سید منور حسن صاحب قاضی حسین احمد صاحب کے بعد
جماعت اسلامی کے چھوتے امیرمنتخب ہو ئے۔ عوام جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی
پاکستان کی واحد سیاسی دینی پارٹی ہے جو نہ مورثی نہ قومیت پر یقین رکھتی
ہے۔ اس نظریاتی دینی سیاسی پارٹی کا بانی امیرمولانا سید ابو الاعلی
مودودیؒ مہاجر، دوسرا میاں محمد طفیلؒ پنجابی، تیسرا قاضی حسین احمدؒ
پٹھان، چوتھا سید منور حسن مہاجر اور موجودہ سراج الحق پٹھان امیر جماعت
اسلامی منتخب ہوئے۔ جماعت اسلامی میں نہ قومیت ہے نہ وراثت ۔ جماعت اسلامی
کا ہر رکن محنت، تقوی اور قربانی کی بنیاد پر جماعت اسلامی کے دستور کے
مطابق جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہو سکتا ہے۔ جب جماعت اسلامی کے ارکان نے
سراج الحق کو امیر منتخب کیا تو سید منور حسن بیگ میں کپڑے ڈال کر لاہور
منصورہ سے کراچی اپنے گھر منقتل ہو گئے۔ منور حسن صاحب کا تعلق برعظیم کے
مشہور معروف شہردہلی سے ہے۔تقسیم ہند کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ کراچی
منتقل ہوئے، اس وقت سے کراچی میں مقیم ہیں۔ آجکل وہ بیمارہیں اﷲ تعالیٰ سے
دعا ہے کہ وہ ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ اگر تقوی کی بات کی جائے توجب ان
کی لڑکی کی شادی ہوئی تو لوگوں نے لاکھوں کے تحائف دیے۔ سید منور حسن نے
سارے تحائف جماعت اسلامی کے بیت المال یہ کہہ کر جمع کروا دیے کہ یہ تحائف
جماعت اسلامی کے امیر ہونے کی وجہ سے میری بیٹی کو ملے ہیں لہٰذا یہ جماعت
اسلامی کے ہیں میری بیٹی کے نہیں۔ ساری عمر جماعت اسلامی کے لیے وقف کر
دی۔کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ تحریکی ساتھیوں نے ذبردستی مکان بنا دیا
اور کہا کہ جو کرایا دیتے ہو وہ ہمیں مکان کی قسط کے طور پر دیتے رہنا۔
سیدمنور حسن نے زمانہ طالب علمی میں اپنی سیاست کا آغاز لفٹ ونگ سے کیا ۔
ایک وقت ان کے ذہن میں آیا کہ دیکھیں اسلامی جمعیت طلبہ والے کیا کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ آئے تو تحقیق کرنے کے لیے، مگر انہی پر دل نچھاور کر بیٹھے۔
پھرہمیشہ کے لیے اُن ہی کے ہوگئے۔ شاید کاتب تقدیر نے سید منور حسن کے لیے
ان ہی کے ساتھ رہنا منظور کیا ہوا تھا۔ساری جوانی جماعت میں رہ کر گزاردی۔
اسلام کے ہراول دستہ جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ، اسلامی جمعیت طلبہ میں
شمولیت اختیار کر لی۔ کچھ کر گزرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسلامی جمعیت طلبہ
میں مختلف پوزیشنوں پرذمہ داریاں کے بعد بلا آخر اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم
اعلی منتخب ہوئے۔ تعلیم مکمل کر لینے کے بعداسلامی جمعیت سے فراخت کے بعد
جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ہمارا تعارف سید منور حسن صاحب سے اُس
وقت ہوا جب وہ امیر جماعت اسلامی حلقہ کراچی محمود اعظم فاروقی صاحب کے
ساتھ قیم کی ذمہ داریوں پر تعینات کیے گئے۔ سید منور حسن صاحب نے کراچی میں
دہشت گرد، فاشست، علاقائی اور لسانی تنظیم ایم کیو ایم کے عروج اور مظالم
کے دور میں بحیثیت امیرجماعت اسلامی حلقہ کراچی رہے۔الطاف حسین صاحب نے
تعلیمی اداروں میں مہاجر طلبہ کے نام سے سیاست شروع کی۔ اس سے قبل بھی
تعلیمی اداروں میں کیمونسٹ اور قوم پرست ،بلوچی، سندھی،پٹھان طلبہ تنظیمیں
سیاست کر رہیں تھیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ ان کو سب کو تعلیمی اداروں میں شکست
سے دو چار کرتی رہتی تھی۔ تعلیمی اداروں میں سرخوں کے نعرے ’’ایشیا سرخ
ہے‘‘ سمیت سب قوم پرست طلبہ تنظیموں کے اتحاد کوشکست فاش دی تھی۔ ایشیا سرخ
ہے کے نعرے کو ایشیا سبز کے نعرے کے سے شکست دے کر تعلیم اداروں سے باہر
کیا۔ دہشت گرد الطاف حسین کے مہاجر قومیت کے ’’ جیے مہاجر‘‘ کے نعرے کو بھی
کراچی حیدر آباد کے تعلیمی اداروں میں شکست دی۔ پھر الطاف حسین نے کراچی کی
گلی کوچوں میں جیے مہاجر کے نعرے پر کام شروع کیا۔ بد قسمتی کہیں یا کیا
کہیں! فوج کو سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے کے کسی قوت کی ضرورت تھی، جو
دہشت گرد الطاف حسین نے پوری کر دی۔اُس وقت صوبہ سندھ میں غوث علی شاہ صاحب
کی حکومت تھی۔ غوث علی شاہ نے مرکز ی حکومت کی شہ پر الطاف حسین کو دہشت
گردی کے لیے کھلی چھٹی دے۔ الطاف حسین ے کراچی بلکہ پورے سندھ میں دہشت
گردی پھیلا دی۔ الطاف حسین نے کراچی کے تعلیم ادروں میں اسلامی جمعیت طلبہ
پر مظالم شروع کیے۔ کراچی کے ایک ضلاع جنوبی میں ایک احتجاجی جلسہ میں
درجنوں لڑکوں کو پیش کیا گیا۔ کسی کا سر پٹھا ہوا، کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ،
کسی کے بازو ٹوٹے ہوئے اور کہی یوں کے جسم پر زخموں کے نشان تھے۔ اسلامی
جمعیت طلبہ پر مظالم کو رکوانے کے لیے سید منور حسن دہشت گرد الطاف حسین کے
گھر ۹۰ پر گئے۔ الطاف حسین سے کہا کہ ہم نے آپ کی جیت مان لی ہے۔ پھر یہ
ظلم و ستم کیسا؟ دہشت گرد الطاف حسین کا جواب تھا۔ آپ اب گھر بیٹھیں۔ ہمیں
کھل کر دہشت گردی کرنے دیں! ۔ ۔۔گھر تو وہ بیٹھا کرتے ہیں جو اپنی ذاتی
مفاد کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ سید منور حسن نے دہشت گردالطاف حسین کا ڈٹ کر
مقابلہ کیا۔ کراچی میں کئی جلسے اور ریلیاں منعقد کیں۔ دہشت کی وجہ سے باقی
سیاسی جماعتیں توایک طرف ہو کر بیٹھ گئیں ۔واحد جماعت اسلامی تھی جو دہشت
گرد الطاف حسین اور اس کی فاشسٹ، دہشت گرد اور لسانی تنظیم ایم کیو ایم کے
خلاف ڈٹی رہی۔اس جماعت اسلامی کی قیادت منور حسن کر رہے تھے۔ جماعت اسلامی
نے ملین مارچ منعقد کیے۔ جس میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور
امریکا اور بھارت کی مخالفت کی گئی۔ ریلیوں میں بھارت؍ امریکا کا جو یار ہے
غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے گئے۔پھر قاضی حسین احمد صاحب نے سید منور
حسن کو مرکز میں بلا کر جماعت اسلامی پاکستان کا قیم تعینات کر دیا۔ سید
منور حسن نے قاضی صاحب کی شروع کی گئی ،امریکا مخالف تحریک ’’گو امریکا
گو‘‘ کو اپنے دور امارت میں آگے بڑھایا۔پاکستان میں ۲۰۰۲ء کے الیکشن میں
پڑوسی مسلمان ملک افغانستان پر امریکا کے قبضے کی مخالفت میں پاکستان کی
عوام نے رد عمل کے طور پر متحدہ مجلس عمل کو کامیاب کیا۔ خیبر پختونخواہ،
بلوچستا ن میں صوبائی حکومتیں بنائی۔مرکز میں حزب اختلاف کی پوزیشن ملی۔
ڈکٹیٹرمشرف کو نکالنے کی تدبیر میں متحدہ مجلس عمل میں اختلافات میں پید
اہوئے اور متحدہ مجلس عمل ٹوٹ گئی۔بلدیاتی الیکشن اکیلے اکیلے لڑا گیا، جس
میں شکست کا سامنا ہوا۔ جماعت اسلامی کے کارکن اتحادی سیاست سے بیزار ہوئے۔
سیدمنور حسن کی امارت کے دوران مرکزی شوریٰ نے طے کیا کہ آیندہ جماعت
اسلامی اپنے منشور اور جھنڈے کے تحت الیکشن لڑے گی۔ صرف ہم خیال جماعتوں کے
ساتھ صرف سیٹ ٹو سیٹ اڈجسمنٹ کرے گی۔ سیدمنور حسن کے دور میں میڈیا نے فوج
اور جماعت اسلامی کو لڑانے کی کوشش کی۔فوج نے غلطی کرتے ہوئے اعلانیہ سیاست
میں مداخلت کی۔ اس پر جماعت اسلامی نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ منور حسن کہتے
تھے کہ یہ امریکا کی جنگ ہے ہماری جنگ نہیں۔ بلا آخر سید منور حسن کا مؤقف
درست ثابت ہوا۔پاکستان کی فوج نے تسلیم کیا کہ یہ جنگ ہماری نہیں تھی۔ فوج
آیندہ کسی کی بھی پرائی جنگ میں حصہ نہیں لے گی۔ پاکستان نے دہشت گردی کی
جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اُٹھایا۔ ہم سے ڈو مور نہ کہا جائے۔ اب دنیا ڈو
مور کرے۔ دعاء ہے کہ اﷲ تعالیٰ درویش صفت سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان،
سید منور حسن کو صحت عطا فرمائے آمین۔
|