کورونا وائرس کے بطن سے ایسی ایسی انہونیاں سر نکال رہی
ہیں جن کے بارے میں کل تک سوچنا بھی محال تھا۔ اس نئے وائرس نے انسانی
زندگیوں میں جس طرح زہر گھولا ہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں
ملتی۔انسانی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ پوری دنیا ایک ہی وقت میں
کسی موذی مرض کی گرفت میں ہے۔اس سے قبل بھی وائرس تباہی پھیلاتے تھے لیکن
ان کا دائرہ ِ ِ اثر کسی مخصوص علاقے تک ہی محدود ہوا کرتا تھا ۔اگر ایشیا
کسی وائرس کا شکار ہوتا تھا تو امریکہ ،کینیڈا،نیوزی لینڈ،اسٹریلیا اور
برازیل اس وباء کے شر سے محفوط رہتے تھے گویا کہ وائرس علاقائی ہوتے تھے
لیکن اب کی بار توپورا انسانی قافلہ کورونا وائر س کی زد میں ہے اور اس کا
علاج ہنوز نمی دانند ۔۱۹۲۰ میں کورونا وائرس سے ملتی جلتی وبا ء نے بھی
تباہی مچائی تھی جس میں کروڑوں لوگ لقمہ ِ اجل بنے تھے لیکن فلو کی یہ وبا
مخصوص علاقوں کو ہی اپنی گرفت میں لے سکی تھی۔ہمارے ہاں ایک تصور بڑا مضبوط
ہے کہ دنیا میں چونکہ بے حیائی اوراخلاق سوزی اپنی حدود سے تجاوز کر چکی
ہیں لہذا فطرت کی طرف سے انسانیت کو سبق سکھانے کے لئے کورونا وائرس جیسی
وباء کا نزول ہوا ہے تا کہ انسان اپنے رب کی جانب رجوع کرے اور یہ وباء
اپنے انجام کو پہنچے۔خدا کی حقانیت اور اس کے قادرِ مطلق ہونے پر کسی کو
کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن خدا ایسے نہیں کیا کرتا۔شر کا تعلق انسانی
اعمال سے ہے جبکہ خیر کا تعلق اﷲ تعالی کی ذات سے ہے۔ اﷲ تعالی سراپا خیر
ہے اور اس سے ایسے اقدامات کی توقع رکھنا اس کے خیرِ مطلق ہونے پر سوالیہ
نشان کھڑے کرنے کے مترادف ہے۔سچ تو یہ ہے کہ انسان کے اپنے اعمال شر کو جنم
دیتے ہیں گو یا کہ شر انسانی اعمال سے ظہور پذیر ہوتا ہے لہذا اسے خدا کی
ذات سے منسوب کرنا درست نہیں۔زمانہ ِ قدیم میں کچھ اقوام پر ان کی بد
اعمالیوں کی وجہ سے عذاب نازل ہوئے تھے کیونکہ انھوں نے خدائی احکامات کی
صریح خلاف ورزی کی تھی لیکن پھر بھی عذاب نازل کرنے سے قبل وہاں اﷲ تعالی
نے انبیاء اور رسول بھیجے تھے تا کہ وہ لوگوں کو برے اعمال سے توبہ کرنے کی
تنبیہ کریں۔رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کے بعد اقوام پر عذاب کا سلسہ روک دیا گیا ہے
۔اب کسی قسم کا کوئی عذاب نازل نہیں ہو گا بلکہ اب انسانی اعمال کا مکمل
حساب یومِ آخرت پر ہو گا ۔جن کے اعمال ِ صالح کا پلڑا بھاری ہو گا انھیں
جنت الفردوس میں اعلی مقام سے نوازا جائے گا لیکن جن کے مکروہ اعمال کا
پلڑا بھاری گا انھیں جہنم واصل کر کے درناک عذاب کے حوالے کیا جائے گا۔ یہی
جنت اور دوزخ کا مفہوم ہے ۔
کورونا وائرس فضا میں موجود بہت سے دیگر وائر سوں کی طرح موجود ہے لیکن
فضائی آلودگی یا دوسرے خفیہ عوامل کی وجہ سے اس وقت ظہور پذیر ہو گیا ہے جس
سے دنیا خوف کا شکار ہو گئی ہے ۔اس وائرس کا کسی عذاب سے کوئی تعلق واسطہ
نہیں ہے۔ اگر بے حیائی ہی وجہِ عذاب ہوتی تو پھر ۱۹۲۰ میں کونسی بے حیائی
تھی جسکی سزا انسانوں کو دی گئی تھی؟۔کیا اس زمانے میں بے حیائی کی وجہ سے
کروڑوں انسانوں کو اپنی زندگیوں کا خراج دینا پڑا تھا حالانکہ اس وقت تو
معاشرہ بڑا پاک صاف، حیا دار اور مثالی تھا ۔عزت و احترام اور باہمی
رواداری کا کلچر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔بے حیائی کے بارے میں سوچنا
بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔عورتیں اپنی عفت کی حفاطت کرتی تھیں۔شرم و حیاء اس
دور کی خواتیں کا طرہِ امتیاز تھا۔اس وقت نہ تو انٹرنیٹ تھا،نہ ہی موبائل
فون تھے اور نہ ہی ٹیلیویژن تھا جس کے بارے میں علماء کی متفقہ رائے ہے کہ
یہ بے حیائی کا گڑھ ہے۔ اس وقت تو روادری اور باہمی بھائی چارے کا کلچر عام
تھالہذا خواتین کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جا تا تھا ۔ اقدار و اخلاق
کے اعلی معیار کی وجہ سے اس دور کو تاریخ کا سنہرا دور بھی کہا جاتا ہے۔
ہماری کتب اس دور کے محاسن سے بھری پڑی ہیں۔ ہمارے گھروں میں مائیں آج بھی
اس دور کو یاد کرتیں اور اپنے بچوں کو ان اقدارکی پیروی کرنے کی تلقین کرتی
ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگراس وقت ہر سو اخلاقی پیمانوں کا راج تھا اور
بے حیائی کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا تو پھر ۱۹۲۰ میں کروڑوں انسان
کس وجہ سے لقمہِ اجل بنے تھے؟وہ کونسا جرم تھا جس کی سزا انسانوں کو دی گئی
تھی ؟ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے
وہ جس طرح کے اعمال کرے گا اسی کے مطابق اسے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔برے
اعمال کا برا نتیجہ اور اچھے اعمال کا اچھا نتیجہ۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ
کوئی گندم کاشت کرے لیکن امید یہ لگائے کہ اس کے کھیتوں سے کپاس کی فصل اگے
گی۔کورونا وائرس خدائی عذاب نہیں بلکہ ہماری ماحولیاتی بے ترتیبی کا
شاخسانہ ہے۔ کوئی بندہ وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ کورونا وائرس کا نزول
کیوں ہوا ؟ کیا وجہ تسمیہ تھی کہ اس کرہِ ارض پر کورونا وائرس نے انسانوں
کا جینا حرام کر دیا۔؟
امریکی صدر ڈولنڈ ٹر مپ نے الزام لگایا ہے کہ کورونا وائرس چینی لیبا رٹریز
میں تیار کردہ وائرس ہے جس کا ماخذ چین کا شہر ووہان ہے۔امریکی صدر کا کہنا
ہے کہ چین نے یہ وائرس امریکہ کو نیچا دکھانے کیلئے تیار کیا ہے۔ امریکی
صدر نے چینی لیبارٹریز کے معائنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جسے چین نے مکمل طور
پر مسترد کر دیا ہے۔اگر چہ اس کے شواہد تو نہیں ملتے لیکن اس سے مکمل انکار
کی بھی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ لیبارٹری میں تیار شدہ نہیں ہے۔یہ دنیا
امکانات کی دنیا ہے اور سائنسی ترقی کے اس دور میں سب کچھ ممکن ہے۔چین کا
جوابی الزام یہ ہے کہ امریکہ نے فوجی مشقوں کے دوران یہ وائرس چین کے شہر
ووہان میں پھیلانے کی مذموم حرکت کی ہے تا کہ چین کی معاشی ترقی پر بند
باندھا جا سکے۔ امریکہ اور چین کی یہ لفظی جنگ ہر روز شدید سے شدید تر ہو
تی جا رہی ہے۔امریکہ کو جتنا نقصان اس وائرس سے پہنچا ہے اس سے پہلے اس کی
کوئی مثال نہیں ملتی۔سچ تو یہ ہے کہ امریکہ چین کی ہوشربا معاشی ترقی سے
خوف زدہ ہے لہذا حیلے بہانوں سے اس پر رکاوٹیں کھڑی کر کے اس کی ترقی کو
محدود کرنا چاہتا ہے۔سی پیک پر بھی امریکی موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
ہے۔امریکہ نے دوٹوک اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں سی پیک کو
مکمل نہیں ہو نے دیگا ۔سی پیک امریکی بالا دستی کی موت ہے لہذا امریکہ نے
اسے روک کر دکھانا ہے۔جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک بھارت اس نقطہ پر
امریکہ کا ہمنوا ہے کیونکہ سی پیک سے وہ بھی خوف کا شکار ہے۔بھارت امریکی
اشیرواد سے پاکستان کے خلاف بھی سرحدی چھیڑ خا نی کو ہوا دئے ہوئے ہے تا کہ
یہ خطہ چینی سی پیک کے پھیلاؤ سے رک جائے ۔پاکستان میں بھی سی پیک میں وہ
تیزی نہیں رہی جو میاں محمد نواز شریف کے دور میں دیکھنے کو مل رہی تھی۔کچھ
لوگ تو میاں محمد نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کو بھی سی پیک سے جوڑتے
ہیں کیونکہ میاں محمد نواز شریف سی پیک پر کسی بھی طرح کی مصلحت اندیشی کا
شکار نہیں تھے۔وہ بڑے دھڑلے سے سی پیک منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتے تھے تا
کہ ملک میں صنعتی تیزی کا ماحو ل پیدا ہو اورعوام معاشی خو شخالی کی جانب
اپنا سفر شروع کر سکیں۔ امریکی صدر نے ڈبلیو ایچ اوکو بھی اپنی تنقید کا
نشانہ بنایا ہے اور ڈبلیو ایچ او کی امداد بند کر نے کی دھمکی دی ہے جس سے
یہ ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی
مخاصمت کا کیا نتیجہ بر آمد ہو گا کسی کو کوئی علم نہیں ۔ صف بندی جاری ہے
جو کسی بھی وقت دھماکہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔مشتری ہوشیار باش کچھ
نہ کچھ ہونے والاہے۔،۔
|