تحریر: مولانا عثمان الدین
وفاقی وزیر مذہبی امور جناب نور الحق قادری صاحب نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو
میں انکشاف کیا ہے کہ’’ کابینہ کے اجلاس میں قادیانیوں کوقومی اقلیتی کمیشن
میں شامل کرنے کے بارے میں بحث ہوئی تھی اور 5 سے 6 کابینہ ارکان اس شمولیت
کے حامی تھیــ ‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ محض ایک بحث تھی فیصلہ نہیں
تھا تاہم اس کو فیصلہ کس نے بنایا اس کی تحقیقات کی جائیں گی‘‘۔ وزیر موصوف
کی اس گفتگو کے بعد قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے اور پھر
اس فیصلہ کو واپس لینے کے معاملہ نے کئی سوالات اور خدشات کو جنم دے دیا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل میڈیا پر یہ خبر آئی تھی کہ وفاقی کابینہ نے
قادیانیوں کو جو کہ خود کو آئین پاکستان کے مطابق غیر مسلم اقلیت تسلیم ہی
نہیں کرتے ہیں، قومی اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے ،اس
خبر پر جب قوم کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تواول تو حکومت کی حمایت
میں حسب عادت اس فیصلہ کابھرپور دفاع کرنا شروع کردیاگیا،ایسا تاثر دیا
جانے لگا کہ یہ فیصلہ نہ صرف درست بلکہ قادیا نیوں کے خلاف ایک بہت بڑی فتح
ہے، تاہم رد عمل چونکہ بہت زیادہ تھا اس لیے اس سے معاملہ قابو میں نہیں
آیا چنانچہ وزیر موصوف نے ایک ویڈیو بیان جاری کردیا جس میں انہوں نے
باقاعدہ اس کی تردید کردی،وزیر موصوف کی جانب سے تردید کے بعدکابینہ کی
قادیانیوں کو اس کمیشن میں شامل کرنے کی منظور کی گئی باقاعدہ دستاویز
سامنے آگئی ، معاملہ کھل کر سامنے آنے کے بعدحکومت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل وزارت مذہبی امور میں ہی حج فارم سے ختم نبوت کا حلف
نامہ بھی بڑی خاموشی سے ختم کردیا گیا تھا پھر جب یہ معاملہ سامنے
آیاتووزیر موصوف نے کہا کہ میری ہی وزارت کے افسران نے میرے علم میں لائے
بغیر یہ کا م کیا ہے جس پر میں نے ان سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے ،بعد
ازاں حج فارم میں ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کردیا گیا ۔
قوم کے ذہنوں میں مذکورہ دونوں واقعات کے بعدیہ خدشات اب پختہ ہونا شروع
ہوگئے ہیں کہ موجودہ حکومت میں قادیانیت کی مضبوط لابی نہ صرف یہ کہ موجود
ہے بلکہ وہ انتہائی اہم عہدوں پر قابض ہے ، وہ عہدے اس قدر اہم ہیں کہ ان
کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کسی بھی وقت اپنی مرضی سے کچھ بھی کرسکتے ہیں ،وہ
قومی سطح کے فیصلوں میں بھی اپنی مرضی کی تبدیلی کرسکتے ہیں ،اور حکومت کے
متعلقہ ذمہ داران اگر اس میں شامل نہیں بھی ہوتے ہیں تو اس سے غافل اور بے
خبر ضرور ہوتے ہیں ،ان کی آنکھیں تب کھلتی ہیں جب عوام ان کو خواب غفلت سے
بیدار کرتے ہیں،تب وہ اپنی صفائی کے لیے وضاحتیں دینے سامنے آتے ہیں۔
وزیر مذہبی امور کی ذات اور نیت پر اس حوالہ سے کوئی شک و شبہ نہیں ہے تاہم
ان کی وزارت میں جو لوگ ان دونوں معاملات کے ذمہ دار ہیں اور وہ اس قدر
مضبوط اوربا اثر ہیں کہ وزیر صاحب کو یکسر نظر انداز کرکے ایسے حساس
معاملات میں دخل اندازی بلکہ فیصلہ سازی کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں ،وہ
اس قوم کے مجرم ہیں، ان ذمہ داروں کا تعین ہوناچاہیے اور ان کو اس جرم کی
سزا ملنی چاہیے ،حج فارم میں جن افسران نے تبدیلی کی تھی ،ان کا بھی اب تک
تعین ہوسکا ہے نہ ان کے خلاف کوئی کاروائی سامنے آئی ہے ،یہ ذمے داری
بنیادی طور پر وزیر موصوف کی ہے ،ان کی جانب سے اس قدر حساس معاملہ میں صرف
لاعلمی ، ناراضگی کا اظہار اور رد عمل کی وجہ سے فیصلہ واپس لے لینا ہرگز
کافی نہیں ہے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں تو پھران کے لیے ایسی وزارت
سے مستعفی ہوجانا ہی بہتر ہے۔
ایک اہم اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان دونوں واقعات میں قوم کی جانب سے
شدید رد عمل کے بعد فیصلہ واپس لیا گیا ہے ، اگر یہ معاملات عوام کے سامنے
نہ آتے یا ان پر اس قدر شدید رد عمل نہ آتا تو جو فیصلہ ہوچکا تھا ،ظاہر ہے
اسی نے برقرار بھی رہنا تھا ،اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم کو اب موجودہ حکومت
کے مذہبی حوالہ سے خوشنما دعووں سے دھوکہ میں رہنے اور حکومت پر مکمل
اعتماد و بھروسہ کرنے کے بجائے اس حوالہ سے بیدار اور حساس رہنا ہوگا ۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب اور ان کی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان دونوں
واقعات کے بعد وزیر موصوف کے انکشافات کے تناظر میں حکومت اور کابینہ میں
موجود اس قدر مضبوط قادیانی لابی کا تعین کرکے ان کے خلاف کاروائی کی جائے،
وزیر اعظم احتساب پر بہت زور دیتے ہیں اور یہی ان کا بنیادی بیانیہ ہے ،اگر
قوم کے چند پیسوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا احتساب کرنا ضروری ہے تو اسی قوم
کے ایمان کی اساس عقیدہ ختم نبوت پر چوری چھپکے بار بار ڈاکہ ڈالنے والوں
کا احتساب اس سے کئی گنا زیادہ ضروری ہے اور یہ بھی وزیر اعظم صاحب ہی کی
ذمہ داری ہے،قوم کے خدشات کا تدارک اور خاتمہ بھی اسی طرح ممکن ہے ۔
|