مشہورجرمن کہاوت ہے کہ’ کسی کی خوشی کسی دوسرے کی بدقسمتی
ہوسکتی ہے ‘۔ساری دنیا میں ایک جیسے جذبات نہیں ہوتے ، کچھ ایسی ہی صورتحال
کا سامنا ہمارے بیشتر سیاسی رہنماؤں کوبھی ہے جنہیں اپنے جذبات پر
قابورکھنے میں کافی دشواریاں پیش آرہی ہے۔ دنیا بھر کے سیاسی رہنماؤں و ان
کے مخالفین کی تنقیدوں کا مطالعہ کریں تو ، ان کی شخصیت کو ان کے الفاظوں
سے سمجھ لینا مشکل کام نہیں۔ لیکن یہاں بڑا مسئلہ ہے کہ ایک چہرے پر کئی
نقاب چڑھے ہوئے ہوتے ہیں ،انہیں اتارتے اتارتے ، صبح سے شام ہوجاتی ہے،
لیکن پُرفریب نقاب اصل چہرہ کبھی سامنے نہیں لانے دیتا۔ حالیہ دنوں میں
عالمی دنیا کرونا کی وجہ سے جس کرب سے گذر رہی ہے ، یقینی طور پر اس کا
اندازہ اُن ویڈیوز کو دیکھ کر ہوسکتا ہے جو سوشل میڈیا میں ایسے قرنطینہ
مراکز سے وائرل ہو ئیں ، جس کے بعد کرونا سے تو نہیں ، کم ازکم قر نطینہ سے
ضرور ڈر لگنے لگا ۔ ایک جانب بیشتر نجی چینلنز و سرکاری ٹی وی قرنطینہ کی
ایسی شکل دکھاتے ہیں کہ (خدانخواستہ) بیمار ہونے کو جی چاہتا ہے ، لیکن
دوسرا مکروہ چہرہ سوشل میڈیا میں جب وائرل ہوتا ہے تو یقین کیجئے کہ
’’اسیڈیا ‘‘ جذبات حاوی ہونے لگتے ہیں ، یہ جذبات کی ایک ایسی شکل ہے جس
میں انسان میں جینے کی آرزو ختم ہوجاتی ہے۔ قرنطینہ میں تنہائی ، اُس پر
دیکھ بھال کا نہ ہونا، پھر جس قسم کی خوراک و جس حال میں رکھا جاتا ہے ،
ایسی ویڈیوز یا واقعات کی تعدا د چاہے کم ہو ، لیکن یہ بہت ہیبت ناک اور
خوفناک صورتحال ہیں۔کراچی کے سرکاری اسپتال میں کرونا مریض نے خودکشی،
اسیڈیاکے باعث کی۔
کرونا کے باعث انسانی جذبات’ ذہنی انتشار‘ کی بیماری کا شکار ہورہے ہیں،
لیکن ہمارے یہاں لوگ سیاسی انتشار کا شکار زیادہ دکھائی دیتے ہیں،قوم کو
حوصلے، رہنمائی اور آنے والے بُرے وقت کے لئے تیار کرنے کے بجائے سیاسی
رہنماؤں کا رویہ سیاسی خلفشار کا منظر پیش کرتا ہے ، اس سے عوام میں مصائب
سے لڑنے کی قوت پیدا کرنا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔جب سے تبدیلی سرکار
آئی ہے ، اُن کا آج تک ماضی کی یادوں سے نجات دلانے کا سلسلہ ختم ہی نہیں
ہو رہا ۔ حزب اقتدار ، حزب اختلاف کی خامیاں و اپنے قصیدے سناتے ہیں تو یہی
عمل دوسری جانب سے بھی دوہرایا جاتا ہے ۔ اس عمل کو ’’ ناسٹلجیا ‘‘ کہا
جاتا ہے۔ قومی رہنمانا سٹلجیا کا شکار نظر آتے ہیں ، کیونکہ جب بھی کوئی
غلطی سے اختلاف رائے دے دے تو جیسے قیامت آجاتی ہو۔ویسے تو یہ بیماری جہاز
رانوں میں زیادہ پائی جاتی رہی ہے ، لیکن ہمارے یہاں بھی ہوائی منصوبے ،
ہوائی قلابازیاں اور ہوائی باتوں کا رواج پڑ چکا ہے۔جذبات کی ایک ایسی
بیماری بھی سامنے آئی جو اتفاقاََ ہمارے ارباب اختیار و سیاسی رہنماؤں پر
پوری اُتر تی ہے ۔ اس مرض کا نام ’’ شیل شاک ‘‘ ( دیکھنے اور سننے کی
صلاحیت کھودینا) ہے۔ عوام یقیناََ سمجھ چکے ہوں گے کہ جس قسم کے حالات سے
دوچار ہے ، اُس پر ارباب اختیار کا رویہ ظاہر کررہا ہے کہ انہیں یہ بیماری
ؒلاحق ہوچکی ہے۔ انہیں عوام کی حالت زار دکھائی نہیں دیتی ، غریب عوام کی
چیخیں اور پکار سنائی نہیں دیتی اور ’سب اچھا ہے ‘کی رپورٹ کی سرخ بتی
نمایاں دکھائی دیتی ہے ۔
جذبات کی ایک بڑی بیماری ’’ اخلاقی پاگل پن ‘‘ بھی ہے۔ یہ مرض بھی بکثرت
عام و خاص میں بہ اتم پایا جاتاہے۔ اس کے اثرات زیادہ تر سیاسی جماعتوں میں
ہی ملیں گے ، وہ چاہیں اقتدار میں ہوں یا حزاب اختلاف میں ،مخصوص اوقات میں
بیشتر رہنماؤں سمیت ’ مخلص ‘ کارکنوں پر بھی اس بیماری کے اثرات نمودار
ہوتے ہیں، تو دور سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ نزدیک کی نظر کمزور ہے۔ ہم
عموماََ اخلاق و جذبات کو ایک ہی ترازو میں تولتے رہے ہیں ، لیکن ایسا نہیں
، یہ انتہائی جذبات کا ایک ایسا اظہار ہے جو ضدی بچوں سمیت ہر صنف پر یکساں
طاری ہوسکتا ہے۔جذبات کی ایک بیماری ’ہسٹریا‘ بھی ہے ، لیکن اس کا نمو
زیادہ تر خانگی مسائل و گھریلوتشدد سے جڑا ہے ، سیاسی معاملات میں ہسٹریا
کی مداخلت صرف سوشل میڈیا میں نظر آتی ہے جب کسی جماعت کا سوشل ونگ اپنے
مخالفین کے لتے لیتاہے تو وہ یقینی طور پر ہسٹریا میں مبتلا لگتا ہے،کیونکہ
جس قسم کے الفاظ و رویہ اپنایا جاتا ہے ، اُسے قطعی طور پر صحت مند ی کی
علامت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ جذبات کی ایک بیماری ’’ وحشت ‘‘ کا ذکر نہ
کیا جائے تو اظہاریہ ادھورا رہ جائے گا ۔ کیونکہ جن حالات کا ہمیں سامنا ہے
ان سے باہر نہ نکلنے کی سبیل کے باعث وحشت کا طاری ہونا بھی ایک فطری عمل
ہے ، تاہم سیاست میں مخالفین کی کسی بھی حرکت کرنے سے خوف زدگی کو وحشت سے
ضرور تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
اب جذبات کی مختلف کیفیات کے نئے سیاسی وژن کو سمجھنے کے لئے ،کہ یہ سب
کیوں رونما ہوتا ہے ، تو اسے ہم سبقت لسانی کی ابتدائی علامات قرار دے سکتے
ہیں ، یعنی جذبات ، الفاظوں کا اپنے قابو میں نہ رہنا۔ دوسرے لفظوں میں
جذبات کی رو میں اتنا بہہ جانا کہ ڈوب کر پھر اُبھرنے تک زبان سے نکلے
الفاظ اور کمان سے نکلا تیر کی طرح صرف ’’معذرت ‘‘ پر ہی اکتفا کیا جاتا
ہے۔ سبقت لسانی کی اس بیماری کے ’’ شکار ‘‘ ہم آج کل اپنے مین اسٹریم میڈیا
میں بافراط دیکھ رہے ہیں۔ عالم ہو یا سیاست دان ، اینکر ہو یا نیوز کاسٹر ،
مہمان ہو یا میزبان ، شتر بے مہار کی طرح سب دوڑے چلے جارہے ہیں ، انہیں
روکنے و ٹوکنے والا جب تک کچھ کرے ، اُس وقت تک جذبات کے عدم برداشت کے
مضمرات اپنے جوبن پر گل کھلا چکے ہوتے ہیں۔ بس گذارش اتنی سے ہے کہ جذبات
میں قوم کو اُس موڑ پر نہ لے جائیں جہاں سے واپسی کی تمام رائیں مسدود
ہوچکی ہوں۔ جذبات بُرے نہیں ہوتے ، اگر اُس میں نیک بھلائی و فلاح بہبود کا
جذبہ کارفرما ہو ۔ جذبات کے بغیر کوئی انسان مکمل بھی نہیں ہے ، لیکن
آنکھوں پر پٹی باندھ کر اونچائی سے چھلانگ جتنی بھی نیک نیتی سے لگائی جائے
، اس کا نتیجہ ٹانگیں ٹوٹنے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ سبقت لسانی میں اپنے
جذبات و الفاظوں کو لگام دینا ہی عقل مندی قرار دی جائے گی بصورت دیگر بالا
سطور میں انتخاب فرما لیجئے کہ آپ جذبات کی بیماری کے کس اسٹیج پر ہیں۔
|