تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر۔ مسرہ (طائف)
اکثر ممالک میں لاک ڈاؤن کی صورت حال کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے عبادات کی
انجام دہی میں بھی کافی رکاوٹ پیش آرہی ہیں خصوصا عیدالفطر جو سال بعد آتی
ہے اجتماعیت کی شکل میں اس کی ادائیگی امسال ایک مشکل ترین معاملہ نظرآرہا
ہے چنانچہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے کرام مختلف طرح سے بتارہے ہیں کہ
ہم اس صورت حال میں عیدالفطر کی نماز کیسے ادا کریں ؟
صحیح بخاری میں مذکورحضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کے اثر سے متعلق لوگوں
میں کافی باتیں ہورہی ہیں ، ان باتوں میں ، میں نے محسوس کیا کہ اکثر لوگ
اس اثر کا مفہوم ہی نہیں سمجھ رہے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ جب اثر کا
صحیح مفہوم لوگوں پر واضح نہیں ہوگا تو اس سے استدلال کرنے میں خطا واقع
ہوگی اس لئے میں اپنی کم علمی کا احساس کرتے ہوئے جو سمجھا ہوں وہ لوگوں تک
پہنچانے کی کوشش کررہا ہوں ۔
امام بخاری رحمہ اﷲ اپنی صحیح میں انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے نماز عید سے
متعلق ایک اثر لائے ہیں کہ وہ اپنے غلام عبداﷲ بن ابی عتبہ کو حکم دیتے کہ
وہ اپنے گھر والے اور بچوں سمیت نماز عید ادا کرلے ۔ اثر اس طرح ہے ۔
وامر انس بن مالک مولاہم ابن ابی عتبۃ بالزاویۃ فجمع اہلہ وبنیہ وصلی کصلاۃ
اہل المصر وتکبیرہم ۔ترجمہ: انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ
زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے،انہیں آپ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر
والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر
کہیں۔
اس اثر پہ امام بخاری رحمہ اﷲ نے باب باندھا ہے: "بَابُ إِذَا فَاتَہُ
الْعِیدُ یُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ" اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر کسی کو جماعت سے
عید کی نماز نہ ملے تو پھر دو رکعت پڑھ لے۔
میں نے متعدد علماء کے بیانات اور تحریریں پڑھی وہ اس اثر کا حوالہ دے کر
علی الاطلاق کہہ رہے ہیں کہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں عید کی نماز ادا کریں
جبکہ ہمارے سامنے رسول اﷲ ﷺکا عملی نمونہ موجود ہے اس کا کوئی چرچا نہیں
ہوتا ، حالات کے تئیں ان کی بھی بات کچھ حد تک صحیح ہے مگر کہنے کا انداز
واستدلال صحیح نہیں ہے۔خیراس سے متعلق کچھ باتیں بعد میں ہوں گی یہاں پہلے
یہ جانتے ہیں کہ کیا حضرت انس اور ان کے گھروالوں کی نماز عید فوت ہوگئی
تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے غلام کو گھروالوں کے ساتھ نمازعید پڑھنے کا حکم
دیتے؟پھرسوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ نماز عید کہاں ہوتی تھی جس میں انس رضی
اﷲ عنہ شامل ہونے گئے مگر نماز فوت ہوگئی؟دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا
زاویہ نامی گاؤں میں کسی دوسری جگہ یادوسریگھر میں بھی الگ سے نمازعید ہوتی
تھی یا معاملہ کچھ اور ہے ؟
جب ہم امام بخاریؒ کے اس اثر پر غور کرتے ہیں اور خصوصا جن کتابوں میں یہ
اثر وارد ہے ان کے الفاظ اور ان کے ابواب کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے
کہ معاملہ وہ نہیں ہے جو لوگ سمجھ رہے ہیں ۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ بصرہ شہر سے دور زاویہ نامی گاؤں
میں رہتے تھے ، وہاں ان کا اپنا گھر اور زمین تھی چنانچہ اکثر یہاں آیاکرتے
تھے ۔ بصرہ شہر سے اس قدر دور تھے کہ شہروالوں کے ساتھ عید کی نماز ادا
کرنا مشکل تھا اس لئے آپ اپنے گھروالوں کے ساتھ زاویہ نامی گاؤں میں ہی
شہروالوں کی طرح نماز عید ادا فرمالیتے تھے ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے
کہ جس طرح نمازعید شہروالوں پر واجب ہے اسی طرح گاؤں والوں پر بھی واجب ہے
لہذا مسلمان شہر میں ہوں یا گاؤں میں وہ ایک جگہ جمع ہوکر نمازعید ادا کریں
گے ۔ اثر انس میں موجود مخصوص لفظ زاویہ (ایک گاؤں) اور شہروالوں کی طرح
نمازعیداور ان کی طرح نماز میں تکبیرکا ذکر اسی بات کی طرف اشارہ کررہا
ہییہی امام بخاری کا استدلال بھی ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اﷲ نے فتح الباری
میں حسن ، نخعی، مالک ، شافعی اور احمد کی طرف نسبت کرتے ہوئے یہ ذکر کیا
ہے :"وانس لم یفتہ فی المصربل کان ساکنا خارجا من المصر بعیدا منہ فھو فی
حکم اھل القریہ " کہ انس سے شہر والوں کی جماعت فوت نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ
شہر سے خارج دور ایک جگہ رہتے تھے اس لئے وہ قریہ(گاؤں) والوں کے حکم میں
ہوئے ۔
یہ اثر بیہقی میں بھی ہے ،وہاں دو آثار ہیں ۔
پہلا اثر: عبیداﷲ بن ابوبکر بن انس بن مالک خادم رسول اﷲ سے مروی ہیکہ
انہوں نے کہا: کان انس اذا فاتتہ صلاۃ العید مع الامام جمع اہلہ فصلی بھم
مثل صلاۃ الامام فی العید(انس سے جب عید کی نماز امام کے ساتھ فوت ہوجاتی
تو اپنے اہل کو جمع کرتے اور ان کو عید کے امام کی طرح نماز پڑھاتے)
دوسرا اثر : ویذکرعن انس بن مالک انہ کان اذا کان بمنزلہ بالزاویۃ فلم یشہد
العید بالبصرۃ جمع موالیہ وولدہ ثم یامر مولاہ عبداﷲ بن ابی عتبۃ فیصلی بھم
کصلاۃ اھل المصر رکعتین ویکبربھم کتکبیرھم (ذکر کیا جاتا ہے کہ جب انس بن
مالک زاویہ نامی گاؤں میں ہوتے اور بصرہ کی عید میں حاضر نہ ہوسکتیتو اپنے
غلاموں اور اولاد کو جمع کرتے پھر اپنے غلام عبداﷲ بن ابو عتبہ کو حکم دیتے
پس وہ انہیں شہروالوں کی طرح دو رکعت نماز پڑھاتا اور ان کی طرح تکبیریں
کہتا)۔
اس پرباب باندھا گیا ہے " باب صلاۃ العید ین سنۃ اہل الاسلام حیث کانوا" کہ
مسلمان جہاں کہیں بھی رہیں ان کے لئے عیدین کی نماز سنت ہے۔گویا امام بیہقی
کا کہنا ہے کہ مسلمان خواہ شہر میں ہوں یا دیہات میں یا کہیں اور وہ عید کی
نماز ادا کریں گیجیساکہ زاویہ نامی گاؤں میں انس رضی اﷲ عنہ نے اپنے اہل
اورغلاموں کے ساتھ شہروالوں کی طرح اداکیا گویا دیہات وگاؤں والوں پر بھی
نمازعید فرض ہے۔
اسی طرح مصنف عبدالرزاق میں انس بن مالک کے اثرپر باب باندھا گیا ہے " باب
ھل یصلیھا اھل البادیۃ"کہ کیا گاؤں والیعید کی نماز پڑھیں گے ؟
اس باب سے بھی معلوم ہوتا ہے جوکہ اصلا صاحب مصنف کا استدلال ہے کہ انس رضی
اﷲ عنہ ایک گاؤں میں رہتے تھے اور وہ اس گاؤں میں شہروالوں کی طرح عید کی
نماز ادا کرتے تھے لہذا گاؤں والے بھی ایک جگہ جمع ہوکر اجتماعی شکل میں
نمازعید ادا کریں گے ۔
ابن ابی شیبہ میں یہ اثر ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے : أنَّ أنسًا کان رُبَّما
جمعَ أہلَہُ وحشمَہُ یومَ العیدِ فصلَّی بہم عبدُ اﷲِ بنُ أبی عُتبۃَ
رکعتینِ۔
ترجمہ: انس رضی اﷲ عنہ کبھی کبھار اپنے اہل وعیال اور نوکروں کو جمع کرتے
اور ان کو ان کا غلام عبداﷲ بن ابی عتبہ دو رکعت نماز پڑھاتا۔
یہ حدیث تو اس باب میں بالکل ہی واضح ثبوت ہے کہ صحیح بخاری میں موجود
اثرانس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت انس شہر سے دور ایک گاؤں میں رہتے تھے اور
گاؤں والوں کا حکم نمازعیدمیں شہروالوں کی طرح ہی ہے لہذا وہ بھی اپنے
گھروالوں اور غلام ونوکر کے ساتھ وہیں پر عید کی نماز ادا کرتے تھے یہی وجہ
ہے کہ امام بخاری نے اس اثر کے بعدیعنی زاویہ گاؤں کے بعدپھر اہل
السواد(گاؤں والے) کا ذکرکیا ہے ۔
چنانچہ آپ ذکر کرتے ہیں : وقال عکرمۃ: اہل السواد یجتمعون فی العید یصلون
رکعتین کما یصنع الإمام (عکرمہ نے کہا کہ سواد نامی گاؤں والے عیدکے لئے
جمع ہوں گے اور امام کی طرح دورکعت نماز کریں گے )
عکرمہ کے اس قول کا امام بخاری کے " بَابُ إِذَا فَاتَہُ الْعِیدُ یُصَلِّی
رَکْعَتَیْنِ" سے کیا ربط ہے ؟ کیا اہل سواد انس کے گھروالوں کی طرح صرف
ایک گھروالے ہیں یا یہ مکمل ایک گاؤں والے ہیں اور کیا ان کی بھی نماز
عیدجماعت سے فوت ہوگئی تھی ؟ نہیں ۔ زاویہ والوں کی طرح یہ بھی گاؤں والے
ہیں لہذا ان لوگوں کو بھی شہروالوں کی طرح جمع ہوکر نمازعید پڑھنے کا حکم
دیا گیا ۔
احکام ومسائل پر مبنی بہت ساری کتابوں میں اثر انس کاذکر بھی گاؤں میں نماز
عید سے متعلق ہے مثلا علامہ ظہیرحسن نیموی کی کتاب آثار السنن مع التعلیق
الحسن میں (باب صلاۃ العیدین فی القری) گاؤں میں عیدین کی نماز کا باب کے
تحت ہے ۔ ابن علان الصدیقی کی کتاب الطالع السعید فی فصائل العیدمیں (واھل
القریۃ یصلون العید کما یصلی اھل المصر) گاؤں والے بھی شہروالوں کی طرح
نماز عید ادا کریں گے کے تحت ہے ۔
اتنی ساری بحث سے پتہ چلتا ہے کہ جو اثرانس سے براہ راست یہ استدلال کررہے
ہیں کہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نمازعیدادا کریں وہ لوگ اس اثر کا مطلب ہی
نہیں سمجھ رہے ہیں ، اصل مطلب تو یہ ہے کہ زاویہ نامی گاؤں میں اتنے ہی لوگ
تھے اس لئے وہ سب جمع ہوکر نمازعید ادا کرتے تھے جس طرح عکرمہ نے گاؤں
والوں کو اجتماعی شکل میں ایک جگہ جمع ہوکر نماز عید ادا کرنے کا حکم دیا۔
معلوم ہوا نمازعیدگھر گھر پڑھی جانے والی نماز نہیں ہے بلکہ اجتماعی صورت
میں اداکیا جانے والاواجبی فریضہ ہیجو شہرودیہات تمام جگہوں کے مسلمانوں کو
شامل ہے اور جس سے اسلامی شعائر کا اظہار ہوتا ہے ۔
آخر میں خلاصہ کے طورپر اثر انس سے دونتیجہ برآمد کرسکتے ہیں ، ایک تو یہ
کہ گاؤں میں رہنے والے بھی شہر والوں کی طرح نمازعید ادا کریں گے ۔دوسرا یہ
ہے کہ جہاں بھی مسلمان رہتے ہوں خواہ وہ شہر ہو یا دیہات اجتماعی شکل میں
عید کی نماز ادا کریں گے ۔ چونکہ ان دنوں اکثر حصوں میں لاک ڈاؤن کی صورت
حال بنی ہوئی ہے لہذا انتہائی ذمہ داری کے ساتھ ہرگاؤں کے ممکنہ حد تک جمع
ہوسکنے والے مسلمان اجتماعیت کے ساتھ عیدگاہ یا مسجدیا کسی خالی جگہ جمع
ہوکر ایک ساتھ نماز عید ادا کریں گے اورجو لوگ لاک ڈاؤن یا کسی عذرکی وجہ
سے(مثلابارش وآندھی) عیدکی اس جماعت میں شریک نہ ہوسکیں وہ سب معذور کے حکم
میں ہوں گے لہذا وہ جہاں رہیں نماز عید کی طرح دورکعت ادا کرلیں ، اکیلے ہو
تو اکیلے اور ایک سے زیادہ ہیں تو جماعت بناکر پڑھ لیں ۔
|