آدھا تیتر آدھا بٹیر لاک ڈاؤن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ میں لاک ڈاؤن کی کہانی عوام کو سمجھ آنا تو دورخود حکومت سندھ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا کِیا اور کیا کرنے جا رہے ہیں حکومتِ سندھ نے لاک ڈاؤن کا علان تب کیا جب وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کے خلاف تھی اور ملک کو معیشت کے نقصان کے پیشِ نظر لاک ڈاؤن کی طرف نہیں لے کر جانا چاہتی تھی تب سندھ حکومت نے صرف ایک بات پہ زور دیا کہ ہمیں عوام کو اس وبائی مرض سے بچانا ہے جان ہے تو جہان ہے ، عوام اس وقت کورونا کے خوف میں مبتلا تھی اور اس نے سندھ حکومت کے فیصلے کو بہت سراہا یہاں تک کہ حکومت پنجاب کو بھی سندھ کی طرح لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑا ، لیکن بہت جلد حکومت سندھ کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ صرف لاک ڈاؤن سے حالات قابو میں نہیں کیے جا سکتے کاروبار بند ہے عوام بھوک سے مر رہی ہےاور دیہاڑی دار طبقے کو گھروں پہ راشن پہنچانا ہی واحد حل ہے ورنہ عوام گھروں سے باہر نکل آئے گی اور سندھ حکومت وفاق کے آگے شرمندہ ہوجائےگی اور یہ بات ماننے پر مجبور ہوجائیگی کہ لاک ڈاؤن سے صرف نقصان ہے تو لہذا حکومت نے راشن تقسیم کرنا شروع کیا لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھیے راشن تو ایکسپائر نکلا کہیں عوام کو ٢٠٠٥ کے چاول تو کہیں باسی دالیں تو کہیں ناقص مرچیں دی گئی اور کہیں تو راشن پہنچا ہی نہیں بلا آخر عوام نے لاک ڈاؤن کی مخالفت شروع کر دی ، حالات حد سے تجاوز کرنے لگے تو سندھ حکومت نے وفاق سے مدد طلب کرلی کہ راشن کی تقسیم میں ہمارا ساتھ دیں اور کچھ دیر بعد یہ اعلان واپس لے لیا گیا ، عوام کو حکومت کا یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر لاک ڈاؤن دیکھنے کو ملتا رہا شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پہ سندھ حکومت کے وزیروں مشیروں کی جانب سے لاک ڈاؤن کی سخت خلاف ورزی دیکھنے کو ملی تمام ایس او پیز کو پسِ پشت ڈال کر برسی کی تقریب منعقد کی گئی ، عوام حکومت کے لارے لپوں سے تنگ آکر کاروبا کھولنے کا مطالبہ کرنے لگی تو کچھ فیکٹریوں اور صنعتوں کو کام کی اجازت ملی لیکن اصل بات یہ ہے کی اس سب کے با وجود سندھ حکومت وبا کو قابو کرنے میں شدید ناکام رہی ہے اس لاک ڈاؤن کے با وجود سندھ میں کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا ، حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواں اقدامات نہیں کیے گئے اسپتالوں میں ٹیسٹنگ کے ناقص اقدامات نے عوام کو مشکلات سے دوچار کر کے رکھ دیا ہے ، ٹیسٹنگ کا عمل تو ویسے بھی اس حساب کا نہیں ہے جیسا ہونا چاہیے لیکن اس میں بھی صداقت نہیں کہ کس کا ٹیسٹ صحیح ہوا اور کس کا نہیں ، معیار کے حساب سے صحت کے سارے انتظامات سندھ حکومت کی جانب سے اس قابل تو ہرگز نہ ہیں کہ ان کو سراہا جائے ، گھروں میں قرنطینہ کیے ہوئے لوگوں کو الگ عذاب کا سامنا ہے کووڈ پازیٹو مریضوں کو گھر میں ١٥ دن کے لیے قرنطینہ کر کہ دوبا رہ کوئی خیر خبر نہیں لی گئی ١٥ دن بعد دوبارہ ٹیسٹ تک نہیں کیا گیا تاکہ ان کو بتایا جائے کہ کیا وہ بیماری کو شکست دے سکیں ہیں یا نہیں ۔۔ وللہ عالم ۔۔۔

خیر ان سب صورتحال کے پیشِ نظر سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کر کہ کاروبا کھولنے کا با ضابظہ اعلان کیا تو بازاروں میں عوام کا سمندر امنڈ آیا سمجھ نہیں آیا کہ یہ عوام بھوک سے مر رہی تھی یا کپڑے جوتے خریدنے کے لیے اور لاک ڈاؤن کھلے ہوئے آج دو دن ہی ہوئے تھے کہ آج کراچی میں زینب مارکیٹ ، گل پلازہ ، وکٹوریہ مارکیٹ سیل کر دی گئی اور آگے نا جا نے کیا کیا ہوگا ، سوال تو حکومت سے ہے کہ لاک ڈاؤن لگایا تب تھا جب سندھ میں کچھ کیسز تھے وائرس کا پھیلاؤ اتنا مضبوط نہیں تھا لیکن ہٹایا تب جب کیسز ہزاروں کی تعداد میں ہیں اموات کا سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے ، کیا حکومت نے کورونا سے کوئی کامیاب مذاکرات کر لیے ہیں کہ اب کورونا صبح چھ سے شام چار بجے تک حملہ آور نہیں ہوسکے گا یا عوام کو کورونا پروف کردیا گیا ہے ، یہ لاک ڈاؤن ہے یا کوئی گیم جس میں وقفہ برائے پانی کیا گیا ہے ، ان سب صورتحال سے صاف واضح ہے کہ حکومت کوئی بھی صحیح فیصلہ کرنے میں ناکام ہے ۔۔
اب بات ان تاجروں کی جنہوں نے حکومت سے بغاوت کا اعلان کر کے کاروبار کھولنے کی دھمکی دی تھی اور ٹی وی چینلز پہ بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کی تھی اب اگر کورونا کیسز بڑھے تو کیا تاجر تنظیم اس بات کی زمیداری قبول کرے گی کہ یہ سب کاروبار کھولنے کی وجہ سے ہوا ہے صرف بازار ہی نہیں بلکہ ایک اور اہم مقام ایسا ہے جہاں کورونا بچاؤ اقدامات فراموش کیے گئے اور وہ ہے قومی اسمبلی کا اجلاس ، جہان نا ہی فاصلے برقرار تھے نا ہی ماسک کی جانب کوئی اہم توجّہ تھی بلکہ ٥٠ سال سے زائد عمر لوگ جنہیں کورونا سے سب سے ذیادہ خطرہ ہے اجلاس میں موجود تھے ، چلو مان لیا کہ اجلاس بلانا ضروری تھا تو کونسا نیک کام وہاں انجام دے دیاگیا وہی لفظی وار کی پرانی روایات برقرار رکھی گئی کورونا کے لیے کسی حکمتِ عملی کوزیرِ بحث نہیں لایا گیا ۔۔

لاک ڈاؤن کا خاتمہ حالات کو کس جانب لے جائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا فی الحال ہمیں خود کو محفوظ رکھنا چاہیئے کیوںکہ جو محدود ہے وہی محفوظ ہے ۔۔۔۔۔۔
 

Munazza Hussain
About the Author: Munazza Hussain Read More Articles by Munazza Hussain: 10 Articles with 7085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.