پانی ہے زندگی!

میں اپنے استاد سے ایک دن معشیات کی جماعت میں بڑے انہماک سے سُن رہا تھا کہ سن ۲۰۲۵ تک اگر پاکستان میں ایک متبادل ڈیم نہ بنایا گیا تو پاکستان ایک ریگستان اور صحرا بن کر رہ جائےگا۔یہ بات میں نے ۲۰۰۶ میں سُنی تھی نیز میرے معشیات کے استاد نے کئی تجزیہ نگاروں، معشیت دانوں اور شاید سیاستدانوں سے کہیں پہلے سُنی ہوگی۔

ہمارے پاس پہلے سے موجود ڈیم پانی کے مطلوبہ ذخائر کے لیے ناکافی ہیں وجہ یہ ہے کے پہاڑوں سے گلیشئیرز کے ساتھ بہنے والے دریا اور نالے اپنے ساتھ ریتلی مٹی بھی لارہے ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ڈیم کے پیندے میں مٹی کی مقدار میں اضافے کے باعث متبادل ڈیم کی اشد ضرورت ہے جس میں کسی ایک موجودہ ڈیم کا پانی منتقل کرکے اسکو صاف کیا جاسکے اور اس طرح باری باری تمام ڈیموں کو صاف کیا جاسکے گا۔

ڈیم بننے سے متعدد فوائد ہیں لیکن سیلاب کی روک تھام، دریاؤں کا پانی سمندر میں ضائع ہونے سےبچانا، کاشت کاری اور بجلی کی عدم دستیابی فراہم کرنا سرفہرست میں شامل ہیں۔

ہمیں یہ حقیقت بھی پریشان کرتی رہتی ہے کے آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ بتدریج پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے تو دوسری طرف ڈیم کی تعمیر پر کوئی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔

پاکستان میں ۱۹۶۰ سے ۱۹۷۵ تک ڈیموں کی تعمیر کا سنہری دورگزراہے لیکن اب تک نہ کوئی نیا ڈیم بنایا گیا اور نہ موجودہ ڈیموں میں سے کسی ڈیم کو صاف کیا گیا ہےاور اب ۲۰۲۰ میں صرف۳۰ دنوں تک کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔ایک نئے اور جدید ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہوچکی ہے جسے کوئی گریز نہیں کرسکتا ہے۔

پچھلی ایک دہائی سے کالا باغ ڈیم پر کُھلم کُھلا سیاست ہوری تھی، ایک جماعت کہتی تھی کہ لاکھوں گھر اُجڑ جائینگے، دوسری جماعت کا بیان تھاکہ کالاباغ بننے سے ہمارا صوبہ پانی کے بوند کے لیے بھی محتاج ہوجائیگا۔

نیز یہ کہ کالا باغ ڈیم کی پیشکش کو ٹالنے میں ہی تقریباً دس گیارہ برس ضائع کردئیے گئے ہیں ۔

۲۰۱۸ میں جناب عمران خان صاحب کی کلیدی منشور میں ڈیم کی تعمیر کا ذکر بھی ہر لبِ عام و خاص رہا ہے اور حکومت کی شروعات ہی انھوں نے ڈیم کی فنڈ ریزنگ سے کی جس کے اہم کردار جناب چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب رہے جنھوں نے نہ صرف پاکستان سے بلکہ دنیا کے اہم مُلکوں کا دورہ کرکے ڈیم کے لیے چندہ جمع کیا جس سےمجموعی ۱۴۰۰ بلین روپے جمع ہوسکے۔

۹ مئی ۲۰۲۰ کو یہ خبر نشر ہوئی ہے کے مہمند اور دیامیر بھاشا ڈیم کا چائنہ کے ساتھ تعمیری شراکت داری ہوئی اور ۲۰۲۸ میں دیامیر بھاشا ڈیم کا باقاعدہ افتتاح ہوجائیگا اور اسکومکمل طور پر فعال کردیا جائیگا۔اس ڈیم کے بننے کی لاگت ۱۵۰۰ بلین ڈالرز آرہی ہے۔

ڈیم کی آواز عوام کی آواز ہے، رات دن ایک کرکےاپنی محنت کی کمائی کو ٹیکس حصولی میں جمع کروایا کہ اُنکو بجلی پانی مل سکے، اس آس میں جی رہے ہیں کے جلد ڈیم بنایا جائیگا۔لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ماضی میں اس طرح اور بھی ڈیموں کی تعمیر کھٹائی میں پڑچُکی ہیں حکومتی بجٹ سے تخمینہ رقم مختص بھی کی گئیں لیکن نہ مالیاتی اداروں نے آج تک بتایا کہ پیسہ کہاں گیا نہ حکمرانوں نے بتایا کہ ڈیم کہاں گیا۔

ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ اب عوام کے جذبات کے ساتھ نہ کھیلا جائے اور یہ ڈیم ہر حال میں جلد از جلد تعمیر کیا جائے اور اپنی مقررہ وقت تک فعال کر دیا جائے۔
 

Kashif Hussain
About the Author: Kashif Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.