتاہی کو چھپانے کے لیے ڈاکٹر کفیل کو مسیحا سے قاتل بنانے کی کوشش کی ۔ کالج کے پرنسپل اور دیگر اساتذہ کے ساتھ ڈاکٹر کفیل کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ۔ قدرت کا کرنا دیکھیے کہ سرکاری عتاب کا شکار ہونے والے دیگرعملہ کا نام تک کوئی نہیں جانتامگر ڈاکٹر کفیل کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سب سے پہلے ان کو ضمانت دی ۔ اس کے بعد ان کے خلاف کسی دوسرے طالبعلم کی جگہ امتحان دینے سے لے کر عصمت دری تک کی بہتان طرازی کی گئی لیکن وہ سب غلط ثابت ہوئی ۔ عدالت کے ساتھ ساتھ یوگی سرکارکو بھی انہیں کلین چٹ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

ڈاکٹر کفیل کوئی عظیم دانشور نہیں ہیں مگر ملک بھر میں ظلم کے خلاف جدوجہد کی ایک علامت بن چکے ہیں ۔ ملک بھر کے دلیر جہد کار انہیں اپنا ہیرو مانتے ہیں ۔ بہار سیلاب کے وقت سیلاب زدگان کی راحت رسانی نے ان کا قد اور بھی بڑھا دیا ۔ اتر پردیش کی یوگی سرکار اس کو برداشت نہ کرسکی اور ان پر سی اے اے کے ایک خطاب عام میں اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کرلیا۔ بی جے پی والے جب کسی پر اشتعال انگیزی کا الزام لگاتے ہیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ ایک ایسی جماعت جس کی شناخت اشتعال انگیزی ہے، جو صرف اور صرف جذباتی استحصال کی سیاست کرتی ہے ۔ جہاں یوگی جی عوامی جلسے میں بولی سے یا گولی سے نعرہ لگاتے ہیں اس کا کسی اور پر مشتعل کرنے کا الزام کیا معنی؟ لیکن جس کی لاٹھی اس کی گئو ماتا والے سیاسی ماحول اگریہ سوال کیا جائے کہ عقل بڑی یا بھینس تو جواب ملے گا نہ عقل نہ بھینس بلکہ لاٹھی ڈنڈا ۔ ڈاکٹر کفیل خان کو جب پھر سے ضمانت مل گئی تو یوگی سرکار نے ان کو یواے پی اے کے تحت گرفتا ر کرلیا حالانکہ سپریم کورٹ نے 1985میں ضمانت کے فوراً بعد این ایس اے لگانے سے منع کردیا تھا۔یوگی راج میں قانون کی بالا دستی بے معنیٰ ہوکر رہ گئی ہے۔ آج یہ عالم ہے کہ جیل کی سلاخوں کی پیچھے ڈاکٹر کفیل بے خوف ہیں اور مسندِ اقتدار پر فائز یوگی ادیتیہ ناتھ ان کے باہر آنے سے خوفزدہ ہیں۔ ڈاکٹر کفیل کی دلیری نے یوگی کی بزدلی کو بے نقاب کردیا ہے۔

صفورہ زرگر کا معاملہ ڈاکٹر کفیل سے زیادہ سنگین ہے۔ اس بے قصور طالبعلم کی گرفتاری نے مسلمانوں ، کشمیریوں اور عام انسانوں کے حوالے سے مودی سرکار کے تمام کھوکھلے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ۔ طلاق ثلاثہ کے وقت مودی اور ان کے حواری مسلم خواتین کی مظلومیت کا نوحہ سناتے پھرتے تھے اور انہیں مردوں کے ظلم سے نجات دلانے کا دعویٰ کرتے تھے ۔ اس غبارے کی ہوا صفورہ زرگر کی گرفتاری نے نکال دی ہے۔ کیا صفورہ مسلم خاتون نہیں ہے؟ کیا وہ کورونا کی وباء کے دوران ہمدردی کی مستحق نہیں ہے؟ ایک ایسے نازک وقت میں جبکہ جیل سے مجرمین کو پیرول پر رہا کیا جارہا ہے کیا صفورہ کو گرفتار کرنا ضروری تھا؟ حاملہ خواتین کو تو حالت جنگ میں بھی حراست میں نہیں لیا جاتا ۔ مودی سرکار کی انسانیت نوازی اب کہاں چلی گئی ؟ صفورہ کو ضمانت مل جانے کے باوجود بصد احترام گھر پہنچانے کے بجائے ان کویو اے پی اے کے تحت کیوں گرفتار کرلیا گیا ؟
کشمیریوں کو دو خاندانوں کو چنگل سے نکال کر ان پر احسان کرنے کا دعویٰ کرنے والوں سے دنیا پوچھ رہی ہے کہ کیایہی وہ آزادی ہے کہ جس کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی تھی ؟ صفورہ کا تعلق یوپی کے کسی شہر سے نہیں کشمیر سے ہے۔ کشمیر کو دنیا آج بھی ایک تنازع مانتی ہے۔ مودی جی کے قریب ترین دوست ٹرمپ وقتاً فوقتاً ثالثی کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہتے ہیں ۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس مسئلہ پر ہندو پاک گفت و شنید کے خواہاں ہیں ۔ ویسے ظلم اتر پردیش میں ہو یا انڈمان و نکوبار کے جزیروں پر وہ ظلم ہی ہے لیکن عالمی برادری کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی جانب خصوصی توجہ دیتی ہے اور اقوام متحدہ تک اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔

صفورہ زرگر سمیت عمر خالد ، خالد سیفی ، میران حیدراور شرجیل امام پر دہلی میں فساد بھڑکانے کا الزام لگایا گیا ہے لیکن ساری دنیا جانتی ہے ان جہد کاروں کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک چلانے کی انتقامی کارروائی کے سبب گرفتار کیا جارہا ہے۔ حکومت کی یہ خام خیالی ہے کہ کورونا وباء کے بعد گرفتاری کے خوف سے یہ لوگ اور ان کی پیروکارطلبا؍ و نوجوان خوفزدہ ہوکر تحریک سے باز آجائیں گے ۔ حقیقت تو یہ ہے اس کا الٹا اثر پڑے گا۔ صفورہ زرگر مستقبل کے اندر جب کسی احتجاج میں شریک ہوں گی تو وہاں موجود سارے لوگوں کے دل کا خوف نکل جائے گا۔ وہ سوچیں گے جب ایک حاملہ خاتون اس تحریک کے لیے جیل جاسکتی ہے تو ہم یہ قربانی کیوں نہیں پیش کرسکتے ؟ صفورہ اگر جیل جانے باوجود خوفزدہ نہیں ہوئی تو ہم کیوں ہوں؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جبرو استبداد کا مقابلہ کرنے کے بعد احتجاجی تحریکات کمزور نہیں بلکہ مضبوط تر ہوجاتی ہیں ۔

سنگھ پریوار کی سمجھ میں یہ ضابطہ اس لیے نہیں آتا کہ وہ ہمیشہ کشمکش سے بھاگتا رہا ہے۔ ویر کہلانے والے ونایک دامود ساورکر کا انگریزوں کو لکھا جانا والا معافی نامہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اٹل جی کے دستخط مجاہدین آزادی کے خلاف لکھوائی جانے والی ایف آئی پر موجود ہیں ۔ ایمرجنسی کے دوران سر سنگھ چالک بالا صاحب دیورس کے ذریعہ اندرا گاندھی کو لکھے جانے والے مکتوبات بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکے ہیں۔ یوگی جی کی ایوان پارلیمان کے اندر پھوٹ پھوٹ کر رونے والی ویڈیو کو ہنوزیو ٹیوب سے ہٹایا نہیں گیا ہے۔ یہ لوگ مشکلات میں گھرتے ہی ڈر جاتے ہیں اور ساری دنیا کو اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہندوستان کی تاریخ بھی شاہد ہے کہ نہ تو آزادی کے متوالے انگریزی سامراج کے جھکے اور نہ سی اے اے کے خلاف قائم ہونے ملک بھر کے شاہین باغوں کو ڈرا دھمکا کر ختم کرایا جاسکا ۔ وہ شاہین صفت خواتین تو کورونا کے سبب از خود اس عزم و حوصلے کے ساتھ لوٹی تھیں کہ سرکاری ظلم و جبر کے خلاف ان کی جدو جہد جاری رہے گی ۔

سی اے اے کے خلاف چلنے والی ملک گیر تحریک نے سنگھ پریوار پہلے تو حیرت زدہ کردیا۔ انہیں یہ امید ہی نہیں تھی کہ یہ آگ ملک بھر میں اس قدر تیزی کے ساتھ پھیل جائے گی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اسے بدنام کرنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی منہ کے بل اوندھے گر ے ۔ اس کے مقابلے متوازی تحریک چلانے میں سارے سرکاری ذرائع و وسائل کو جھونک دینے کے باوجود بری طرح ناکام رہے ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر دہلی کا انتخاب جیتنے کی کوشش کی تو اس میں بھی ناکامی ہاتھ لگی ۔ ڈرانے دھمکانے کے لیے بندوق بردار غنڈوں کو بھیجا تواس کا بھی کو ئی اثر نہیں ہوا۔ پولس کے ذریعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طاقت کا بے رحمی سے استعمال کیا تو وہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا۔ اس کے بعد کورونا کی وبا آئی اور ان لوگوں کو لاک ڈاون کی آڑ میں کریک ڈاون کرنے کا موقع مل گیا ۔ حکومت کے اس قدر نچلی سطح تک گرجانے پر جن کو حیرت ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر فرقہ وارانہ فساد میں یہی ہوتا رہا ہے۔ پہلے کرفیو لگایا جاتا ہے پھر نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اس کے بعد لوٹ مار، آگ زنی کرتے وقت بوڑھوں ، بچوں اور خواتین پر ظلم توڑا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہ لوگ جو کچھ سڑکوں پر کرتے رہے ہیں وہی اب سرکاری سطح پر ہونے لگا ہے۔

حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کی اوچھی حرکات سے کم از کم مسلمانوں کی تحریک کو ناکام کرنا مشکل ہے کیونکہ ڈاکٹر کفیل خان اور صفورہ زرگر جیسے دلیر اہل ایمان کی بابت ارشادِ ربانی ہے ’’اور صاحبانِ ایمان کا یہ عالم ہے کہ جب انہوں نے کفر کے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی بات ہے جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا و رسول کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس ہجوم نے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہی کردیا‘‘۔ یہ لوگ حالات کے آگے سرنگوں نہیں ہوتے ان کے بارے میں رب کائنات فرماتا ہے ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘، یہ ایک ایسی جنگ کا منظر ہے کہ جس میں سارا عرب متحد ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوگیا تھالیکن مومنین کی ثابت قدمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے‘‘۔ اس کیفیت کا خلاصہ مولانا محمد علی جوہر نے یوں بیان کیا ہے ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتناہی یہ ابھرے گاجتنا کہ دباوگے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449848 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.