معروف لوک گلوکارعنایت حسین بھٹی12جنوری 1928ء کو گجرات
میں پیدا ہوئے عنایت حسین بھٹی اپنی ذات میں ایک نمونہ تھے وہ بیک وقت ایک
گلوکار،اداکار،ہدایت کار،مصنف،سماجی رہنما،کالم نگار،مذہبی سکالر اور ذاکر
تھے ابتداء سے ہی عنایت بھٹی کا رجحان صوفی شاعری کی جانب تھا انہوں نے
اپنے عہد میں وارث شاہ،بلھے شاہ،خواجہ غلام فرید،اور میاں محمد بخش سمیت
عظیم صوفی شعرا کا کلام گایاساٹھ کی دہائی میں عنایت حسین بھٹی نے تھیٹروں
میں گلوکاری کا آغاز کیا جہاں وہ سلطان باہو اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کا
کلام گایا کرتے تھے۔عنایت حسین بھٹی گجرات سے لاہور اس لئے شفٹ ہوئے کہ وہ
وکیل بن سکیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا نامور موسیقار فیروز نظامی
کے مشورے سے انہوں نے نے فلمی نگر میں بطور گلوکاراپنے فنی کیریئر کا آغاز
کیا28جولائی 1949ء کو ریلیز ہونے والی فلم ’’پھیرے‘‘ تھی جو پاکستان کی
پہلی سلور جوبلی سپر ہٹ فلم تھی فلم کی موسیقی بابا جی اے چشتی نے ترتیب دی
تھی اس فلم میں عنایت بھٹی کے گائے ہوئے پانچ گیت تھے ان میں سے دو گیت ’’
جے نئیں سی پیار نبھانا۔۔سانوں دس جا کوئی ٹھکانا ‘‘ اورمنورسلطانہ کے ساتھ
دوگانا ’’وے اکھیاں لاویں نہ۔۔۔ پھیر پچھتاوی نہ‘‘ بہت مقبول ہوئے بطور
سنگر ان کی پہلی فلم ’’شمی‘‘ تھی جو 1950ء میں ریلیز ہوئی لیکن ’’پھیرے‘‘محدود
مدت میں تیار ہوکر پہلے ریلیز ہوگئی تھی 1949ء میں ان کی4اردواور دو پنجابی
فلمیں تھی ان سبھی فلموں کی موسیقی باباجی اے چشتی نے دی تھی فلم ’’شمی‘‘
کا گیت’’نی سوہے جوڑے والئے۔۔ نی اک واری آجا۔۔۔سانوں مکھڑا وکھا جا‘‘ بہت
مقبول ہوا
1953ء میں فلم ’’شہری بابو‘‘میں انہوں ایک فقیر منش سائیں کا یادگار رول
ادا کیااس فلم کا ایک گیت ’’ بھاگاں والیو نام جپو مولا نام ‘‘عنایت حسین
بھٹی نے گایا اور انہی پہ عکس بند ہوا یہ گیت بہت مقبول ہوا اور یہی گیت ان
کی پہچان بن گیا یہ گیت بابا عالم سیاپوش نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی
رشید عطرے نے دی تھی ملکہ ترنم میڈم نورجہاں کے بعد عنایت حسین بھٹی واحد
فنکار تھے جو بیک وقت گلوکار اور اداکار کامیاب رہے ان کی فیملی کے دیگر
ممبران بھی پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے ان کے چھوٹے بھائی کفایت
حسین بھٹی المعروف کیفی بطور ہدایت کار اور معروف فنکار تھے اور فلموں میں
ہیرو کاسٹ ہوتے رہے کیفی کی دو بیویاں بھی فلمی اداکارائیں تھی ایک کا نام
غزالہ اور دوسری چکوری تھیں دونوں فلموں کی معروف اداکارائیں تھی شہرہ آفاق
پنجابی فلم ’’مولاجٹ‘‘ میں چکوری نے ’’دارونتی‘‘ کا یادگار کردار ادا کیا
تھا غزالہ سے کیفی کا بیٹا عامرکیفی بھی فلم سے وابستہ ہوا جبکہ چکوری سے
اسد کیفی اورحسن کیفی موسیقی سے وابستہ ہوئے،بھٹی صاحب کے تیسرے بھائی
شجاعت حسین بھٹی فلم ’’عشق دیوانہ ‘‘ میں عالیہ کے ساتھ ہیرو تھے یہ ان کی
پہلی اور آخری فلم تھی عنایت حسین بھٹی کا بیٹا وسیم عباس ٹیلیویژن،اسٹیج
اور فلم کے معروف اداکار ہیں انہوں نے بھی ایک ٹی وی آرٹسٹ سے شادی کی تھی
جبکہ عنایت حسین کے داماد آغا سکندر پی ٹی وی کے پاپولر فنکار تھے ندیم
عباس بھٹی صاحب کے بڑے بیٹے تھے یہ بھی ایک فلم میں ہیرو آئے بعدازاں فلم
تقسیم کار منسلک رہے عنایت حسین بھٹی اور کیفی کی کئی مشترکہ سپر ہٹ فلمیں
ریلیز ہوئیں دونوں بھائی ہیرو ایک گلوکار اور دوسرے ہدایت کار ہوتے تھے
پاکستان فلم نگر کے نامور ہدایت کار شباب کیرانوی نے1955ء اپنی فلم’’ جلن‘‘
میں انہیں مرکزی کردار کے لئے کاسٹ کیا لیکن فلم فلاپ ہوگئی جبکہ اسی سال
ریلیز ہونے والی فلم ’’ہیر‘‘کی کامیابی نے ’’جلن‘‘ کی ناکامی کا بدلہ لے
لیا یہ ایک سپرہٹ فلم تھی اس فلم میں ان کی ہیروئن سورن لتا تھی اس فلم کے
گیت زبان زد عام ہوئے جیسے’’سانوں سجناں دے ملن دی تانگ اے‘‘۔۔۔’’ڈولی چڑھ
دیا ں ماریاں ہیر چیکاں‘‘۔۔۔۔’’ذرا بیڑیاں ں نوں کر لے بند نی‘‘ اس کے بعد
انہوں نے ایک طویل عرصہ تک فلموں میں مرکزی کردار ادا کیامرحوم نے 54 فلموں
میں اداکاری بھی کی ان میں 52فلمیں پنجابی تھیں ان کی مشہور فلموں میں
کرتار سنگھ،وارث شاہ،دنیا مطلب دی،عشق دیوانہ،شہری بابو،چن مکھناں،ظلم دا
بدلہ،کوچوان، اور سجن بیلی قابل ذکر ہیں۔عنایت حسین بھٹی نے پنجاب میں
میلوں کے موقع پر تھیٹر میں بھی خوب نام کمایا ان کے مدمقابل عالم لوہار کا
تھیٹر بھی ہوا کرتا تھا اور دونوں میں خوب مقابلہ ہوا کرتا تھا بالی جٹی
بھی اسی دورمیں تھیٹرکا ایک مشہور نام تھا1968ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی
فلم ’’چن مکھناں‘‘ تھی یہ گولڈن جوبلی فلم تھی رانی پہلی بار ان کی ہیروئن
بنی اس فلم کے گیت بہت مشہور ہوئے ’’چن میرے مکھناں۔۔ تے ہس کے اک پل
ایدھرتکنا‘‘ تو آج بھی شائقین موسیقی بھول نہیں پائے اسی سال ’’سجن پیارا‘‘
ریلیز ہوئی یہ بھی گولڈن جوبلی فلم تھی اس میں بھی ان کی ہیروئن رانی تھی
’’سجن پیارا ملے کوئی دکھ پھولئے۔۔کلم کلے جندڑی نہ رولئے‘‘یہ ایک سپر ہٹ
گیت تھا’’بھٹی پکچرز کے بینر تلے بننے والی فلم ’’دنیا مطلب دی ‘‘ بھی ایک
یاد فلم تھی 1973ء میں ان کی سرائیکی فلم ’’دھیاں نمانیاں‘‘تھی سرائیکی
بیلٹ میں تو کامیاب رہی لیکن دیگر سرکٹ میں ناکام رہی اس فلم کی ہدایت کاری
بھی ان کی تھی فلمی کیریئر میں انہوں نے150فلموں میں 282گیت
گائے54گیت37اردو فلموں کے لئے ،133پنجابی فلموں میں218 گیت8گیت سرائیکی
جبکہ ایک عربی گیت گایا میں ان کی بطور اداکار فلموں کی کل تعداد 54 تھی جس
میں 52 فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں عنایت حسین بھٹی کی آخری فلم
عشق روگ 1989ء میں نمائش پزیر ہوئی اس فلم میں ان کے دونوں بیٹے ندیم عباس
اور وسیم عباس ہیرو تھے یہ ناکام فلم تھی عنایت حسین بھٹی نے 1985ء کے عام
انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر انتخاب لڑا تھا مگر کامیاب نہ ہو
سکے تھے۔عنایت حسین بھٹی31مئی1999ء کو71برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔
|