رمضان المبارک کا مہینہ بہت ہی بابرکت مہینہ ہے۔ رمضان
المبارک کو مہینوں کا سردار کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس پورے مہینہ کا
روزہ مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔ اس مہینہ کی اہمیت کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رجب سے ہی رمضان المبارک میں پہنچنے کی دعا
شروع کردیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے: "اے اللہ! ہمارے
لیےرجب وشعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں رمضان کے مہینہ تک
پہنچائے!" (شعب الایمان: 3534) رمضان کےتعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ارشاد فرماتے ہیں: "میری امتی رمضان کے حوالے پانچ ایسی چیزوں سے
نوازی گئی ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو وہ چیزیں نہیں دی گئیں۔ پہلی چیز:
جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے، اللہ تعالی اس امت کی طرف دیکھتے ہیں اور
اللہ تعالی جن کی طرف دیکھ لیتے ہیں، ان کو کبھی بھی عذاب نہیں دیتے۔ دوسری
چیز: افطار کے وقت روزہ داروں کے منھ کی خوشبو، اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو
سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ تیسری چیز: فرشتے ان کے لیے دن ورات استغفار کرتے
ہیں۔ چوتھی چیز: اللہ عز وجل اپنی جنت کو حکم کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے
بندوں کے لیے تزئین کرلو اورتیار ہوجاؤ ۔۔۔۔، پانچویں چیز: جب (رمضان) کی
آخری رات ہوتی ہے، تو (اللہ تعالی) ان سب کو معاف فرمادیتے ہیں۔ (شعب
الایمان: 3331)
قرآن کریم اسی ماہ مبارک: رمضان میں نازل ہوا۔ فرمان خداوندی ہے: شَهْرُ
رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ. (سورۃ بقرۃ: 185) (رمضان کا
مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گيا۔) قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک خاص
رات میں نازل ہوا۔ اس مبارک رات کو، ہم "لیلۃ القدر" یا شب قدر کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ. (سورۃ
القدر: 1) (بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔) قرآن کریم کا
ماہ رمضان میں، لیلۃ القدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے
قرآن کریم کو "لوح محفوظ" سے آسمان اول پر، "بیت العزت" میں بیک وقت شب قدر
میں اتارا۔ پھراللہ تعالی نے بیت العزت سے ضرورت کے مطابق تئیس سالوں میں،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک حضرت جبریل علیہ السلام کے معرفت بھیجا۔
مشہور مفسر عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بصری (700- 774ھ) لکھتے
ہیں: "ابن عباس وغیرہ (رضی اللہ عنہم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے پورا
قرآن شریف "لوح محفوظ" سے آسمان دنیا پر "بیت العزت" میں یکبارگی (شب قدر
میں) نازل فرمایا۔ پھر واقعات کے مطابق تفصیل وار تئيس سالوں میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم پر (تھوڑا تھوڑا)نازل ہوا"۔ (تفسیر ابن کثیر 8/441)
مذکورہ قرآنی آیات سے ثابت ہوا کہ قرآن کریم کا رمضان میں نازل ہونا ایک
حقیقت ہے۔ رمضان سے قرآن کریم کا تعلق بہت گہرا ہے۔ ہمیں رمضان کے اوقات
وساعات کی قدر کرتے ہوئے، روزہ کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کریم میں مصروف
رہنا چاہیے۔ رمضان اور قرآن ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ یہ دونوں
قیامت کے دن روزہ رکھنے والوں اور تلاوت کرنے والوں کے حق میں سفارش بھی
کریں گے۔ حدیث شریف میں ہے: "الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ، يَقُولُ الصِّيَامُ رَبِّ إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ
وَالشَّرَابَ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ:
رَبِّ إِنِّي مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ
فَيشَفَّعَانِ". (حلیۃ الأولياء وطبقات الأصفياء 8 / 161) ترجمہ: روزہ اور
قرآن قیامت کے دن (روزہ رکھنے والے اور تلاوت کرنے والے کےحق میں) سفارش
کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے
پینے سے روک دیا تھا؛ لہذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمالیں! قرآن
کریم کہے گا: اے میرے ربّ! میں نے رات میں اس کو سونے سے روک دیا تھا؛ لہذا
اس کے حق میں میری سفارش قبول کرلیں! پھر ان دونوں کی سفارشیں قبول کرلی
جائیں گی۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں، اپنا وقت زیادہ تر
قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور اس کی تلاوت وقرات میں گزاریں۔ یہ عمل جہاں
ان کو رمضان جیسے مبارک مہینہ میں ادھر ادھر کی لغو اور لایعنی باتوں سے
محفوظ رکھے گا، وہیں اس عمل سے اس کی آخرت بھی سدھرے گی اور من جانب اللہ
بڑااجر و ثواب بھی ملے گا۔ اللہ تعالی نے ہمارے اسلاف واکابر کو اس حوالے
توفیق دی اور وہ رمضان المبارک میں سارے مشاغل سے دور رہ کر، اپنے اکثر
اوقات قرآن کریم کی تلاوت میں ہی صرف کرتے تھے۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ معمول تھا کہ آپ رمضان المبارک
میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دَور کیا کرتے تھے۔ حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رمضان میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
سخاوت وغم خواری اورحضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کے دور کو
بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیر کے معاملہ میں لوگوں سے زیادہ سخی تھے
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت رمضان میں اور زیادہ بڑھ جاتی
تھی، جب جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے۔ جبرئیل علیہ
السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے،تا آں کہ
رمضان ختم ہوجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کا
دور کرتے تھے۔ جب جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگتے؛
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو
جایا کرتے تھے"۔ (صحیح بخاری: 1902) اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ
رمضان کے مہینہ میں جہاں ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، وہیں ہمیں
صدقات وخیرات میں سخاوت سے کام لینا چاہیے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ (80 – 150 ھ) رحمہ اللہ کی شخصیت عوام وخواص میں
جانی پہچانی ہے۔ امام صاحب کے بارے میں علی بن زید صیدانی بیان کرتے ہیں کہ
ہو رمضان میں ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے، ایک ختم دن میں اور ایک ختم رات میں۔
(التدوين في أخبار قزوين 2 / 332)
حضرت امام مالک (93 – 179 ھ) رحمہ اللہ کے بارے میں ابن عبد الحکیم فرماتے
ہیں: "جب رمضان کا مہینہ آتا؛ تو امام مالک حدیث کی تدریس اور اہل علم کی
مجلسوں سے دور رہتے اورپوری دل چسپی سے قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کرتے"۔
(لطائف المعارف لابن رجب 1/ 171)
امام شافعی (150 – 204 ھ) رحمہ اللہ شروع میں طلب علم میں مشغولیت کی وجہ
سے قرآن کی تلاوت کم کرتے تھے۔ پھر آخر عمر میں بہت زیادہ تلاوت کرتے تھے۔
ربیع آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: "آپ ہر رات ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ ماہ
رمضان میں آپ ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے"۔ (المنتظم في تاريخ الأمم والملوك 10
/ 135)
حضرت سفیان ثوری (97 - 161) رحمہ اللہ کے بارے میں عبد الرزاق فرماتے ہیں :
"جب رمضان آتا؛ تو سفیان ثوری رحمہ اللہ ساری (نفلی) عبادتوں کو چھوڑ دیتے
اور پوری دل چسپی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔" (لطائف المعارف لابن
رجب 1/ 171)
ولید (668 – 715)بن عبد الملک بنو امیہ کے نامود اور مشہور خلیفہ تھے۔ آپ
کے بارے میں ابراہیم بن ابو عبلہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے انھوں نے ایک دن
پوچھا: "کتنے دن میں قرآن ختم کرتے ہو؟" میں نے جواب دیا اتنے اتنے دنوں
میں۔ پھر وہ بولے: امیر المومنین مشغول ہونے کے باوجود تین دن میں ایک قرآن
ختم کرتا ہے۔ وہ ماہ رمضان میں سترہ قرآن ختم کرتے تھے"۔ (البدايۃ والنہايۃ
9 / 182)
امام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بخاری (810 – 870ء)رحمہ اللہ کے رمضان کا
معمول بیان کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی (1372-1448ء) فرماتے ہیں: "جب ماہ
رمضان کی پہلی رات آتی؛ تو امام بخاری اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے۔ آپ ان کی
امامت کرتے اور ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت کرتے۔ یہی آپ کا معمول
رہتا، تا آں کہ آپ قرآن مکمل کرتے۔ اور آپ سحری کے وقت تک نصف سے ثلث قرآن
کے درمیان تک پڑھتے؛ چناں چہ ہر تیسری رات کو سحری کے وقت ایک قرآن ختم
کرتے۔ آپ دن میں ہر روز ایک قرآن ختم کرتے۔ (فتح الباری 1/ 481)
محمد بن زہیر بن قمیر فرماتے ہیں: "میرے والد ہم سب کو رمضان میں قرآن کریم
ختم کرتے وقت جمع کرتے تھے۔ ایک دن ورات میں تین قرآن ختم کرتے تھے۔ ماہ
رمضان میں نوے قرآن ختم کرلیا کرتے تھے۔" (تاريخ بغداد 8/ 485)
امام بغوی (433 – 516 ھ) زہیر محمد بن قمیر کے بارے میں فرماتے ہیں: "امام
احمد بن حنبل کے بعد، ان (زہیر محمد بن قمیر) سے بہتر کسی شخص کو نہیں
دیکھا۔ وہ رمضان میں نوے قرآن کریم ختم کرتے تھے"۔ (العبر في خبر من غبر 1
/ 369)
مامون رشید (786 – 833 ء)مشہور ومعروف عباسی خلفاء میں سے تھے۔ اللہ تعالی
نے ان کو علم، حلم اور شجاعت وبہادری سے نوازا تھا۔انھوں نے خلق قرآن کے
حوالے سے علماء کرام پر ظلم کیا۔ یہ ان کی زندگی کی ناگفتہ بہ حقیقت ہے۔ ان
کے بارے میں کہا جاتا ہے: "وہ بعض رمضان میں 33 مرتبہ قرآن کریم ختم کرلیا
کرتے تھے"۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطي 1/226)
ابو جعفر محمد بن عبد اللہ فرغانی فرماتے ہیں کہ ابو العباس بن عطاء نے
فرمایا: "اے ابو جعفر! بہت سالوں سےہر روز میں ایک قرآن ختم کرتا ہوں۔
رمضان میں ایک دن اور رات میں تین قرآن ختم کرتا ہوں"۔ (صفۃ الصفوۃ 1/533)
حضرت قتادہ (متوفی: 735ء) رحمہ اللہ ہر سات رات میں ایک قرآن مجید ختم کرتے
تھے۔ جب رمضان آتا؛ تو ہر تین رات میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ جب آخری عشرہ
ہوتا؛ تو ہر ایک رات میں ایک قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ (نداء الريان في فقہ
الصوم وفضل رمضان 1 / 198)
حضرت علامہ کشمیری کا قران مجید میں تدبر وتفکر:
حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی (1905 - 1998) رحمہ اللہ حضرت علامہ
محمد انور شاہ (1875 - 1933) کشمیری رحمہ اللہ کا رمضان میں قرآن کریم میں
تدبر وتفکر کے حوالے سے رقم طراز ہیں: "علم کی گہرائی اور دقت نظر کا کچھ
اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہےکہ حضرت نے اپنا یہ حال خود ایک دفعہ بیان
فرمایا کہ 'میں رمضان مبارک میں، قرآن مجید شروع کرتا ہوں اور تدبّر وتفکّر
کے ساتھ اس کو پورا کرنا چاہتا ہوں؛ لیکن کبھی پورا نہیں ہوتا۔ جب دیکھتا
ہوں کہ آج رمضان المبارک ختم ہونے والا ہے؛ تو پھر اپنے خاص طرز کو چھوڑ
کر، جو کچھ باقی ہوتا ہے، اس دن ختم کرکے دور پورا کرلیتا ہوں'۔ یہ عاجز
(حضرت نعمانی) عرض کرتا ہے کہ رمضان المبارک میں کبھی حضرت کے قریب رہنے کا
اتفاق تو نہیں ہوا؛ لیکن یہ معلوم ہے کہ آپ "انزل فیہ القرآن" والے اس
مبارک مہینہ میں، زیادہ وقت قرآن مجید ہی کی تلاوت اور تدبر وتفکر پر صرف
فرماتے تھے۔ اس کے باوجود قرآن کریم ختم نہیں کرپاتے تھے"۔ (عبد الرحمن
کوندو، الانور، ص: 307)
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی (1898 - 1982) رحمہ اللہ
حدیث اور علوم حدیث کے ایک اہم اسکالر کے طور پر عرب وعجم میں مشہور تھے۔
انھوں نے اپنی زندگی کو درس وتدریس، تعلیم وتعلم، تصنیف وتالیف، عبادت
وریاضت اور اصلاح وتزکیہ کے لیے وقف کررکھا تھا۔ رمضان میں کئی سالوں تک آپ
کا یہ معمول رہا کہ آپ روزانہ ایک قرآن کریم ختم کرتے۔ آپ رقم طراز ہیں:
"(سن) 38 ہجری سے ماہ مبارک میں، ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا
تھا، جو تقریبا (سن) 80 ہجری تک رہا؛ بل کہ اس کے بھی بعد تک (رہا)"۔ (آپ
بیتی 1/ 72)
حضرت شیخ الحدیث صاحب کی دادی محترمہ قرآن کریم کی حافظہ تھیں۔ آپ کو دوران
حفظ اپنی دادی سے بھی شرف تلمذ حاصل ہے۔ آپ ان کی تلاوت قرآن پاک کے بارے
میں لکھتے ہیں: "میری دادی صاحبہ حافظہ تھیں اور بہت اچھا یاد تھا۔ سال بھر
کا معمول، خانگی مشاغل، کھانے پکانے کے علاوہ، ایک منزل روزانہ کا تھا اور
رمضان میں چالیس پارے روزانہ کا تھا"۔ (آپ بیتی 1/ 72)
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان (1926 - 2017) صاحب رحمہ اللہ کا
ماضی قریب کے نمایاں علما کرام میں شمار ہوتا ہے۔ آپ دار العلوم دیوبند کے
فاضل اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (1879-1957) کے
شاگردوں میں سے تھے۔ آپ رمضان المبارک میں روزانہ مکمل قرآن کریم ختم کیا
کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب آپ کے بارے میں تحریر فرماتے
ہیں: "رمضان المبارک میں یہ معمول اتنا بڑھ جاتا تھا کہ یومیہ پورا قرآن
مجید پڑھتے تھے"۔ (تذکرہ شیخ الکل مولانا سلیم اللہ خاں رحمہ اللہ، ص: 132)
مذکورہ بالا اقتباسات سے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے اسلاف واکابر
رمضان المبارک میں، قرآن کریم کے ساتھ کس طرح چمٹے رہتے تھے۔ در اصل وہ اس
حقییقت سے واقف تھے کہ قرآن کی تلاوت اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ قرآن کریم
کی تلاوت اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ وہ تلاوتِ قرآن کریم
کی توفیق کو اپنے لیےخوش قسمتی سمجھتے تھے۔ہمیں بھی اپنے بڑوں سے سیکھ کر،
قرآن کریم تلاوت کو شب وروز کا معمول بنانا چاہیے۔ خاص کر رمضان المبارک کے
مہینے میں، ہمیں پوری دل چسپی اور لگن کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت میں
مشغول رہنا چاہیے۔ اگر ایک شخص ساری نفلی عبادتوں کو چھوڑ دے، تا آں کہ وہ
تسبیح وتھلیل اور دعا وغیرہ کو بھی چھوڑ کر، صرف تلاوت قرآن کریم میں مشغول
رہتا ہے؛ تو اللہ پاک اس کی ساری مرادیں پوری فرمائیں گے۔ تلاوت قرآن میں
مشغولیت کی وجہ سے دعا بھی نہیں مانگ سکا؛ تو اللہ تعالی اس شخص کو وہ
چیزیں بھی عطا فرمائیں گے، جو مانگنے سے رہ گئیں ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے:
"مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِي وَمَسْأَلَتِي؛ أَعْطَيْتُهُ
أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ". (ترمذي: 2926) ترجمہ: جس شخص کو قرآن
کریم میرے ذکر اور مجھ سے مانگنے سے مشغول کردے؛ میں اس شخص کو اس سے بہتر
دیتا ہوں، جو میں مانگنے والوں کو دیتا ہوں۔
رمضان کے مبارک مہینہ میں، اکابر واسلاف اور علماء وصلحا کا قرآن کریم میں
تدبر وتفکر اور قرات وتلاوت کا جو نقشہ اوپر پیش کیا ہے، وہ قرآن کریم کے
ساتھ ان کی دل چسپی، شغف اور محبت وعقیدت کا بین ثبوت ہے۔ ہمیں بھی خود کو
قرآن کریم کے حوالے سے کچھ اسی طرح کی جد وجہد اور سعی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم
جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے، جب ہم خود کو اس پاک ذات کے
کلام کے ساتھ مشغول رکھیں گے، اس کے ساتھ محبت کا اظہار کریں گے، تو وہ پاک
ذات بھی ہمیں پسند کرے گی اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرما لے گی اور
ہماری آخرت سنور جائے گی!پروردگار عالم ہم سب کو رمضان المبارک کے قیمتی
اوقات کے قدر کی توفیق بخشے! آمین! ••••
|