دنیا بھر میں کرونا کے بعد حالات نے امور و معمولات کو
اپنی لپیٹ میں لے کر الٹ پلٹ کر دیا ہے تا ہم فرائض کی ہر حال میں بجاآوری
کا احساس رکھنے والے معاشرے کے افراد کام کر رہے ہیں اب ساری دنیا میں نئی
صورت حال کو زندگی کا حصہ مانتے ہوئے احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کے
معمولات کا آغاز ہو چکا ہے حتیٰ کہ جہاں جہاں اس وباء سے زیادہ تباہی آئی
ہے وہاں بھی معمولات کی بحالی احتیاطی تدابیر کے نفاذ کے ساتھ کر دی گئی ہے
جس کی بنیاد ان کی شعوری بیداری اور فرائض سے محبت کے ساتھ نظام یا ایک
دوسرے پر بوجھ نہ بننے کا جذبہ و عادت باوقار ثابت ہو رہی ہے جب تک انفرادی
طور پر ہر ایک معاشرے کے افراد میں اپنے فریضے کی ہر حال میں ادائیگی دیانت
داری سے کرنے کی خود اری نہ ہو اور خود سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچ پائے
بلکہ جس قدر جس کا فائدہ ہو سکتا ہے وہ ہر صورت پہنچانے کی سعی کا شوق نہ
ہو حکومتیں ادارے وقتی روک تھام تو کر سکتے ہیں زیادہ دیر تک ایسے ماحول
میں نقصانات سے بچانا ممکن نہیں ہے حکومتوں اور اختیار والوں کا اوپر سے
نیچے تک کام ایک روڈمیپ جاری کرنا ہوتا ہے اوراس پر عمل درآمد ہر شخص کو
خود اجتماعی شکل میں نظم وضبط کو یقینی بنانا ہوتا ہے جبکہ نئی صورت حال
میں پابندیوں کے بغیر حالات کو معمول پر لانا ممکن نہیں ہے معمولات کو بحال
کر کے انفرادی احتیاطی تدابیر کی پابندی نہ کرنے سے پہلے سے زیادہ بڑے
بحران اور طویل پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس تناظر میں لاک ڈاؤن
کے بعد کے فیصلوں پر حکومتوں اور اداروں کو نظام کے طریقہ کار میں بھی
احساس ذمہ داری کو یقینی بنانا ہوگا اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ہر طرح کے
سرکاری غیر سرکاری ادارو میں آفیسران سے لے کر اہلکاران تک کا عوامی امور
کی نگرانی کیلئے ٹائم ٹیبل جاری کیا جائے،ہفتہ میں اتنے ایام اتنے گھنٹے
تین دن تین گھنٹے صرف دفاتر میں کام کیلئے آنے والوں کے کام ہوں گے ان کو
اگلی تاریخیں دینے کے بجائے ممکنہ دادرسی کر کے واپس بھیجا جائے گا انکے
لئے مقررہ دن گھنٹے کے دوران کسی طرح کا دورہ میٹنگ ملاقات نہ ہوگی اپنی
باری پر آفیسر کے کمرے میں آنے والے سے صرف کام کی بات کے بعد دوسرے کی
باری آئے گی جیسا کہ پرائیویٹ کلینک میں ڈاکٹر ز کرتے ہیں،چار گھنٹوں میں
سو سے پچاس مریض اطمینان سے ڈیل کر لیتے ہیں یہ طریقہ کار ہر سرکاری نیم
سرکاری دفتر میں نافذ کر کے عوامی امور کو نمٹانے کا بغیر مالی اخراجات کے
موثر حل لوگوں کی اولین ضرورت ہے اس وقت معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح وکلاء
خصوصاََ نوجوان بہت بڑی تعداد میں متاثر ہیں،بطور چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس
اظہر سلیم بابر،جسٹس شیراز کیانی،جسٹس صداقت حسین راجہ،جسٹس راجہ سجاد
خان،جسٹس رضا علی خان،جسٹس اعجاز منیر،پروفیشنل وکلاء کی حیثیت سے طویل سفر
طے کر کے آئے ہیں وکلاء کی مشکلات اور مقدمات میں پھنسے عام آدمی کی
مصیبتوں کا بخوبی احساس رکھتے ہیں جن کی موجودگی ماتحت عدلیہ کے معاملات کو
تقسیم کرتے ہوئے راہنمائی سے امید کی جاسکتی ہے ذیلی عدالتوں میں روزانہ کم
ازکم ایک فیصلہ پانچ مقدمات کی عملی سماعت کر کے وکلاء کی پیشہ وارانہ
معاشی ضرورت کو باوقار انداز میں تحفظ دیا جائے،نیز مختلف محکموں سمیت
انتظامیہ،پولیس،صحت ومنسلکہ موجودہ حالات کے لازمی اداروں میں ایسے تمام
گریڈ والوں سے کام لیا جائے جن کے پاس کوئی ذمہ دارانہ کام نہیں ہیں اور
اختیار نہ ہونے پر خفا رہتے ہیں ان پر مشتمل الگ شعبہ قائم کر کے کرونا سے
متعلقہ ذمہ داریاں تفویض کی جائیں باقی سب کو اپنے معاملات پہلے کی طرح
سرانجام دینے دیئے جائیں خاص کر اعلیٰ حکام کو احساس ہے کرونا کی آڑ میں
بعض اداروں میں سفاک عناصر میں سفاکیاں ڈبل کر دیں ہیں ان کی حوصلہ شکنی
بھی یقینی بنائی جائے۔
|