خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء وفقہاء ومحدثین
قرآن وحدیث کی روشنی میں عورتوں کے سونے یا چاندی کے استعمالی زیور پر وجوب
زکوٰۃ کے قائل ہیں، اگر وہ زیور نصاب کے مساوی یا زائد ہو اور اس پر ایک
سال بھی گزر گیا ہو، جس کے مختلف دلائل پیش کئے جاتے ہیں:
﴿ ۱﴾ قرآن وسنت کے وہ عمومی حکم جن میں سونے یا چاندی پر بغیر کسی (استعمالی
یا غیر استعمالی ) شرط کے زکوٰۃ واجب ہونے کا ذکر ہے اور ان آیات واحادیث
شریفہ میں زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی
ہیں۔ متعدد آیات واحادیث میں یہ عموم ملتا ہے، اختصار کی وجہ سے صرف ایک
آیت اور ایک حدیث پر اکتفاء کرتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جو لوگ
سونا یا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (یعنی
زکوٰۃ نہیں نکالتے) سو آپ ان کو ایک بڑے دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے، جو
اس روز واقع ہوگا کہ ان (سونے وچاندی) کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا،
پھر ان سے لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغا
جائے گا۔ اور یہ جتایا جائے گا کہ یہ وہ ہے جس کو تم اپنے واسطے جمع کرکے
رکھتے تھے۔ سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔ (سورۃ التوبہ ۳۴،۳۵) نبی اکرمﷺ
نے فرمایا: جس مال کی زکوٰۃ اداکردی جائے وہ کنز تم (جمع کئے ہوئے) میں
داخل نہیں ہے۔ (ابوداود، مسند احمد) غرضیکہ جس سونے وچاندی کی زکوٰۃ ادا
نہیں کی جاتی ہے، کل قیامت کے دن وہ سونا وچاندی جہنم کی آگ میں تپایا جائے
گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے گا۔اﷲ تعالیٰ
ہم سب کو تمام مال اور سونے وچاندی کے زیورات پر زکوٰۃ کی ادائیگی کرنے
والا بنائے تاکہ اس دردناک عذاب سے ہماری حفاظت ہوجائے۔ آمین۔
حضور اکرمﷺنے ارشاد فرمایا: کوئی شخص جو سونے یا چاندی کا مالک ہو اور اس
کا حق (یعنی زکوٰۃ) ادا نہ کرے تو کل قیامت کے دن اس سونے وچاندی کے پترے
بنائے جائیں گے اور ان کو جہنم کی آگ میں ایسا تپایا جائے گاگویا کہ وہ خود
آگ کے پترے ہیں۔ پھر اس سے اس شخص کا پہلو، پیشانی اور کمر داغ دی جائے گی
اور قیامت کے پورے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، باربار اسی طرح
تپاتپاکر داغ دئے جاتے رہیں گے ، یہاں تک کہ ان کے لئے جنت یا جہنم کا
فیصلہ ہوجائے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب فیمن لا یؤدی الزکوٰۃ) اس آیت اور
حدیث میں عمومی طور پر سونے یا چاندی پر زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر دردناک
عذاب کی خبر دی گئی ہے خواہ وہ استعمالی زیور ہوں یا تجارتی سونا وچاندی۔
نیز قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی استعمالی زیور کا استثنیٰ نہیں کیا
گیاہے۔
﴿۲﴾ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرمﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو دو سونے کے بھاری کنگن
پہنے ہوئے تھی۔ نبی اکرمﷺ نے اس عورت سے کہا کہ کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا
کرتی ہو؟ اس عورت نے کہا: نہیں۔ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا : کیا تم چاہتی ہو
کہ اﷲ تعالیٰ ان کی وجہ سے کل قیامت کے دن آگ کے کنگن تمہیں پہنائے۔ تو اس
عورت نے وہ دونوں کنگن اتارکر نبی اکرمﷺ کی خدمت میں اﷲ کے راستے میں خرچ
کرنے کے لئے پیش کردئے۔ (ابو داود، کتاب الزکوٰۃ، باب الکنز ما ہو وزکوٰۃ
الحلی) شارح مسلم امام نووی ؒنے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
﴿۳﴾ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے
اور میرے ہاتھ میں چھلا دیکھ کر مجھ سے کہا کہ اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے
کہا: اے اﷲ کے رسول ! یہ میں نے آپ کے لئے زینت حاصل کرنے کی غرض سے بنوایا
ہے۔ تو نبی اکرمﷺ نے کہا: کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ میں نے کہا :
نہیں۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تو پھر یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لئے کافی
ہے۔ (ابوداود ۲۴۴/۱، دار قطنی) محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح
قرار دیا ہے۔ امام خطابی ؒ نے (معالم السنن ۱۷۶/۳) میں ذکر کیا ہے کہ غالب
گمان یہ ہے کہ چھلا تنہا نصاب کو نہیں پہونچتا، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس
چھلے کو دیگر زیورات میں شامل کیا جائے ، نصاب کو پہونچنے پر زکوٰۃ کی
ادائیگی کرنی ہوگی۔ امام سفیان ثوری ؒ نے بھی یہی توجیہ ذکر کی ہے۔
﴿۴﴾ حضرت اسماء بنت زید رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں اور میری خالہ
نبی اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں، ہم نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے۔ تو نبی
اکرمﷺنے کہا : کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ ہم نے کہا : نہیں۔ نبی
اکرمﷺ نے فرمایا :کیا تم ڈرتی نہیں کہ کل قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ان کی وجہ
سے آگ کے کنگن تمہیں پہنائے؟ لہذا ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔ (مسند احمد) محدثین
کی ایک جماعت نے حدیث کو اس صحیح قرار دیا ہے۔ متعدد احادیث صحیحہ میں
زیورات پر زکوٰۃ کے واجب ہونے کا ذکر ہے، یہاں طوالت سے بچنے کے لئے صرف
تین احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
استعمالی زیور میں زکوٰۃ واجب نہ قرار دینے حضرات عموماً دو دلیلیں پیش
کرتی ہے۔ (۱) عقلی دلیل: اﷲ تعالیٰ نے اسی مال میں زکوٰۃ کو واجب قراردیا
ہے جس میں بڑھوتری کی گنجائش ہو، جبکہ سونے اور چاندی کے زیورات میں
بڑھوتری نہیں ہوتی۔ لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے کیونکہ زیورات میں بھی
بڑھوتری ہوتی ہے چنانچہ سونے کی قیمت کے ساتھ زیورات کی قیمت میں بھی اضافہ
ہوتا ہے۔ (۲) چند احادیث وآثار صحابہ : وہ سب کے سب ضعیف ہیں جیساکہ محدثین
نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف کا قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی موقف
ہے کہ استعمالی زیور پر زکوٰۃ واجب ہے۔ ہندوپاک کے جمہور علماء کرام نے بھی
قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی تحریر کیا ہے کہ استعمالی زیورات میں نصاب کو
پہنچنے پر زکوٰۃ واجب ہے۔ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن
بازؒ کی بھی قرآن وسنت کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ استعمالی زیور پر زکوٰۃ
واجب ہے۔
﴿اصولی بات﴾ موضوع بحث مسئلہ میں علماء کی ایک جماعت نے اختلاف ضرور کیا
ہے، لیکن اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں
بھی سونے یا چاندی پر زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی
ہیں کسی ایک جگہ بھی استعمالی یا تجارتی سونے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا
ہے۔ نیز استعمالی زیور کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ کرنے کے لئے کوئی غیر قابل نقد
وجرح حدیث احادیث کے ذخیرہ میں نہیں ملتی ہے، بلکہ بعض احادیث صحیحہ
استعمالی زیور پر زکوٰۃ واجب ہونے کی واضح طور پر رہنمائی کررہی ہیں۔ نیز
استعمالی زیور پر زکوٰۃ کے واجب قرار دینے کے لئے اگر کوئی حدیث نہ بھی ہو
تو قرآن کریم کے عمومی حکم کی روشنی میں ہمیں ہر طرح کے سونے وچاندی پر
زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے خواہ اس کا تعلق استعمال سے ہو یا نہیں،تاکہ کل قیامت
کے دن رسوائی،ذلت اور دردناک عذاب سے بچ سکیں۔ نیز استعمالی زیور پر زکوٰۃ
کے واجب قرار دینے میں غریبوں،مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کا فائدہ ہے تاکہ
دولت چند گھروں میں نہ سمٹے بلکہ ہم اپنے معاشرہ کو اس رقم سے بہتر بنانے
میں مدد حاصل کریں۔
﴿احتیاط﴾ وہ مذکورہ بالا احادیث جن میں نبی اکرم ﷺنے استعمالی زیور پر بھی
وجوب زکوٰۃ کا حکم دیا ہے ، ان کے صحیح ہونے پر محدثین کی ایک جماعت متفق
ہے۔ لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم استعمالی زیور پر بھی زکوٰۃ کی ادائیگی
کریں تاکہ زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے پر قرآن وحدیث میں جو سخت ترین وعیدیں
وارد ہوئی ہیں ان سے ہماری حفاظت ہوسکے۔ نیز ہمارے مال میں پاکیزگی کے ساتھ
اس میں نمو اور بڑھوتری اسی وقت پیدا ہوگی جب ہم مکمل زکوٰۃ کی ادائیگی
کریں گے، کیونکہ زکوٰۃ کی مکمل ادائیگی نہ کرنے پر مال کی پاکیزگی اور
بڑھوتری کا وعدہ نہیں ہے۔ نیز جو بعض اسلاف استعمالی زیور میں زکوٰۃ کے
وجوب کے قائل نہیں تھے ، ان کی زندگیوں کے احوال پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
وہ تو اپنی ضروریات کے مقابلے میں دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اپنی
دنیا وآخرت کی کامیابی سمجھتے تھے اور اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اﷲ تعالیٰ
کے راستے میں خرچ کرتے تھے۔ تاریخی کتابیں ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔
اِس وقت امت مسلمہ کا بڑا طبقہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بھی تیار نہیں ہے
چہ جائیکہ دیگر صدقات وخیرات وتعاون سے اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرے،
لہٰذا استعمالی زیور پر زکوٰۃ نکالنے میں ہی احتیاط ہے تاکہ ہم دنیا میں
غریبوں،یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرکے کل قیامت کے دن نہ صرف عذاب سے بچ
سکیں، بلکہ اجر عظیم کے بھی مستحق بنیں۔
﴿چند وضاحتیں﴾ ٭ اگر زیورات استعمال کے لئے نہیں ہیں بلکہ مستقبل میں کسی
تنگ وقت میں کام آنے (مثلاً بیٹی کی شادی) کے لئے رکھے ہوئے ہیں یا سال سے
زیادہ ہوگیا اور ان کا استعمال بھی نہیں ہوا، تو اس صورت میں سونے کے
زیورات پر زکوٰۃ کے واجب ہونے پر تمام علماء کرام کا اتفاق ہے، یعنی امت
مسلمہ کا دوسرا مکتب فکر بھی متفق ہے۔ ٭ زیورات کی زکوٰۃ میں زکوٰۃ کی
ادائیگی کے وقت پرانے سونے کے بیچنے کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔ یعنی آپ کے
پاس جو سونا موجود ہے اگر اس کو مارکیٹ میں بیچیں تو وہ کتنے میں فروخت
ہوگا اس قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ ٭ Diamond پر زکوٰۃ واجب
نہ ہونے پر امت مسلمہ متفق ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے اس کو قیمتی پتھروں
میں شمار کیا ہے۔ ہاں اگریہ تجارت کی غرض کے لئے ہوں تو پھر نصاب کے برابر
یا زیادہ ہونے کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔ ٭ اگر کسی شخص کے پاس سونے یا
چاندی کے علاوہ نقدی یا بینک بیلینس بھی ہے تو ان پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی
ہوگی، البتہ دو بنیادی شرطیں ہیں : ۱۔ نصاب کے مساوی یا زائد ہو۔ ۲۔ ایک
سال گزر گیا ہو۔ |