چین بھارت کشیدگی

بھارت کی جانب سے چین کی سرحد پرجنگی حالات پیدا کرنے اور خطے کے دفاع کو ازسر نو ترتیب دینے کے بعددونوں ممالک کے درمیان ایک بار پھر تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔بھارت ، مقبوضہ جموں و کشمیر کے خطے لداخ کی سرحد پر نئی سڑکیں اور ہوائی اڈے تعمیرکر رہا ہے۔ چین کے روکنے پر دونوں افواج میں جھڑپیں ہورہی ہیں۔ دونوں اطراف کے فوجی مقبوضہ لداخ کی وادی گالوان میں مورچہ زن ہیں اور ایک دوسرے پر متنازع سرحد پار کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔لداخ کو بھارت نے گزشتہ برس ایک جابرانہ حکمنامے کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر سے کاٹ کر دہلی کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا۔ چین کا کہنا کہ وہ اپنی علاقائی خود مختاری کے تحفظ سمیت چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام قائم کرنے کے لیے علاقے میں موجود ہے۔ بھارت کا الزام ہے کہ چینی فوجیوں نے لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ بھارت کی معمول کی گشت کو روک رکھا ہے۔مگر کشیدگی کی اصل وجہ بھارت کی سڑکوں اور رن ویز کی تعمیر ہے۔چین اور انڈیا کے درمیان 3488 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹرکا رقبہ ہے۔ بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ چین نے ا س کے 38 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔چین اور بھارت کی باہمی تجارت کا حجم 90 ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے ۔چین ،بھارت کو سالانہ تقریباً 74 ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔ 1949میں غیر کمیونسٹ ممالک میں انڈیا، برما کے بعد دوسرا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔پھر تین سال بعدچینی افواج نے تبت کی جانب پیش قدمی کی۔ یہ معاملہ اس وقت رک گیا جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی علاقائی خود مختاری کا احترام کرنے کے لئے معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدہ کے فوری بعد چین کے وزیراعظم چو این لائی نے بھارت کا پہلا دورہ کیا۔جو تعلقات استوار کرنے کی کوشش تھی۔ لیکن بھارت نے جب چینی شہریوں کو لداخ سے نکال دیا، تو اس سے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔دلائی لامہ نے تبت کے علاقے لہاسہ سے بھاگ کر بھارت میں سیاسی پناہ لے لی تو بھارت کے چین کے بارے میں عزائم سامنے آئے۔چین نے برٹش انڈیا دور کی سرحدیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ چین ، برطانیہ اور انڈیا کے درمیان 1842 کے اس معاہدے کا حصہ نہیں تھا جس میں سرحدوں کی حد بندی ہوئی تھی۔چو این لائی ایک بار پھر دہلی پہنچ گئے۔ مگر ان کے جواہر لال نہرو ساتھ سرحدی تنازعہ حل کرنے پر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔چین نے سکم کے علاقے میں 12 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا۔اس کے بعد بھارت نے لداخ میں سرحدی چوکیاں قائم کرنا شروع کر دیں۔ 20 اکتوبر 1962کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ پیپلز لبریشن آرمی نے بھارتی ریاست ارونا چل پردیش کے اہم علاقے توانگ پر قبضہ کر لیا۔ ایک ماہ بعد جنگ بندی ہوئی، مگر سرحدی تنازعہ برقرار رہا،بھارت نے چین پر 33 ہزار کلومیٹر علاقہ ہتھیانے کا الزام لگایا مگر چین نے دعوی ٰ کیا کہ ارونا چل پردیش کا تمام علاقہ اس کی ملکیت ہے۔چین بھارتی افواج کی سکم میں موجودگی پر احتجاج کرتا رہا۔ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران چین کی فوجیں بھی سکم میں داخل ہو گئیں۔

دونوں ممالک کے درمیان 15سال تک سفارتی تعلقات منقطع رہے۔ جو 1976میں بحال ہو گئے۔ مگر جب ارونا چل پردیش کو انڈین یونین میں شامل کیا گیا تو کشیدہ پھر سے بڑھ گئی۔ بھارت میں دلائی لامہ کی چین مخالف سرگرمیاں اور بھارتی جارحیت، ایٹمی دھماکوں نے تعلقات کو مزید بگاڑ دیا۔ چین نے بھارتی جنرل بی ایس جسوال کو یہ کہہ کر ویزا دینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے کمانڈر تھے اور مظالم میں ملوث تھے۔ چین نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہریوں کو پاسپورٹ کی بجائے کاغذ پر ویزوں کا اجرا شروع کر دیا۔ بھارت نے چین کے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔اس نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت کے حوالے سے چین کی دعوت رد کر دی۔ مگربھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت مل جانے کے بعد بھی بھارتی عزائم درست نہ ہوئے۔ تین سال قبل دوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی توچین نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔اب گزشتہ دنوں تبت میں پنگانگ جھیل کے کناروں پر دونوں افواج میں ایک دوسرے سے ہاتھا پائی ہوئی جس کے بعد گالوان، سکم اور دیمچوک کے مقامات پر بھی جھڑپیں ہوئیں۔ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ کے وسطی علاقوں کا پورا علاقہ اپنا حصہ قرار دے رہا ہے۔ بھارت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی اپنا علاقہ قرار دیات ہے۔بھارت سی پیک اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہے۔ڈیم کی تعمیر سے 16 ہزار 500 ملازمتیں اور 4 ہزار 500 میگاواٹ پن بجلی بھی پید اہوگی۔جب کہ 12 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی بھی سیراب ہوگی ۔ تربیلا ڈیم کی زندگی 35 برس بڑھ جائے گی۔بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی پر امریکی صدر نے ثالثی کی پیشکش کی جسے بھارت نے مسترد کریا ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش اس وقت کی جب بھارت کا دعویٰ تھا کہ سیکڑوں چینی فوجی 3 ہزار 500 کلو میٹر لمبی سرحد کے ساتھ متنازعہ زون میں داخل ہوگئے ہیں۔ چین اور بھارت کی فوج لداخ میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور کشیدگی میں مزید اضافے کا خطرہ محسوس کیا جا رہاہے۔ دونوں ممالک کی افواج لداخ کی وادی گالوان میں مورچہ زن ہیں اور ایک دوسرے پر متنازعہ سرحد پار کرنے کا الزام عائد کر رہی ہیں۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑ شروع کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی ہے۔ وہ اس خطے پر تسلط چاہتا ہے۔ پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ سارک مماک مل کر بھارت جارحیت کو روک سکتے ہیں۔ اگر چین نے بھارت کے زیر قبضے اپنے علاقے آزاد کرانے کے لئے بات چیت اور بھارتی مکاری پر اعتبار کیا تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485689 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More