جماعت اسلامی ہند :
یہ ملک کی ایک قدیم نظریاتی،اسلامی اور تحریکی تنظیم ہے۔6 اپریل 1948ءکو
حضرت مولانا ابوالاعلی مودودی کے ہاتھوں اس کی تشکیل عمل میں آئی۔دراصل26
اگست 1941ءکو بر صغیر ہند کے 75 نفوس جن میں قدیم علمابھی تھے اور جدید
طبقہ کے اہل علم ودانش بھی،لاہور میں جمع ہوئے۔ انہوں نے اقامت دین اور
اسلام کی سربلندی کے لیے جماعت اسلامی کی تشکیل کی، باہمی مشاورت اور بحث
وتمحیص کے بعد اس کا دستور وضع کیا اور اتفاق رائے سے ابوالاعلیٰ مودودی اس
جماعت کے امیر منتخب ہوئے۔جماعت اسلامی کی تشکیل در حقیقت حضرت مولانا
مودودی کی اس شدید احساس کی مرہون منت ہےکہ احیائے دین اور اعلائے کلمۃ
اللہ کے لیے اجتماعیت بہت ضروری ہے۔ مولانا نے جماعت کی عملی تشکیل سے قبل
اپنی صحافتی تحریروں اورعلمی مقالوں کے ذریعہ پورے یقین اور زور استدلال کے
ساتھ مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ ان کے تمام مسائل و مشکلات
کا حل درحقیقت اپنے حقیقی منصب کے شعور اور اس کے تقاضوں کی تکمیل اور اپنی
زندگی سے اس تناقض کو دورکرنے میں ہے، جس کی وجہ سے وہ دین کی صحیح
نمائندگی کرنے کی بجائے اس کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔انہوں نے قرآن وحدیث
کی روشنی میں دلائل کے ساتھ یہ حقیقت واضح فرمائی کہ فریضۂ اقامت دین کی
ادائیگی اجتماعی جد وجہد کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے عام روش سے ہٹ کر
دین حق کا جامع تصور واضح کیا۔اس کوکچھ رسوم اور چند مخصوص عبادات سے بلند
ترثابت کیا اور ساتھ ہی غالب غیر اسلامی تصورات اور رائج باطل نظریات پر
دلائل کے ساتھ بھرپور تنقید کی اور اسلامی اقدارو افکار کی فوقیت ثابت کی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسلام ایک نظام رحمت ہے،جو نہ صرف یہ کہ اخروی
فلاح ونجات کا ضامن ہے،بلکہ اس دنیا میں بھی عملاًنظام عدل قائم کرچکا ہے
اور اس موجودہ دور میں بھی قائم کرسکتا ہے۔
اس تحریک نے فکری محاذ پر بھی کام کیا اور سیاسی محاذ پر بھی۔ ساتھ ہی
زندگی کے تمام شعبوں میں خود کو منظم کیا۔ فلاحی، تعلیمی اور طبی میدانوں
میں بھی محروم طبقات تک اپنی خدمات پہنچائیں، نیز ملک میں جب بھی ارضی
وسماوی آفات آئیںتو متاثرین کی بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ جماعت اسلامی ہندوستان
کے علاوہ پاکستان،بنگلہ دیش اورسری لنکا وغیرہ میں بھی اللہ کے دین کی
سربلندی کے لیے اپنے اپنے ملکی وجغرافیائی اور سیاسی حالات کے مطابق سرگرم
عمل ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ افراد نے دنیا کے ہر ملک میں اپنے دعوتی
حلقے قائم کررکھے ہیں، جو اپنے اپنے مرکز سے مربوط ہیں۔
نیز سیدمودودیؒ کی فکر سے متاثر ہونے والے اہلِ ایمان انڈونیشیا، ملیشیا،
افغانستان اور بہت سے دیگر خطوں میں منظم انداز میں کام کررہے ہیں۔ ان ساری
تحریکوں کا واضح اور دوٹوک موقف ہے کہ اللہ کے بندوں پر اللہ کا دیا ہوا
نظام نافذ کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پُر امن جدوجہد اور موافق
سرزمین ہونی چاہیے۔ خفیہ کارروائیوں اور تشدد سے کسی معاشرے میں تبدیلی
لانا ان تحریکوں کے نزدیک درست نہیں ہے؛ البتہ جہاں غیرمسلم قوتوں نے
مسلمان علاقوں اور آبادیوں کو اپنے استبدادی پنجے میں جکڑ رکھا ہے وہاں
مسلّح جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ ہوجائے تو اس کی مدد کرنا دینی لحاظ سے
فرض ہے اور اس کی مخالفت کرنا کفر کی قوتوں کی تائید کے زمرے میں آتا
ہے،چنانچہ جماعت اسلامی ہند اپنے نصب العین اقامت دین پر اپنے روزِ اول سے
عمل پیرا ہے، جس کا حقیقی محرک صرف رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے.
آل انڈیامسلم مجلس مشاورت :
ہندوستانی مسلمانوں کی معروف ومشہور وفاقی تنظیم آل انڈیا مسلم مجلسِ
مشاورت درحقیقت آزاد ہندوستان میں مسلمانان ہند کو متحد کرنے، ان میں مثبت
سوچ پید ا کرنے اور اعلیٰ کردار کے ذریعے اکثریتی طبقے کی نفرتوں کو دور
کرنے کی ایک سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کے طور پر 1964ءمیںشروع کی گئی۔1947ء
کے بعدمسلمانوں کے خلاف حکومت کا امتیا زی رویہ، ان کے خلاف مسلسل بڑھتی
ہوئی نفرت، مسلم کش فسادات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زیادتیوں کو
دیکھ کر مشاورت نے ان کے خلاف ملک گیر تحریکیں چھیڑیں اور تمام مسلم
کمیونیٹی کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوششیں کیں۔اس کی واضح مثال
12-11جون 1961 ء کو مولانا حفظ الرحمٰن اور پروفیسر ہمایوں کبیر کے ذریعے
ڈاکٹر سید محمود کی صدارت میںدہلی میں منعقدہ مشاورت کا وہ عظیم الشان اور
فقید المثال کنونشن ہے، جس میں ملک بھر سے سبھی مسلک ومشرب اور مکتبۂ فکر
کے تقریباً 600عمائدین نے شرکت کی۔نیز1964 ءمیں جب ملک میں مسلم کش فسادات
کا سلسلہ شروع ہوا،تو ان علاقوں کے مسلمان بڑی تعداد میں حوصلہ ہار کر ہجرت
کی سوچنے لگے۔ یہ صورتحال نہایت تشو یش نا ک تھی جس نے بعض درد مند اور
صاحب بصیرت افراد کو جھنجھوڑ کر آمادۂ عمل کیا،تو مشاورت کے قائدین نے
اپنے پلیٹ فارم سے بھائی چارے اور امن کاپیغام لے کر ملک گیر پیمانے پر
دورے کیے جس کی شروعات رانچی سے کی گئی اور مسلمانوں کے ساتھ کئی معروف
ہندولیڈر اور سماجی کارکنوں نے بھی امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اس
پیغام کو عام کرنے میںمشاورت کا بھر پور ساتھ دیا ،ان میں نانچی بھائی
پٹیل، پنڈت سندر لال، من سکھ لال دوبے، سوشلسلٹ لیڈر ایس ایم جوشی، ڈاکٹر
جن سنگھ پنڈت اور تحت مل جین پیش پیش تھے۔
سیدامین الحسن رضوی (مرحوم) مدیر ریڈینس کے بقول: ’’مشاورت نے اپنا پہلا
ہدف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ یکجہتی اور الفت و اعتماد
کی فضا پیدا کرنے کو قراردے کر اس غرض کے لیے رابطۂ عامہ کی مہم شروع
کی،چنانچہ جلدی ہی اس پروگرام پر عمل در آمد شروع ہو گیا۔ مشاورت کے
قائدین نے ایک ساتھ دورے کرنے شروع کر دیے اور آغاز پروگرام میں بعض
مقامات کے دوروں میں پنڈت سندر لال جیسی وقیع شخصیت اور بعض دوسرے صاف ذہن
کے ہندو حضرات بھی ان کے ساتھ ہوئے۔ مشاورت کے اس وفد کی ہر جگہ بڑی
گرمجوشی سے پذیرائی ہوئی،جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ حضرات جہاں بھی جاتے،
وہاں چاہے شہر کے معززین کی مخصوص نشست ہو، خواہ جلسۂ عام میںخطاب، ان کا
ایک ہی پیغام تھا، محبت و بھائی چارگی، فرقہ وارانہ یکجہتی اور اعتماد
باہمی۔ یہ پیغام لوگوں کے دلوں میں گھر کرتاگیا اور مجلس مشاورت کے اس
پروگرام کا خوب خوب چرچا ہونے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا متزلزل
ہوتا ہوا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا اور ہجرت کا خیال ان کے ذہن سے نکلنے
لگا۔‘‘
امتِ مسلمہ کی صفوں میںاتحاد پیدا کرنے، تمام مسلم ملی وسماجی جماعتوں
کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور مسلمانوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے
لیے مجلسِ مشاورت روز اول ہی سے کوشاں رہی۔ اس سلسلے میں اجتماعات وکنونشنز
منعقد کرکے پوری امت کو یہ پیغام دیا کہ اتحاد واتفاق ہی میں اس قوم کی بقا
ہے۔ آزاد ہندوستان میں مسلکی اختلافات کو بھلا کر دیوبندی، بریلوی، اہلِ
حدیث، شیعہ، بوہرہ اور دیگر مسالک کے متبعین کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع
کرنا یہ مشاورت کا اہم کارنامہ ہے۔ ہنوز یہ تنظیم اپنی اسی پرانی روش پر
دہلی میں قائم ودائم ہے۔اس کے موجودہ صدر جناب نوید حامدہیں،البتہ کچھ خاص
وجوہ کی بنیاد پراب اس تنظیم کا چرچا اس قدرنہیں ہے،جس آب وتاب سے اس نے
اس کار گہہ حیرت واستعجاب میں قدم رکھا تھا۔( ماخوذاز مسلم مجلس مشاورت:ایک
مختصر تاریخ)
مرکزی جمعیت اہل حدیث :
یہ مسلمانوں کی ایک قدیم ترین مذہبی اور رفاہی تنظیم ہے۔ 1906 ءمیں اس کا
قیام عمل میں آیا، اسی وقت سے یہ امت کے علمی اور ثقافتی تشخص کو
دوبالاکرنے کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی آرہی ہے۔نیزاس نے ملک میں
انسانیت اور بھائی چارے کے پیغام کو پھیلانے میں قابل قدر کردار ادا کیا
ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند دعوت واصلاح، تعلیم وتربیت، علم وتحقیق،
نشرواشاعت،احصائیات و تعمیرات اوررفاہ عامہ جیسے اہم محاذوں پر
بھرپورجدوجہد کررہی ہے،جس کے مفید ثمرات ملکی سطح پرمحسوس کیے جارہے ہیں
اورخود مؤقر مجالس عاملہ وشوری مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے بھی اپنے
حالیہ اجلاسوں میں جمعیت کی ہمہ جہت کارکردگی پراطمینان کااظہار کیاہے۔
مرکزی جمعیت نے شعبۂ دعوت واصلاح کے تحت سنہ 2008 میںعظمت صحابہ کے موضوع
پر30ویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقد کیا تھا،مزید ملکی سطح پر دعوتی
کانفرنسوں اور جلسوں میں شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔ دہلی ومضافات کی مساجد میں
خطبات جمعہ ودروس کا اہتمام کیاجاتا ہے اور پورے ملک میں دعاۃ ومبلغین
مسلسل دعوتی دورے کررہے ہیں۔ شعبۂ تعلیم وتربیت کے تحت تدوین نصاب کاکام
جاری ہے۔ چمن اسلام ودیگر نصابی کتابیں بڑی تعداد میں شائع کی،نیز افتا
ودعوت میں دوسالہ ٹریننگ کے لیے دہلی میں المعہد العالی قائم ہے۔پورے ملک
میں پھیلے ہوئے مدارس اورتعلیمی اداروں کے پروگراموں میں بھی شرکت کاسلسلہ
برابر جاری ہے۔سال میں ایک مرتبہ آل انڈیا ریفریشرکورس برائے ائمہ ودعاۃ
اور معلمین،نیز آل انڈیا مسابقہ برائے حفظ وتجو ید اورتفسیر قرآن کریم کا
انعقاد عمل میں آتا ہے۔شعبۂ تنظیم کے تحت صوبوں میں تنظیمی کنونشنوں کا
انعقاد کیا جارہا ہے، تاکہ افراد جماعت کے اندر دعوت وتعلیم کے حوالے سے
جوش وجذبہ اوربیداری پیدا کی جاسکے۔ شعبۂ احصائیات کے زیراہتمام مدارس اہل
حدیث کی ضخیم ڈائرکٹری اورتراجم علمائے اہل حدیث شائع کی جاچکی ہیں اور
صوبائی جمعیات کی ڈائرکٹری منتظراشاعت ہے۔ شعبۂ علم وتحقیق کے تحت کئی اہم
پروجیکٹوں پرکام ہورہا ہے، جن میں فتاویٰ شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی
مبارکپوریؒ اورمختصر جامع تاریخ اہل حدیث قابل ذکر ہے۔شعبۂ نشرواشاعت کے
ذریعہ انسائیکلوپیڈیاآف قرآن (ہندی) تاریخ ختم نبوت کی پانچ جلدیں
اورتاریخ اہل حدیث کی چار جلدیں منظرعام پرآچکی ہیں۔ تفسیر احسن البیان
اردو، ترجمہ ثنائی ہندی اورنوبل قرآن انگریزی ترجمہ کے کئی ایڈیشن ہزاروں
کی تعداد میں شائع ہوچکے ہیں۔پندرہ روزہ جریدہ ترجمان ہندوستان کا ایک بڑا
جریدہ بن گیا ہے۔ماہنامہ اصلاح ،سماج ہندی اوردَ سمپل ٹروتھ انگریزی بھی
بڑی پابندی کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ اہل حدیث کمپلیکس میں جزوی
طورپراورٹھوکر نمبر۴ابو الفضل انکلیو نئی دہلی میں تعمیری کام جاری
ہے۔جمعیت کی تمام تردعوتی،تربیتی اورتنظیمی سرگرمیاں یہیں انجام پاتی ہیں۔
دارالافتا اور اسٹوڈینٹس گائیڈنس سینٹراسی کمپلیکس میں قائم ہے۔ اسی طرح
شعبۂ رفاہ عامہ کے تحت ملک کے مختلف گوشوں میں آفات سماویہ کے موقع پر
ریلیف کاکام کیا جاتا ہے اورتمام اہم قومی وملی معاملات میں بھی جمعیت
سرگرم رہتی ہے۔
رضا اکیڈمی ،ممبئی :
یہ اکیڈمی بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک
قدیم، مذہبی، ملی، فلاحی اور رفاہی تنظیم ہے۔ الحاج محمد سعید نوری اور آپ
کے والد برزگوار کی فکری کوششوں کے نتیجے میں 1978ءمیںعروس البلاد ممبئی
میں اس کا قیام عمل میں آیا۔اکیڈمی اپنے روز اول سے ہی اپنے ہمہ جہت مقاصد
کے حصول میں ہمہ وقت کمر بستہ رہی ہے،بالخصوص مولانا احمد رضاخاں کی خدمات،
تصانیف، نیز ان کے علمی اوردینی کارناموں کو منظر عام پر لانے اور اس کو
فروغ دینے میں اکیڈمی نے نمایاں کردارادا کیا ہے؛چنانچہ رضا اکیڈمی کی توسط
سے سیکڑوں عنوانات پر بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہو کر علمی دُنیا میں
پہنچیں،جن سے ایک دنیا مستفید ہوئی۔اکیڈمی نے پہلے پہل اعلیٰ حضرت امام اہل
سنت کا 16صفحات پر مشتمل رسالہ تبیان الوضو شائع کیا۔ پھر تمہید ایمان شائع
کیا اور یہ کتابیں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے درمیان مفت تقسیم کی
گئیں۔ اس کے بعد 1980ء میں اعلیٰ حضرت کا مقبولِ عام ترجمۂ قرآن
کنزالایمان شائع کیا گیا،جس کا اجرا خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا برہان الحق
رضوی جبل پوری علیہ الرحمہ کے ہاتھوں ہوا،نیز بارہ جلدوں پر مشتمل فتاویٰ
رضویہ کی مسلسل اشاعت ہو رہی ہے،جو بہت ہی کم قیمت پر لوگوں کو فراہم کیا
جاتا ہے۔رضا اکیڈمی اپنے انہی علمی کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں
رہی ہے۔ 1983ء میں مفتی اعظم کانفرنس اور انڈوپاک نعتیہ مشاعرہ منعقد کرکے
جہاں اس نے ایک حلقہ میں احساس برتری پیدا کی، تووہیں 1992ء میں صد سالہ
جشن مفتی اعظم کی باوقارتقریب کی سعادت بھی رضا اکیڈمی کے حصے میں آئی اور
مزید موقع بہ موقع اصلاح معاشرہ اور دیگر عنوان سے پروگرامز اور بزرگان دین
کی نسبت سے عرس وغیرہ بھی منعقد کرنا اکیڈی کا اپنا ایک امتیاز ہے۔اس کے
علاوہ ملک میں مسلمانوں کے مذہبی،سیاسی،سماجی اور تعلیمی مسائل کو حل کرنے
میں ہمیشہ سے سرگرم عمل رہی ہے اور بڑے پیمانے پر اِس کی مختلف ذیلی شاخیں
بھی تمام شعبہائے حیات میں متحرک و فعال نظر آتی ہیں۔مزید اکیڈمی کا سال
نامہ یادگارِ رضا اور ہفتہ وار مسلم ٹائمز کا حلقۂ قارئین بہت وسیع ہے۔رضا
اکیڈمی کا سنی رضوی کیلنڈر پابندی سے لاکھوں کی تعداد میں چھپتا ہے جسے
کافی پسند بھی کیا جاتا ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|