رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی کہ جمعتہ الوداع کو
پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کی پرواز 8303 نے لاہور کے علامہ اقبال
انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کراچی کے لئے اُڑان بھری . مسافر بردار طیارہ یعنی
ایئر بس 320 کے پائلٹ نے جب جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیارے کو رن وے پر
اتارنا چاہا تو طیارے کے گیئر نے کام کرنا چھوڑ دیا. جس کی وجہ سے طیارہ
لینڈ نہ ہوا. یہ بات پائلٹ کو پریشان کر رہی تھی. آخر کار پائلٹ دوبارہ سے
طیارے کو اُفق پر لایا اور ایک دوسری کوشش کی کہ کسی طرح طیارہ بحفاظت زمین
پر لینڈ کیا جائے. لیکن اس بار گیئر کے ساتھ ساتھ دونوں انجن بھی جواب دے
گئے تھے. یہ صورتحال دیکھ کر پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر کو میڈے میڈے
میڈے کال دی. یعنی کہ اب پائلٹ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ طیارہ زمین بوس
ہونے کے قریب ہے. لیکن اس کے باوجود پائلٹ کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح شہری
آبادی سے بچا جا سکے . اس عزم کے ساتھ پائلٹ نے دوبارہ سے لینڈ کرنے کے لئے
طیارے کو جب رن وے کے قریب کیا تو بادل نخواستہ طیارہ رن وے سے کچھ کلومیٹر
دور گنجان آبادی والے رہائشی علاقے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہوگیا. اس
طیارے میں 91 افراد سوار تھے، جبکہ عملے کے بھی 8 ارکان شامل تھے. طیارے سے
نکلتے ہوئے کالے دھوئیں کے بادل جو آسمان پر چھا گئے تھے، جوکہ بظاہر تو سب
کے دنیائے فانی سے کوچ کرنے کی طرف اشارہ دے رہے تھے. لیکن وہ محاورہ تو آپ
نے سنا ہوگا جسے ﷲ رکھے اسے کون چکھے ، اس تباہ شدہ طیارے کے ملبے سے دو
افراد یعنی محمد زبیر اور ظفر مسعود (پنجاب بینک. کے صدر) حیرانی کی حد تک
زندہ بچ نکلے تھے. میں صرف یہاں ایک بات سوچ رہا تھا کہ پائلٹ جو کہ یہ
ساری صورتحال سے گزر رہا تھا. اپنی موت دیکھ کر بھی کیسے ہمت و حوصلہ سے
میڈے کال دے رہا تھا. کیونکہ مسافر تو بس پائلٹ کی آواز پر ہی انحصار کرتے
ہیں اور انھیں اس سب صورتحال کا علم نہیں ہوتا،لیکن وہ سب مسافر تو یہ سوچ
رہے ہوں گے کہ گھر جاکر اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ افطاری کریں گے. لیکن ان
کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی اور ﷲ نے ایک منٹ کے فرق سے اور منزل کے قریب
پہنچ کر انھیں ہمیشہ کے لئے اپنا مہمان بنا لیا. یقیناً ان کی روحوں نے
اپنے خالق حقیقی کی طرف جاکر یہ روزہ افطار کیا ہوگا. معلوم ہوتا ہے کہ
پائلٹ کی میڈے کال پاکستان کو خبر دار کر رہی ہے کہ اگر اس نظام کو بہتر نہ
بنایا تو جہاز کی طرح یہ ادارہ بھی گر سکتا ہے. یعنی کہ یہ حادثہ کوئی پہلا
حادثہ نہیں ہے اس قسم کے مزید واقعات سے بھی ہم نے کچھ سبق حاصل نہ کیا. جس
کا پیش خیمہ یہ ایک اور درد ناک حادثہ ہے. پی آئی اے کے تمام طیاروں کی
چیکنگ کی جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ کسی قسم کے بھی خراب جہاز کو
اُڑان بھرنے کی اجازت نہ دی جائے. ویسے کبھی یہ ادارہ پاکستان کا بہترین
ادارہ ہوا کرتا تھا اور دوسرے ممالک کو تعاون فراہم کرتا تھا. لیکن پھر
باقی تنزلیوں کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی تنزلی کا شکار ہوگیا. اگر اب بھی
اس میڈے کال پر حرکت نہ کی تو مزید نقصان کا اندیشہ رہے گا. لیکن شاید ان
لوگوں کو اس میڈے کال سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا جو کہ پہلے ہی بہت گرے
ہوئے ہیں. لیکن بہت سے لوگوں کے لئے یہ سبق آموز ہوسکتا ہے. اس سب صورتحال
میں جو درد ناک مناظر سامنے آئے وہ میں بیان نہیں کرسکتا. کیونکہ کسی نے
اپنا لال، کسی نے اپنا واحد کفیل اور کسی نے تو سارا خاندان ہی کھو دیا تھا.
طیارے کے پائلٹ کے والد گرامی کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا اپنے بچوں کو عیدی
پہلے ہی دے گیا تھا. یعنی کہ جیسے اسے یہ گمان ہو کہ میں جس سفر پر جارہا
ہوں یہ میرا آخری سفر بھی ہوسکتا ہے. یہ تو ایک باپ کی کہانی ہے ایسے مزید
دوسرے والدین کا بھی یہی نوحہ ہے. اس واقعے میں ایک سٹائلش اور وقت کی
خوبرو ماڈل بھی سوار تھی. یعنی لوگ اسے زندگی میں کچھ بھی کہتے رہے
ہوں،لیکن میرے نزدیک اس بہترین موت کا حقدار واقعی بہت خوش قسمت ہے جوکہ
رمضان المبارک میں جمعتہ الوداع کو ایک حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جا
ملے. کیونکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ موت تو اٹل ہے. آج نہیں تو کل ہر کسی نے
جانا ہے. ہم بھی اپنے خالق حقیقی سے ملنے والے ہیں. یقیناً پائلٹ کی میڈے
کال ہمیں یہ سبق دے رہی ہے کہ دنیاوی مسئلے جس میں ہم ہمہ تن گوش ہیں، اس
سے نکل جائیں اور اپنی زندگی کا مقصد سمجھیں اور پھر اس عارضی زندگی میں
رہتے ہوئے ابدی زندگی کی تیاری کریں. کیونکہ کسی بھی وقت بلاوا آسکتا ہے.
نیز یہ کہ کیا ہماری اتنی تیاری ہے کہ ہم اپنے رب کے سامنے پیش ہو سکیں.
میری تو بس یہی دعا ہے کہ یاﷲ جب تک تو ہمیں بخش نہ دے یعنی کسی قابل نہ
بنا دے تو ہمیں اس جہان فانی سے رخصت نہ دیجیے گا. نیز یہ کہ ہمیں بھی جمعہ
کے دن شہادت والی موت نصیب فرما جبکہ زبان پر بس کلمہ کی صدا جاری ہو. آمین
|