کورونا پر امفان: ’یک نہ شد دو شد‘ (قسط دوم)

کورونا نے تو خیر پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر وطن عزیز فی الحال مختلف ارضی و سماوی آفات کا شکار ہے۔ مشرق میں امفان نامی طوفان اور مغرب میں ٹڈی دل کا کہرام ۔ شمال کی جانب چینی شیطان اپنی سرخ فوج سے ڈرا رہا ہے اور اب تو نیپال بھی آنکھیں دکھا رہا ہے ۔ وہاں کے نائب وزیراعظم ایشور پوکھریل جو کہ وزیر دفاع بھی ہیں نے اعلان کردیا ہےکہ ضرورت پڑنے پر نیپالی فوج ہندوستان سے لڑے گی ۔ ایسا شاید مودی جی قیادت میں پہلی بار ہوا ہےکہ سابقہ ہندوراشٹر اور ننھا سا ہمسایہ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ اسے اپنی فوج کی قابلیت، دیانتداری اور صلاحیت پر کافی اعتماد ہے ۔ ویسے حکومت ہند نے تو چین کی دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لیا ایسے میں کیا نیپالی پدی اور کیا اس کا شوربہ یعنی فوج ۔ چین کے ارادے اور اس میں امریکہ کی پیشکش ایک تفصیل طلب موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی فی الحال مغربی بنگال اور اڑیسہ کی ساحل پر رہنے والے لوگوں کی دوہری مصیبت پر گفتگو مکمل ہوجائے ۔

مغربی بنگال کے معاملے ہماری حالت ’یک نہ شد دو شد ‘کی سی ہوگئی ہے۔ اس کہاوت کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کوئی عامل ایک منتر پڑھ کر مردوں کے بھوت سے باتیں کرنے اور دوسرا منتر پڑھ کر اسے پھر موت کی نیند سلا دینے کا جادو جانتا تھا ۔ اپنی موت سے قبل اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ جادو سکھا دیا ۔ شاگرد نے اسے آزمانے کے لیےایک قبر پر وہ منتر پڑھا تو مردے کا بھوت نکل آیا لیکن احمق شاگرد بھوت کو دوبارہ موت کی نیند سلانے کا منتر بھول گیا ۔ اب وہ جہاں بھی جاتا بھوت اس کے ساتھ ہوتا ۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے اس نے استاد کی قبر پرجاکر پہلا منتر پڑھا اور استاد کابھوت باہر آگیا۔ شاگردنے دوسرا منتر پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کی یادداشت Resetہوچکی ہے اس لیے انہیں کوئی جنتر منتر یاد نہیں اس طرح اب شاگرد کے پیچھے دو بھوت لگ گئےپہلا کورونا اور دوسرا امفان ۔ اس شاگرد کی جگہ ممتا بنرجی کو سمجھ لیں اور استاد نریندر مودی ۔دونوں کو دوسرا منتر یاد نہیں ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے پریشانی کا سبب بن گئے ہیں ، لیکن ان کے ساتھ پہلا بھوت یعنی وزیر داخلہ امیت شاہ بھی موجود ہے اوراس ساری گڑ بڑ میں اس کا بھی اہم کردار ہے کیونکہ اسی نے منتر بھلایا اور اسی کے لیے استاد کا بھوت واپس لانا پڑا۔

ممتا بنرجی نے اس مصیبت کی گھڑی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ سندربن علاقے کا دورہ کریں اور مل جل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ نےانہیں فون پرہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس کے بعد وزیرا عظم نے بھی اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ اس وقت پورا ملک بنگال کے ساتھ کھڑا ہے ۔ بنگال کی مدد کیلئے کوئی بھی کمی اور کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ہمارے لئے یہ آزمائش کا وقت اور ہم ریاست کے عوام کیلئے دعا کرتے ہیں کہ جلد سے جلد حالات معمول پرآجائیں ۔ اس سمندری طوفان کا ایک جادوئی اثر یہ ہوا کہ وزیر اعظم اپنے اس غار سے نکلے جس میں انہوں نے کورونا کے لاک ڈاون کے بعدسے اپنے آپ کو مقید کرکھا تھا۔ دو ماہ کی قیدو بند کے بعد مودی جی بادلِ نخواستہ مغربی بنگال کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے ۔ اورواپس ہوتے ہوئے اڑیسہ کا بھی چکر مارلیا۔

وزیر اعظم نے اس موقع پر اڑیسہ کے لیے پانچ سو کروڈ اور مغربی بنگال کے لیے ایک ہزار کروڈ کی پیشگی مدد کا اعلان کیا۔ اتنی رقم تو ممتا بنرجی پہلے ہی مختص کرچکی ہیں گویا استاد اور شاگر یعنی مرکز اور صوبے کی امداد میں کوئی فرق ہی نہیں رہا ۔ ممتا بنرجی کے ساتھ طوفان سے متاثرہ شمالی ۲۴؍پرگنہ اور جنوبی ۲۴؍ پرگنہ اضلاع کا فضائی سروے کرنے کے بعد وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ مرکز کی ایک ٹیم جلد ہی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے نقصانات کا جائزہ لے گی۔ مرکز کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے کہ اگر کسی بی جے پی کی صوبائی حکومت کے تحت کوئی مسئلہ ہو تو وزیر اعلیٰ سے اس کی رپورٹ منگوائی جاتی ہے لیکن اگر غیر بی جے پی خاص طور مغربی بنگال کی بات ہوتو اس پر اعتبار کرنے بجائے یا اس کا سیاسی کریڈٹ لینے کے لیے مرکز کی ٹیم روانہ کی جاتی ہے۔ اس عظیم تباہی کےپیش نظر بھی مرکز کے رویہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم نے طوفان کے نقصان کا تفصیلی جائزہ لینے کی خاطر مرکز سے ایک ٹیم بھیجنے کا اعلان کرہی دیا ۔

اس میں شک نہیں کہ اس آفت سماوی کے وارد ہوتے ہی وزیرا عظم مودی نے ٹویٹ کے ذریعہ یقین دلایا تھا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں مرکزی حکومت بنگال کے عوام کے ساتھ ہے اور ریاست کی باز آبادکاری میں ہر ممکن مدد کرے گی لیکن مدد کے اعلان میں بخیلی دکھا گئے ۔ وزیر اعظم نے طوفان میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو ۲؍ لاکھ کی مالی مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا جبکہ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی ڈھائی لاکھ کا اعلان کرچکی ہیں ۔ وزیر اعظم کے پیغام میں موجود بین السطور سیاسی لہجہ دیکھیں کہ انہوں نے پہلی ترجیح تو سمندری طوفان سے متاثرہ لوگوں کوراحت پہنچانا قراردیا مگر وہاں رکنے کے بجائے یہ بھی کہا کہ ہم سب چاہتے ہیں کہ مغربی بنگال میں زندگی ایک بار پھر معمول پر آجائے اور بنگال طوفان سے ابھر کر ترقی کی راہ پرگامزن ہو۔ اس آخری حصے میں چھپی سیاست نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو بے چین کردیا اور انہیں ناراضی کا اظہار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اپنا بخار اتارتے ہوئے کہا کہ ریاست میں نقصان ایک لاکھ کروڑ روپےسے زائد کا ہے لیکن مرکز نے صرف ایک ہزار کروڑ روپے پر اکتفاء کرلیا اور یہ بھی واضح نہیں کیا کہ وہ کس مد میں ہے۔ ممتا بنرجی نے اس موقع پر اپنے پرانے تلخ تجربات بھی نامہ نگاروں کے ساتھ شیئر کیے۔ انہوں نے بتایا ۶ ماہ قبل آنے والے ”بلبل طوفان“ کے وقت مرکز نےپہلے تو 11ہزار کروڑ روپے مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن بعد میں اس کو گھٹا کر 7ہزار کروڑ روپے دینے کی بات کی اور بلآخر میں صرف ایک ہزار کروڑ روپے پر ٹرخا دیا ۔مرکز کے اس معاندانہ رویہ پر متا بنرجی نے بنگال بی جے پی کے لیڈر ان کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ بولیں یہ لوگ اب بھی اسی طرح ریاستی حکومت پر تنقید کررہے ہیں جیسے بلبل طوفان کے وقت کرتے تھے لیکن نہ تو ریاست کے عوام کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں اور نہ مرکزی حکومت سے مدد لانے میں کوئی مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے سب سے اپیل کی کہ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر باہمی تعاون و اشتراک کا ہے کیونکہ اس طوفان کی تباہی کورونا سے کہیں زیادہ ہے۔ اس میں ہزاروں کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔اس لئے سیاست سے اوپر ہوکر ریاست کی مدد کی جانی چاہئے۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی طوفان کے بعد سے دفتر میں ڈٹی ہوئی ہیں ۔ ممتا بنرجی کی اسی تڑپ نے وزیر اعظم کو اپنی عافیت گاہ سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا۔ وہ وزیراعظم مودی کے ساتھ ایک ہوائی دورہ کرچکی ہیں اور پھر سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں ، پاتھورپٹیما، بسنتی، نم خانہ، کاکدیوپ اور گوسابا کا زمینی دورہ کررہی ہیں۔ وہ ان سارے علاقوں میں بلاک انتظامیہ کے ساتھ نشست کرکے ان کی مشکلات کو سمجھ رہی ہیں اور ضروری ہدایت دے رہی ہیں ۔ عید کے بعد وہ دیگر متاثرہ علاقوں کا بھی دورہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ زمین سے جڑے ہوئے رہنما سنگین حالات میں وزیر داخلہ کی طرح اپنے گھروں میں بند نہیں رہتے ۔ اس طوفان سے چونکہ بنگلہ ديش بھی متاثر ہوا ۔ بنگلا دیش کے اندر 130 ملين ڈالر کے قريب مالی نقصان کا اندیشہ ہے ۔ اتنی تباہی تو وہاں کورونا نے بھی نہیں مچائی ۔ بنگلا دیش میں بھی دس لاکھ لوگوں کو بجلی کے بغیر رہنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس لیے وہاں کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ہندوستان سے رابطہ تو کیا مگر اپنے ہم منصب کے بجائے ممتا بنرجی سے بات چیت کی کیونکہ انہیں پتہ ہے وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس بھاشن کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا لیکن ممتا بنرجی چونکہ میدان ِ کار میں موجود ہیں اس لیے وہ عوام کا در دسمجھتی ہیں اور عملی مشورے بھی دے سکتی ہیں۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے سامنے فی الحال امفان طوفان کے علاوہ کورونا اور دیگر صوبوں سے آنے والے مہاجر مزدوروں کی باز آبادکاری کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں ۔ اس طوفان سے آنے والی تباہی نے جہاں بہت سارے تاجروں کو معاشی مشکلات میں ڈھکیل دیا ہے وہیں باہر سے آنے والے مزدوروں کی خاطر روزگار کے مواقع پیدا کردئیے ہیں۔ امفان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بجلی کے کھمبے اکھڑ گئے ۔ سڑکوں پر جگہ جگہ درخت گرنے سے وہ ٹوٹ پھوٹ گئیں ۔ کچے مکانات منہدم ہوئے اورپختہ عمارتوں کو نقصا ن پہنچا ۔ اس لیے آگے چل کر حالات کو معمول پر لانے کیلئے بڑے پیمانے مزدوروں کی ضرورت پڑے گی ۔ محنت کشوں کی کمی سبب بجلی فراہم کرنے والے ادارے اور پانی سپلائی اور دیگر خدمات مہیا کرنے والا بلدیہ وغیرہ جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا اس کا انتظام مزدوروں کے لوٹنے سے ہوگیا ہے۔ اس کا اعتراف جنوبی دمدم میونسپلٹی کے ایک کاؤنسلر ابھیجیت مترا نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے میں ہزاروں درخت گرگئے ہیں۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدوروں کی قلت کو گزشتہ دو مہینے سے گھر میں بیٹھے مقامی ورکروں سے پورا کیا جارہا ہے۔چاول مل میں کام کرنے والے منوج سارنگی نے بھی کہا کہ گزشتہ دو مہینے سے وہ بے روزگار تھا مگر اب 250روپیہ یومیہ پر درختوں کے ہٹانے کا کام ملا ہے۔اس سے زندگی چلنے لگی ہے۔ انگریزی میں اسے blessing in disguise کہتے ہیں ۔ خیر یہ کارخانۂ قدرت ہے جہاں ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دوسرا کھل جاتا ہے ۔ کارخانۂ ہستی میں گردش ایام کا پہیہ کسی نہ کسی طور چلتا رہتا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449930 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.