آرایس ایس اور مسلم تنظیموں کا تاریخی پس منظر قسط 5 مجموعی تبصرہ

مجموعی تبصرہ :
یہ ہندوستان کی مشہور ترین مذہبی، سیاسی،تعلیمی، تحریکی اور رفاہی مسلم تنظیموں کا مختصر تعارفی خاکہ اور ان کی خدمات پر مشتمل چند جھلکیاں تھیں، جبکہ ان کے علاوہ حروفِ تہجی کے اعتبار سے بے شمار علمی، تحقیقی، مذہبی، سیاسی اور سماجی ادارے اور تنظیمیں ہیں اورہر دن وجود میں آرہے ہیں۔ حد تویہ ہے کہ امت کے زوال و پستی کے اسباب اور اس کے تدارک کی ہر ہر شق پر کام کرنے کے لیے بے شمار علما،صلحا، دانش ور،مفکرین، قلم کار،مقررین،نعت خواں اور گویوں نے بھی لاکھوں کی تعداد میں سوسائٹیز، ٹرسٹ، این جی اوز اور تنظیموں کی بنیادیں رکھی ہوئی ہیں۔ یقیناًان میں بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں،جنہوں نے خدمت خلق اور مسلمانوں کی تعمیروترقی میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں،جن کو تاریخ کے کسی دو رمیں بھلایانہیں جاسکتا، تاہم قابل توجہ بات یہ ہے کہ آزادی کے ستر سال بعد بھی آج ہماراپورا معاشرہ جہالت وپسماندگی کے اندھیاروں میں کیوں بھٹک رہا ہے؟ اکیسویں صدی کے اس علمی ترقی کے دور میں بھی مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی قابلِ افسوس ہے۔حکومت بھی اس کی ذمہ دار ہے،لیکن ہم اپنی ذمہ داریوں کے تئیں کس قدر حساس اورفکرمند ثابت ہوئے ہیں، یہ بھی اپنے میں ایک اہم سوال ہے؛ اس لیے کہ حکومت جتنا کرسکتی تھی اس سے کئی گنا زیادہ صاحبِ ثروت اور ذمہ دار مسلمانوں نے ملک میں کام کررہی ان ہزاروں تنظیموں اور اداروں کی نصرت کی ہے۔ پھر بھی ہم مسلمان تعلیمی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی طور پر سب سے زیادہ پس ماندہ ہیں۔ہر سال اصلاحِ معاشرہ اور سماج سدھار کے نام پر ملک بھر میں لاکھوں جلسے اور اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں،جن پرامت کا اربوں روپیہ صرف ہوتا ہے، پھر بھی ہمارا معاشرہ صالح نہیں ہوا۔ہمارے نونہال علم وآگہی کے میدان میں کوئی خاطر خواہ سرفرازی واقبال مندی کے جھنڈے ثبت نہیں کر پائے،حالانکہ ہم نے اپنی انہی پس ماندگیوں کو دور کرنے کے لیے تو ان اداروں کو وجود بخشا تھا، لیکن جب ہم اپنی ان تنظیموں کا جائزہ لیتے ہیں،تو بڑی مایوسی ہوتی ہے اور خوشی بھی۔خوشی تو اس لیے کہ ماشاء اللہ جمعیۃ علمائے ہند، مسلم پرسنل لا بورڈ اورجماعتِ اسلامی ہند جیسی تحریکی، فکری، سیاسی اور ملی تنظیموں نے ملک میں بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں،کہ ایک طرف جمعیۃ علمائے ہند اور مسلم پرسنل لابورڈ روزِاول ہی سے حکومتوں کے سامنے مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے لڑتی رہی ہیں، تو دوسری طرف امارتِ شرعیہ، جماعت اسلامی اورمرکزی جمعیت اہل حدیث مسلمانوں میں شریعت کے تعلق سے عمومی بیداری پیداکرنے کے لیے کوشاں رہی ہیں، لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ ان ساری کوششوں کے باوجود آج ملک میں مسلمانوں کی یہ حالت کیسے ہوئی؟ تھوڑی جرأت کے ساتھ یہ کہنا بالکل بجا ہوگاکہ قوم کی اس زبوں حالی اور پس ماندگی کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں ہماری ان تنظیموں کی قیادتوں کا ہاتھ رہا ہے؛ کیوں کہ اگر واقعی وہ پوری تندہی اور دیدہ وری سے مسلم مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کرتے،تو شاید آج مسلمان ملک میں متحد بھی رہتے اورمؤثر بھی۔

یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلم تنظیموں کی مثال سمندر میں تنکے کے سہارے تیرنے والی اس شہد کی مکھی کی ہے، جس کو سمندری لہریں چشمِ زدن میں بہاکرنیست ونابود کردیں،کیونکہ ہر دفعہ ڈوبتی ہوئی مکھی کو بچانے کبوتر نہیں آیا کرتے اور نہ ہی خانۂ حرم کی پاسبانی کے لیے ہمیشہ ابابیلوں کی فوج اترتی ہے،بلکہ زندگی کی یہ کشتی ان ناخداؤں کی قوتِ بازو اور حوصلے پر ٹکی ہے، جو سمندری لہروں سے نبردآزما ہوکر اسے ساحل تک لے جانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔سوہم اپنی ان تنظیموں کے بیسویں،تیسویں اور صد سالہ عظیم الشان جلسوں کی رپورٹوں پر خوشی ومسرت کے نغمے گائیں،یا پھر اس ملک میں روتی،بلکتی اورپٹتی مسلم قوم کا رونا روئیں؛کیوں کہ ملک کی آزادی سے لے کر مسلمانوں کی بربادی تک کا قصہ بہت طویل ہے۔ ہم اکیلوں پر ٹوٹے ہوئے مظالم کی داستاں بیان کریں،یا پھر قافلہ کے لٹنے کا؛ سب ہی اپنی دردناک خانہ خرابیوں کے عجیب وغریب قصے بیان کرتے ہیں۔ یوں تو ملک میں مسلمانوں کی عفت و عصمت کے سیکڑوں محافظ نظرآتے ہیں،لیکن کیا کوئی ان کو لٹنے سےکبھی روک سکا؟ اس کے برعکس کارواں لوٹا گیا اور وہ خاموش رہے۔مسلم بستیوں پر شب خوں مارے گئے اور وہ رپورٹیں درج کرواتے رہے ۔ بنت حوا اپنی عفت و عصمت کی گوہار لگاتی رہیں اور وہ عماموں کے پیچھے منھ چھپائے اس منظر کو دیکھتے رہے ۔مسلم نوجوانوں کی زندگیاں سلاخوں کے پیچھے برباد ہوتی رہیںاور وہ لائحۂ عمل بناتے رہے !

اگر یہ سچ ہے کہ ملک میں مسلمانوں کا ماضی انتہائی تابناک اور روشن تھا، تو پھر اس کا وہ سورج کیسے گہن آلود ہوا؟ کیا یہ سچ ہے کہ مسلم تنظیموں اور تحریکوںنے ملک وملت کوسجاو سنوارکر ترقی کی معراج پر پہنچایا تھا،مگر وہ کیسے زوال پذیر ہوئے؟اور کیا یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال وپستی کے پیچھے انہی کی سچی اور مخلصانہ قیادت کا فقدان رہی ہے؟ توبلا شبہ تقسیمِ ہندوپاک کے بعد ملک میں ان مسلم تنظیموں اور تحریکوں کا وجود مسلمانوں کے لیے اُن اَن گنت ستاروں کی روشنی سے کم نہ تھا،جو تاریک شب میں کسی گم گشتہ قافلے کو اس کی منزل کا پتہ دینے کے لیے آسمان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے رہتے ہیں،مگرنفرت وعداوت اور عصبیت کے گھنگھورو گھٹاٹوپ بادل میں ستاروں کی اس روشنی کا کیا فائدہ؟ حقیقت ہے کہ ان تنظیموں نے مسلم قوم کا چہرہ بنانے اور سنوارنے سے کہیں زیاد ہ انھیں مسخ کیا ہے۔امت کو جوڑنے کی بجائے توڑاہے۔نظریاتی طور پر لوگوں کا ایک دوسرے سے اختلاف کرنا تو سمجھ میں آتا ہے،مگر ان تنظیموں کی بنیادپر لوگ نہ صرف ایک دوسرے سے نظریاتی او ر فکری طور پر الگ ہوئے ہیں،بلکہ بسااوقات انہی تحریکوں کی بنیاد پر ان کے درمیان گھونسہ،لاٹھی،تلوار اور گولی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان میںسے جب کسی کو کوئی موقع ہاتھ آتا ہے،تو وہ دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور اسے بدنام کرنے ہی کو امت کا ایک بڑامسئلہ اور کار خیر سمجھ کر دن رات اسی میں مصروف رہتا ہے،بلکہ جس کا ذہن جس قدرسازشی اور فتنہ پرور ہوتاہے،وہ اتنا ہی اپنےغلط رویوں سے دوسرے کو پریشان اور اس کی جڑوں کو کھوکھلاکرنے میں لگا رہتاہے۔ انجام کارسچی اور معتدل قیادت کے عدم وجود کے باعث آج یہ امت ہر میدان اور تمام شعبہ ہائے حیات میں دوسری قوموں سے نہ صرف پیچھے ہے،بلکہ انسانی اقدارکی معراج پر جگہ بنانے والی اس امت کا آج کی معاشرتی شرافت میں کوئی خاص مقام نہیں ہے؛حالانکہ رہبرِ انسانیت محمد عربی ﷺ نے اپنے قول و عمل اور گفتاروکردار سے ثابت کرکے لوگوں کو ایک ایسا صالح معاشرہ دیا تھاکہ اگر ہم صرف انہی کو آگے بڑھاتے رہتے،توشاید اس قوم کی آج یہ حالت نہیں ہوتی اور معاشرتی سطح پر اسے ملیچھ تصور نہیں کیا جاتا۔

فرمانِ رسول ﷺ ’’أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘(سنو! تم میں سے ہر شخص حکمراںہے اور اس سےاس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔صحیح بخاری و مسلم) کے بہ موجب یقیناً تمام مسلمان اس زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں،لیکن جن لوگوں نے اس سے اوپر اٹھ کر سماج سدھار اور اصلاحِ معاشرہ کا نعرہ بلند کیا تھا،وہ اپنی اس دوہری ذمہ داریوں سے کیوں کر بری ہوسکتے ہیں؟ اور جس ذمہ داری کو نبھانےکے لیے خود انہوں ہی نے صدروسکریٹری اور خازن کا لقب منتخب کیاتھا، امیر الہند اور امیرِ شریعت کا بلند وبالا تمغہ حاصل کیاتھا،تووہ کیسے اس سے دامن چھڑاسکتے ہیں؟ طرفہ کی بات یہ ہے کہ اگر ان سے مسلمانوں کی زبوں حالی کی شکایت کی جاتی ہے، توسارے ہی ذمہ داران اپنی اپنی رپورٹوں کے دفتر کھول کر اپنے کارناموں اور خدمات کا انبار لگادیتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی کوششیں ہوئی ہیںاوران تنظیموں اور اداروں نے اپنے اپنے محاذوںپرخوب جد وجہد کیا ہے،تو پھر کیوں ہندوستان کے مسلمان،معاشی،معاشرتی،تعلیمی اور اقتصادی طور پر دوسری قوموں سے پیچھے ہیں؟ 28مارچ 2010 کو ٹائمس آف انڈیا نے(National Council For Applied Economic Research,NCAER) کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی تھی،جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھاکہ اس ملک کے 31 فیصدمسلمان خط افلاس سے نیچے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور 05 - 2004کے اسی (NCAER) سروے میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ ملک میں ایک تہائی مسلمانوں کی ماہانہ آمدنی550 روپے سے بھی کم ہے۔ ہر دس مسلمان میں سے تین مسلمانوں کی زندگی خطِ افلاس سے نیچے ہے اور تقریباً تمام شعبہ ہائے حیات میں مسلمانوں کی یہی حالت ہے۔ یقیناً اس کی ذمہ دار حکومت ہو سکتی ہے، لیکن جب ہم نے یہ مان لیا ہے کہ حکومت نے ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ناانصافیاں ہی کی ہیں، توہم نے کب اپنے ساتھ انصاف کیاہے؟
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73356 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.