انبیا علیہم السلام اور خاص طور سے نبیِ رحمت صلی اﷲ
علیہ وسلم کے بعد اور ان کی تعلیمات کی روشنی میں محدثین، مفسرین اور
علمائے دین نے بڑی تفصیل و تشریح کے ساتھ اس سوال کا جواب فراہم کیا اور اس
کے مختلف نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ بے حد اختصار کے ساتھ اور نہایت سادہ
لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ تقویٰ سے مراد ہے اﷲ کی حاکمیت اور قدرتِ کاملہ
پر مکمل یقین کہ اس کائنات میں درخت کا ایک پتا اور ریت کا ایک ذرّہ بھی اﷲ
کے حکم کے بغیر اِدھر سے اْدھر نہیں ہوسکتا۔ زمین، آسمان، سورج، چاند
ستارے، سیارے اور کہکشائیں سب کچھ اس کے حکم اور رضا کے تابع ہیں۔ وہ اس
کائنات کی چھوٹی بڑی، دیدہ اور نادیدہ ساری مخلوقات کا خالق، مالک اور رازق
ہے۔ اپنی مخلوق کے حق میں وہ جو کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔ اگر وہ نہ چاہے تو
دنیا کے سارے لوگ بھی مل کر کسی کو رائی برابر فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا
سکتے۔ ہمیں ایک دن لوٹ کر اس کے پاس جانا ہے اور اپنی دنیاوی زندگی اور
اعمال کا حساب دینا ہے۔نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، ساری عبادات کا مقصد
انسانوں کو تقویٰ کی تعلیم دینا ہے، تاکہ وہ اس دنیا کی زندگی اپنے خالق کی
رضا جوئی کے لیے بہتر انداز سے استعمال کریں۔ ہر عبادت انسان کے مزاج اور
ذہن پر اثرات مرتب کرتی ہے اور اس کی شخصیت کو ایک سانچے میں ڈھالتی ہے۔
تاہم تقویٰ کے حصول میں روزے کا کردار ایک الگ ہی انداز سے سامنے آتا ہے۔
اسی لیے خالقِ کائنات نے تقویٰ کے حصول کے لیے اس عبادت کا ذکر خصوصیت کے
ساتھ کیا ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ ہر عبادت کے ایک ایک رکن کا اجر اﷲ
تعالیٰ نے متعین کیا ہوا ہے۔مثال کے طور پر جب ایک شخص چار رکعت نماز پڑھتا
ہے تو اس کے منہ سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ اور اسی طرح نماز کے ایک ایک
رکن، یعنی قیام، رکوع، سجدہ اور قعدہ کا اجر طے شدہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے مقرر
کردہ فرشتے اس شخص کے نامہ اعمال میں اس چار رکعت کی عبادت کا متعین اجر
لکھ دیتے ہیں۔ علما بتاتے ہیں کہ روزہ واحد عبادت ہے جس کا اجر متعین نہیں
ہے۔ ہر روزہ دار کے لیے اس اجر کا فیصلہ اﷲ تعالیٰ خود فرماتے ہیں۔ اس کا
انحصار روزہ دار کی کیفیت، خشوع و خضوع اور تقویٰ پر ہوتا ہے۔ روزہ دار
ایمان کی جس حالت میں روزہ رکھتا ہے اور روزے کے جو اثرات اس کے مزاج، ذہن
اور جسم پر ہوتے ہیں، اﷲ علیم و خبیر ان سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اور ان کے
مطابق اپنے بندے کے لیے اجر طے کرتا ہے۔
جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمارا اٹھنا بیٹھنا یا ماتھا زمین پر ٹیکنا، اﷲ کے
کسی مصرف کا نہیں۔ وہ تو اس عمل کے پیچھے ہماری نیت اور جذبہ دیکھتا ہے۔
اسی طرح جب ایک شخص زکوٰۃ، صدقات اور خیرات دیتا ہے تو یہ مال اﷲ کے کام کا
نہیں ہوتا اور نہ اس تک پہنچتا ہے، بلکہ صرف آدمی کا ارادہ اس کے سامنے
ہوتا ہے۔ اسی طرح جب قربانی کی جاتی ہے تو قربانی کے جانور کا خون اور گوشت
اﷲ تک نہیں جاتا، بلکہ قربانی کرنے والے شخص کی نیت اور جذبہ اﷲ کو معلوم
ہوتا ہے۔ اسی طرح روزے کی حالت میں بھی ہماری بھوک، پیاس اور جسمانی
اضمحلال کچھ بھی اﷲ کے کام کا نہیں۔ اسے تو صرف اور صرف ہماری نیت سے
سروکار ہوتا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم اس کی رضا اور خوشنودی کے لیے
اطمینان اور شوق سے مشقت جھیل رہے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہم اس سے ڈرتے ہیں
اور اس کے حکم کی بجاآوری میں کھانا پینا چھوڑ کر تقویٰ اختیار کرنا چاہتے
ہیں۔ بس یہی بات اسے پسند آتی ہے۔ جس دل میں وہ اس جذبے کو جتنا زیادہ
دیکھتا ہے، اتنا ہی زیادہ اجر وہ اس کے حصے میں لکھتا ہے۔اگلے زمانوں میں
جو امتیں گزری ہیں، ان کے افراد کی عمریں بہت طویل ہوتی تھیں۔ لوگ سیکڑوں
برس جیتے تھے۔ اتنی مدت جینے والے نیک لوگ کسی قدر اپنے رب کی عبادت کرتے
اور اس کو راضی کرنے کا کیسا اہتمام کرتے ہوں گے۔ ایک موقعے پر جب آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے درمیان تشریف فرما تھے، کسی
صحابی نے یہی سوال کیا اور کہا، اے اﷲ کے رسول، پہلی امتوں کے لوگ ہم سے
زیادہ جیتے رہے تو ان کی عبادات ہمارے مقابلے میں کتنی زیادہ ہوں گی۔حشر کے
دن اﷲ ان سے کتنا راضی ہوگا اور جنت میں وہ ہم سے زیادہ بلند مرتبہ ہوں گے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، اﷲ نے میری امت کے لوگوں کو ایک ایسا
مہینہ عطا فرمایا ہے کہ اس میں نفل عبادت کا اجر فرض عبادت کے مساوی ہوجائے
گا اور اس کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ایسی قدر کی رات رکھی گئی ہے کہ
اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل ہوگی۔ بلاشبہ یہ رمضان المبارک کی
فضیلت ہے کہ جس نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی کو بڑی عمر والے لوگوں کی
عبادت سے بھی بڑھا دیا ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ رمضان المبارک ہر لحاظ سے برکتوں اور نعمتوں کا مہینہ
ہے۔ اﷲ رب العزت کی رحمت اپنے بندوں کو اپنی طرف بلاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے
اعمال کے صلے میں بھی ان پر اجر اور رحمت کی بارش برستی ہے۔ اس مہینے میں
نعمتیں بڑی فراوانی سے اتاری جاتی ہیں۔ ہم سب اپنے ذاتی تجربات کی روشنی
میں بھی اس حقیقت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں ہم جو کچھ کھاتے
ہیں اور جس سہولت سے وہ سب ہمیں میسر آتا ہے، غور کیجیے، کیا سال بھر کے
دوسرے ایام سے مختلف اور فراوانی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو سہولتیں
حاصل ہوتی ہیں اور دل کو جیسا سکون ملتا ہے، وہ بھلا اور دنوں میں کب ہوتا
ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہوا میں، فضا میں، موسم میں، ماحول میں، دائیں
بائیں اور آگے پیچھے ہر طرف سے رحمت، نعمت اور راحت کا سامان نازل ہورہا
ہے۔ یہ رمضان المبارک کا خاص اثر اور جداگانہ رنگ ہے۔ان سب باتوں اور
معاملات کے ساتھ ہمیں رمضان کے ایام میں ایک اہم نکتے پر بھی غور کرنا
چاہیے، وہ یہ کہ کیا واقعی ہم لوگ ان بابرکت لمحات میں وہی کچھ کررہے ہیں
جو ہمیں کرنا چاہیے اور اس کی تعلیم میں ہمیں نبیِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
نے دی اور جس کی تاکید ہمیں علمائے کرام کرتے ہیں؟ ہم اس سوال پر غور کریں
تو گہری ندامت کا احساس ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے
پورے وجود پر طاری ہوجاتا ہے۔ ہمارا سر خود بہ خود شرم سے جھک جاتا ہے، جب
ہم دیکھتے ہیں کہ بے شک اﷲ کی نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں، لیکن ہم خود کو ان
نعمتوں کا اہل ثابت نہیں کررہے۔ ہم تو تقویٰ کا بنیادی تقاضا، یعنی تزکیہ
نفس ہی نہیں کررہے۔ اس کے برعکس ہم اپنی نفس پروری میں اسی طرح مصروف ہیں
جیسے سارا سال رہتے ہیں۔ دنیا اور اس کی مادّی آسائشیں اسی طرح مسلسل ہماری
توجہ کا مرکز ہیں۔ دنیا داری کے معاملات میں ہم اب بھی اس درجہ منہمک ہیں
کہ ان کاموں سے غافل ہیں جو ہمیں خصوصیت کے ساتھ ان لمحات میں کرنے چاہییں۔
رمضان میں ہمیں بھوک اور پیاس کے ذریعے ان لوگوں کے بارے میں سوچنے کا موقع
فراہم کرتا ہے جو اس دنیا میں تنگ دستی کا شکار ہیں، جن کے پاس وسائل کی
کمی ہے، جو اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ رمضان
میں تزکیہ نفس کرنے والے ایام ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ اس دنیا میں اﷲ نے
جو کچھ ہمیں عطا کیا ہے، اس میں دوسرے لوگوں کا بھی کچھ حصہ ہے۔ ان لوگوں
کا جو مالی حالت میں کم زور ہیں۔ ہمیں ان کی طرف محبت اور نرمی سے دیکھنا
اور ان سے عزت سے پیش آنا چاہیے۔ ان کے لیے جو ہم کرسکتے ہوں، وہ خاموشی
اور وضع داری کے ساتھ کرنا چاہیے۔ نیکی کے کاموں میں ہمیں لیت و لعل سے کام
نہیں لینا چاہیے، بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم دوسروں کا حصہ جلد از جلد ان
تک پہنچا دیں۔اس ماہِ مبارک میں جو کچھ ہونا چاہیے اور ایک مسلمان کو جس
طرح رہنا چاہیے، ہمارے یہاں کتنی ہی باتیں اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہیں۔
ہم روزے میں تحمل اور برداشت سے کام لینے کے بجائے الجھن، جھنجھلاہٹ اور
بدلحاظی کا مظاہرہ زیادہ کرتے ہیں اور اپنے ہر الٹے کام کے لیے روزے کو
ڈھال بنالیتے ہیں۔ ہم باہر سڑک پر نکلتے ہیں تو غلط سلط انداز سے اپنا
راستہ بناکر آگے بڑھنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جواز یہ کہ روزہ لگ رہا ہے۔ اسی
طرح لوگوں سے معاملات میں بھی جہاں سے کچھ لینا ہے وہاں سے ہم عجلت کی
خواہش رکھتے ہیں، اور جہاں دینا ہے وہاں اس کے برعکس ہر ممکن طریقے سے
تاخیر کرتے ہیں اور جواز وہی کہ رمضان میں لین دین متاثر ہے، ہم کیا کرسکتے
ہیں۔ دوسری کتنی ہی چیزوں میں ہمارا عمل اسی طرح خود پسندی اور نفس پروری
کا مظہر ہوتا ہے۔ ہم دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرکے اپنے لیے آسانیاں حاصل
کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے غور کرنا چاہیے،
کیا یہ سب باتیں رمضان کی روح کے منافی نہیں ہیں۔ رمضان جن اصولوں، قاعدوں
اور ضابطوں کو لے کر آتا ہے، اپنے عمل سے کیا ہم ان کی نفی نہیں کرتے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کی روزمرہ زندگی میں ان سب باتوں کا اہتمام ہونا
چاہیے تاکہ وہ خیر کا حامل نظر آئے اور اسے ہر قدم پر اﷲ کی رضا اور رحمت
نصیب ہو، لیکن عام دنوں کو تو چھوڑیے، اب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم رمضان کی
خصوصی گھڑیوں میں بھی ان احکامات کی پیروی نہیں کرتے۔ ہماری ذاتی پسند
ناپسند اور ترجیحات کا رویہ اس حد تک پختہ ہوگیا ہے کہ ہم نے اسلام کی
تعلیمات کو پسِ پش ڈال دیا ہے۔ روزے کی حالت میں تو ایک مسلمان کو سراپا
خیر نظر آنا چاہیے، لیکن کیا واقعی ہمیں اس بات کا احساس ہے اور اگر ہے تو
کیا ہم اپنے عمل سے اس کی کوشش بھی کرتے ہیں؟ افسوس ایسا نہیں ہے، لیکن
ساتھ ہی اپنے نفس کی ترغیب پر ناجائز اور حرام چیزوں سے گریز نہیں کرتے۔ ان
کی طرف لپکتے ہیں۔ ان کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ سوچیے، بھلا یہ
کیسا روزہ ہے، جو ہمارے جسم تک محدود ہے، روح پر اثر انداز نہیں
ہورہا۔مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہم نے رمضان کے اصل منشور کو فراموش کردیا
ہے۔ اس کی روح سے ہم غافل ہوگئے ہیں۔ ہماری توجہ رسومات پر مرکوز ہوکر رہ
گئی ہے۔ ہم خالی پیٹ رہنے اور پیاس برداشت کرنے کو روزہ داری سمجھ رہے ہیں۔
حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو ہمارے یہاں رمضان میں اچھے
کام کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ لوگ سڑکوں پر روزہ داروں کا روزہ
افطار کراتے نظر آتے ہیں۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو لاکھوں روپے کی زکوٰۃ پوری
ذمے داری سے ادا کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو کروڑوں روپے زکوٰۃ کے حساب میں
ادا کرتے ہیں۔ بھلائی کے اور بھی بہت سے کام کیے جاتے ہیں، لیکن اس کے
باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ تنزل کا شکار ہے۔ اس میں گراوٹ
بڑھتی جارہی ہے۔ امن و امان اور اخلاقی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ نفسانفسی
کا علم روزافزوں ہے۔ اس کا سبب اور کچھ نہیں سوائے یہ کہ ہم نے دین کی روح
کو ترک کردیا ہے۔ ہم اس کے احکامات کو ان کی اصل کیفیت اور حقیقی اہداف کو
سمجھے بغیر رسمی انداز میں پورا کررہے ہیں۔
دوسری عبادات کی طرح روزہ بھی دراصل تزکیہ نفس اور اصلاحِ احوال کا ذریعہ
ہے۔ یہ ہماری روح اور جسم دونوں کو آلائشوں سے پاک کرتا ہے۔ یہ بندے کو
اپنے رب کے قریب ہونے اور اسے واقعی رگِ جاں سے نزدیک تر محسوس کرنے کا
موقع فراہم کرتا ہے۔ دنیا کی حقیقت کو ہماری آنکھوں کے سامنے کھول کر رکھ
دیتا ہے۔ ہمارے قلب کو جاری کرتا ہے اور سکین القلب کا ذریعہ ہے— لیکن یہ
سب باتیں صرف اور صرف اسی وقت ممکن ہیں جب ہم اصل میں اور حقیقی روزہ
رکھیں۔ وہ روزہ جو انسان کی روح و جسم کا گرد و غبار جھاڑ کر دونوں کو تازہ
دم کرتا ہے۔ جو انسان کو اپنے احوال کی اصلاح پر مائل کرتا ہے۔ جب ایسا
ہوتا ہے تب پورے معاشرے میں اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔اﷲ کریم! اس رمضان
میں ہم سب کو حقیقی معنوں میں روزہ دار بنادے
|