|
اگر آپکو فاسٹ فوڈ کا شوق ہے اور
آپ ایشیا میں رہتے ہیں تو شاید یہ سن کر خوش ہوں گے کہ ایشیا کے بعض ممالک کے
علاوہ باقی دنیا میں موٹاپا بڑھ رہا ہے۔
فاسٹ فوڈ سب سے زیادہ مقبول برطانیہ میں ہے اور امریکہ زیادہ پیچھے نہیں۔ نو
ہزار افراد کے ایک سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میں موٹاپےاور صحت مند
غذاء کے بارے میں لوگوں کی رائے میں بہت فرق ہے۔
فرانس میں لوگ اپنے وزن پر گہری نگاہ رکھتے ہیں لیکن سنگاپور میں لوگ اس کی
زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ |
فاسٹ فوڈ کی وجہ سے موٹاپا
بڑھ رہا ہے اور صرف چند ایشیائی ممالک ہی اس کے اثر سے محفوظ ہیں۔ یہ سروے تیرہ
ممالک میں کرایا گیا تھا۔
زیادہ تر لوگووں کا خیال ہے کہ موٹاپے میں اضافے کی وجہ فاسٹ فوڈ ہے جس کی
دستیابی بہت آسان ہوگئی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ
فاسٹ فوڈ دیکھ کر خود کو روک نہیں پاتے اور دونوں ملکوں میں تقریباً پینتالیس
فیصد لوگوں کے کہنا تھا کہ فاسٹ فوڈ چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہیں۔
لیکن صورتحال سب جگہ یکسان نہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کم چکنائی
والا کھانا سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی خطے میں وزن کم کرنے کے
کورسز، جمنیزیم کی رکنیت یا گھر کے لیے ورزش کا سامان خریدنے میں بھی بہت
دلچسپی ہے۔
سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے وزن کے بارے میں فکر مند ہیں، لیکن
پیٹزا یا ہیمبرگر دیکھ کر ان سے رکا نہیں جاتا، تو وہ دل بہلانے کے لیے ڈائٹ
کوک کے ساتھ فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں۔
موٹاپے پر ایک حالیہ سروے سے پتا چلا تھا کہ سن دو ہزار چھ میں تریسٹھ ملکوں
میں مردوں کی نصف سے لیکر تین چوتھائی آبادی تک موٹاپے کا شکار تھی۔
ماہرین کے مطابق بڑھتے ہوئے موٹاپے کی بنیادی وجہ لوگوں کا طرز زندگی ہے جس میں
ورزش پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور موٹاپے کی وجہ سےہونے والی بیماریوں سے
دنیا کے کئی ملکوں میں حفظان صحت کے نظام پر شدید دباؤ پڑ رہا ہے۔
موٹاپا ناپنے کا عالمی پیمانہ باڈی ماس انڈیکس کہلاتا ہے جس میں انسان کے قد
اور اس کے وزن کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ انڈیکس پچیس سے زیادہ ہو تو انسان
موٹا شمار کیا جاتا ہے اور اگر انڈیکس تیس سے زیادہ ہو تو اسے ’اوبیس‘ یا بہت موٹا
تصور کیا جاتا ہے۔ |