حالات کی ناہمواری پوشیدہ نہیں۔ یہ اِمتحان کا دَور
ہے۔ مومنین کے لیے آزمائش ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں دین پر استقامت سے
راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ مصائب دور ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بیداری اور
احساس چاہیے اور دین پر استقامت۔
مارہرہ شریف و بریلی شریف کا پیغام:
کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن ہے، جس کے زیرِ اثر دُنیا مشکل ترین دَور سے
گزر رہی ہے؛ہمارے ملک میں جو پریشاں حالی ہے، وہ خوب ظاہر ہے۔ سب سے زیادہ
متاثر غریب و پس ماندہ طبقات ہیں، جن کی گزر بسر روزانہ کی کمائی پر ہوتی
ہے۔ کام مکمل بند ہونے سے وہ نانِ شبینہ کے محتاج ہو گئے۔ فاقوں کی نوبت ہے۔
ایسے حالات میں دینی تقاضا ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے مدد کے جذبات
بیدار کیے جائیں۔ ملک کے مشائخ، علما اور صاحبانِ خانقاہ نے عوام کی ترغیب
کے لیے پیغامات جاری فرمائے ہیں جن میں بعض یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔
سلسلۂ قادریہ کی مرکزی خانقاہ ’’خانقاہِ برکاتیہ مارہرہ شریف‘‘ کے سجادہ
نشین حضرت ڈاکٹر سید محمد امین میاں برکاتی و حضرت سید نجیب حیدر نوری نے
اپنے تحریری پیغام میں فرمایا کہ:
’’مالی و معاشی طور پر کمزور عزیزوں، رشتے داروں، دوستوںاور ملازموں کی
مالی امداد کریں اور ان کی تالیفِ قلب کی خاطر عید سعید کے موقع پر نئے
کپڑے پہننے سے پرہیز کریں؛ بلکہ ان کپڑوں پر ہونے والے اخراجات کی رقم کو
غربا و مساکین میں تقسیم کریں۔‘‘[جاری کردہ: رمضان ۱۴۴۱ھ]
بریلی شریف خانقاہ رضویہ کے سجادہ نشین علامہ محمد سبحان رضا خان سبحانی
میاں نے فرمایا:
’’عید نہایت سادگی سے منائیںاور غریبوں کے کھانے کا انتظام کریں یہی اصل
عید ہے۔‘‘[جاری کردہ: ۱۲؍رمضان ۱۴۴۱ھ]
ہمیں چاہیے کہ اِن احکام پر عمل کریں۔ سنجیدگی کے ساتھ عمل کی راہیں تلاش
کریں۔ غریبوں کی بنیادی ضروریات پر فوری توجہ دیں۔ عید کے بجٹ کو مذکورہ
پیغام کے مطابق تقسیم کریں۔
بارگاہِ الٰہی میں رجوع ہوں:
مفتی دیارِ کوکن مفتی سید رضوان احمد شافعی رفاعی نے احقر سے بذریعہ فون
فرمایا کہ:وبائیں جب ظاہر ہوں تو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع
ہوں۔ توبہ و استغفار کا اہتمام کریں۔ گھروں میں انفرادی طور پر اذان دیں۔
ختم قادریہ اور دیگر وظائف و اَوراد کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں۔
دُعائیں کریں تا کہ یہ وبائیں اوریہ مصائب دور ہوں۔
سید صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ: وہ لوگ لائق قدر ہیں جو غریبوں، مزدوروں اور
ضرورت مندوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ان تک اناج اور غذا پہنچا رہے ہیں۔ انھیں
زندگی کی ضروری اشیا فراہم کر رہے ہیں۔ اہلِ خیر حضرات کو چاہیے کہ ماہِ
رمضان کی اِن بابرکت گھڑیوں میں اپنے پاس پڑوس میں ضرورت مندوں کی کفالت
کریں۔ غریبوں کو خوشیاں تقسیم کریں۔جو دیں عزت کے ساتھ دیں۔ یہ وقت کی اہم
ضرورت ہے۔ یہی موقع ہے کہ مستحقین کی مدد کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کیا
جائے۔ یقینا یہ عمل آخرت سنوارنے کا سبب بنے گا۔ آپ نے نوری مشن کے ذریعے
کئے گئے فلاحی کاموں کو لائق تقلید قرار دیا نیز یہ بھی کہا کہ جن جن
اداروں اور صاحبانِ خیر نے اپنے اپنے علاقوں محلوں میں فلاحی کام کیا اور
کر رہے ہیں ان کا یہ عمل دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
گزشتہ دنوں راقم نے مولانا یاسین اختر مصباحی (بانی دارالقلم دہلی) سے
گفتگو کی- آپ نے بھی کہا کہ ضرورت مندوں کی ضروریات کی کفالت وقت کی اشد
ضرورت ہے- اس بارے میں ترغیب دی جائے اور عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے مدد
کی جائے- علما و ائمہ و اساتذہ کی خدمت بھی کی جائے-
بے احتیاطی سے بچیں:
وَباجب پھیلتی ہے تو یہ احتیاط سکھایا گیا ہے کہ ان علاقوں میں نہ جائیں؛
یا جن علاقوں میں وَبا پھیلی ہے وہاں سے نہ نکلیں۔ لیکن بعض مقامات پر یہ
دیکھ کر سخت افسوس ہو رہا ہے کہ احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمیں تو چاہیے کہ گھروں میں رَہ کر زیادہ سے زیادہ نیک کام
کریں، تلاوتِ قرآن کریم کریں۔ دینی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ ذکر و اذکار
کریں اور دُعائیں کریں کہ مولیٰ تعالیٰ! حالات کو بہتر فرمائے اور وَباؤں
کا خاتمہ فرمائے۔ مساجد میں ہم پھر سے پابندیِ وقت کے ساتھ نمازاور
ذکرالٰہی و ذکر محبوب ﷺ کے لیے بصد شوق حاضر ہوں۔ محبوبانِ خدا کے درباروں
کی نیاز مندانہ حاضری کے ذریعے تزکیۂ باطن کریں۔
یاد رکھیں! ماہِ رمضان- تفریح، عمدہ عمدہ کھانے پینے، بازاروں میں پھرنے کا
نام نہیں، بلکہ رب کی رضا اور رسول اللہ ﷺ کی سُنّتوں کی پیروی کا نام ہے۔
اِس لیے تمام غیر ضروری کاموں سے گریز کریں۔
احساس ذمہ داری جگائیں:
مسلم اُمّہ زخموں سے نڈھال ہے۔ کئی زخم ہیں۔ ہماری مساجد تاراج کی جا رہی
ہیں۔ قبلۂ اول پر یہود و نصاریٰ کی یورش ہے۔ شام تباہ ہو گیا۔ عراق و
لیبیا برباد ہوئے۔ افغانستان تاراج ہوا۔ اسلام کے نام پر وجود پذیر مملکت
میں قادیانیت کا فتنہ طاقت وَر بنتاجا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے
جمہوری/دستوری حقوق پر مسلسل شب خون مارا جا رہا ہے۔ ظلم و ستم اور دہشت
گردی کا نشانہ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کی تیاری کی جا چکی
ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں، بنیادی حقوق کے
خاتمہ کی تیاری ہے۔ تا کہ ہمیں ہماری ہی زمین سے بے دخل کر دیا جائے۔ کرونا
وائرس کی اِس وبا کی آڑ میں بھی مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کی پرورش کی جا
رہی ہے۔ پھر بھی ہم بے خبر ہیں۔سوئے سوئے سے ہیں۔اپنی دُنیا میں مگَن ہیں۔
فتنوں سے غافل ہیں۔
بعض اہلِ ثروت عید کی شاندار خریدی میں مگن ہیں۔ بعض تفریح میں۔ ایک سمت
لاکھوں مسلمان دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔ دوسری طرف لذت کام و دہن ۔ ایک
طرف بے روزگار رزق ہمارے ہی بھائی ایک ایک پائی کو ترس رہے ہیں؛ دوسری طرف
فضول خرچی کا ماحول ہے۔ اب بھی وقت ہے، جاگ جائیں۔ عید کی تیاری؛ بجائے
اعلیٰ کپڑوں کی خریدی کے؛ غریب کے دستر خوان کا انتظام کر کے کریں۔ عید کی
خوشیاں غریب ضعیفوں، بیواؤں اور یتیموں کی مالی امداد سے منائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک عمل کی توفیق دے۔ اسلامی احکام بجا لانے کا جذبۂ
جنوں خیز عطا فرمائے۔ ایثار کا شوق دے تا کہ ہم کسی کے کام آسکیں اور
توشۂ آخرت جمع کر سکیں۔اللہ تعالیٰ !رحم و فضل کا معاملہ فرمائے۔تا کہ
موسمِ رمضاں کی بہاروں سے صحنِ حیات مہک مہک اُٹھے۔آمین ؎
یا الٰہی جو دُعائیں نیک میں تجھ سے کروں
قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنا کا ساتھ ہو
٭٭٭ |