میں سانس نہیں لے سکتا!

میں سانس نہیں لے سکتا!
حسیب اعجاز عاشرؔ
تکلیف ختم ہوسکتی ہے، زخم بھرا جاسکتا ہے،لہجوں کی سختی نظرانداز ہوسکتی ہے،تلخیاں بھلائی جا سکتی ہیں،دشوار گزار راستوں کو چھوڑا جاسکتا ہے مگر تاریخ کونہ تو بدلا جاسکتا ہے اور نہ مسخ کیا جاسکتا ہے،جتنا مرضی سچ لکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا جائے حقائق اپنے راستے خودڈھونڈ لیتے ہیں۔امریکہ کا یہ سارے کا سار ادعوی آج مٹی کا ڈھیر ثابت ہوا ہے کہ وہ د نیا کے مہذب ترین معاشرے میں شمار ہوتاہے۔جارج فلوئیڈ کے قتل نے تاریخ کے چادر میں چھپے سیاہ فام امریکیوں کے زخموں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا میں سیاہ فام، غلاموں کی حیثیت سے افریقا سے لائے گئے۔ غلامی کی ان زنجیروں کو توڑنے میں کئی صدیاں لگ گئیں،طویل جدوجہد کے بعد حق رائے دہی حاصل کی اور پھردنیا نے امریکہ میں نئی تاریخ رقم ہوتے دیکھی کہ سیاہ فام امریکہ کے مسندِ اقتدار پر برجمان ہوااور آج جارج فلوئیڈ کے قتل اور اِس کے بعد کے حکومتی رویے کو سیاہ فام ایک بار پھر اپنے حقوق سلب کرنے کی جانب پہلا قدم تصور کر رہے ہیں۔جارج فلائیڈ تکلیف کے عالم میں آہ بکا کرتا رہا ہے کہ ”میں سانس نہیں لے سکتا“لیکن پولیس نے ایک نہ سنی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں واضح کر دیا ہے کہ جارج فلائیڈ کی موت گردن اور کمر پر دباو پڑنے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئی۔ویسے دیکھا جائے تو پولیس کاہرگز یہ اردہ تو قطعی نہیں ہوگا جو اُن کے ہاتھوں سے سرزد ہوگیا، تو اِس غیرارادی قتل کو سیاہ فام امریکیوں کی جانب سے حادثہ تصور کر کے نظرانداز بھی کیا جاسکتا تھا مگر چونکہ سیاہ فام کا ماضی امریکہ میں بہت گردآلود اوربھیانک ہے اسی لئے تو مقتول جارج فلائیڈ کی فیملی کی جانب سے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کے باوجود امریکہ کی گلیوں میں نسل پرستانہ منافرت دندناتی پھر رہی ہے اِسے تہذیب کا جنارہ نہ لکھا جائے تو اور کیا لکھا جائے۔نہ مظاہرین اپنی مطالبے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور نہ حکومت اپنے رویے میں لچک لا رہی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پولیس کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کوئی قانونی کاروائی کا عندیہ دیتے اور عوام کو مکمل انصاف کی یقین دہانی کرادیتے مگر اقتدار کے نشے میں مدمست ٹرمپ نے احتجاج کرنے والوں کوآڑے ہاتھوں لے لیا بلکہ فوجی طاقت کے استعمال کی بھی دھمکی دے دی،جومشتعل مظاہروں کی سب سے بڑی وجہ ثابت ہوئی او ریوں مظاہروں میں لگنے والی آگ کی تپش سے وائٹ ہاؤس کے در ودیوار بھی نہیں بچ سکے اور چند روز مظاہرین وائٹ ہاؤس کی حدود میں بھی پہنچ گئے اِسی بڑھتے ہوئے کشیدہ حالات کے تناظر میں ٹرمپ کواُن حفاظتی بنکر کا رُخ کرنا پڑا جو سرد جنگ کے زمانے میں روس اور امریکہ کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرے کے باعث بنائے گئے تھے۔بہرحال ا ب تواِس احتجاج کا سلسلہ سرحدوں کے اُس پار بھی جا پہنچا ہے آسٹریلیا اور یورپ میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا میں نسلی منافرت کے واقعات کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ نے جارج فلائیڈ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف ہونے والے احتجاج کو بالکل جائز قرار دیا۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکی انتظامیہ سے مظاہرین کے ساتھ تحمل سے نمٹنے اور واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اِدھر چینی وزارت خارجہ نے امریکا میں نسلی منافرت کو امریکی سماج کا مستقبل عارضہ قرار دیتے ہوئے اس کی مزمت کی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کو جارج کے قتل پر ہونے والے احتجاج میں امریکہ میں 1861 اور 1968 میں ہونی والی خانہ جنگی اور ہنگاموں کادھواں آج بھی اُٹھتا دیکھائی دے رہا ہے۔آج سپرپاورامریکہ کسی طرف بڑھ رہا ہے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے مگر دنیاجس طرف بڑھ رہی ہے صورتحال تشویشناک ہے۔بڑے بڑے ممالک میں آوازوں کو دبانے کا سلسلہ چل نکلا ہے طاقتور طاقتور ترین ہونے کی کوشش میں کمزور طبقے کو مفلوج کرنے کی تگ و دو میں دیکھائی دے رہے ہیں۔سعودیہ کی معاملات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں کئی مخالف شاہی شخصیات کو پابند سلاسل کیا گیا۔بنگلہ دیش میں تاریخ کا بدترین سیاسی انتقام دیکھنے کو مل رہاہے۔سیاسی مخالفین کو تخت دار پر لٹکا یا جارہا ہے،اِس حد تک زدوکوب کر دیا گیا ہے کہ آواز بلند کرنے کی سکت ختم کر دی گئی ہے۔ بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک حکومت مضبوط تر ہوچکی ہے اور اپنی حکومت کو مضبوط تر کرنے کیلئے مخالفین کے خلاف کڑا کریک ڈاؤن کیاگیا۔افغانستان،لیبیا،عراق،سوریا بنجر زمین کامنظر پیش کررہا ہے پاکستان کی بات کریں تو ریفارمز کے نام مہنگائی کا طوفان برپا ہے او ردوسری طرف احتساب کے نام پر اپوزیشن اتنی دباؤ میں ہے کہ عوام سے ووٹ لے کر بھی عوام کے حق میں آواز بلند کرنے نہ ہمت رکھتی ہے نہ جرات بلکہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بھارت میں مودی کے دوسری بار برسراقتدار آنا اقلیتوں کے لئے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر پیش کر رہا ہے مقبوضہ کشمیر میں تین سو زایددن ہوچکے لاک ڈاؤن جوں کا توں لگا ہے جبکہ بھارت کے اندر مسلمانوں کو ایک بار پھر مذہبی منافرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے،دنیا کی آنکھیں تو پہلے سے ہی بند ہیں لیکن تعجب ہے کہ بھارتی اپوزیشن بھی منظر سے رفو چکر ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر ممالک امریکہ کے زیراثر ہیں اگر چاہتے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اِن ممالک میں غیرمساوی رویوں کے خاتمے کیلئے اپنا کلیدی کردار اداکرسکتے تھے،مگراُنہوں نے بھی اپنے مفادات کومقدم جانا۔شاید بنکر میں چھپے ٹرمپ پرآج ”دم گھٹنے“کی حقیقت کھل چکی ہو اوراِس بات کابھی احساس ہوچکا ہو کہ کمزور کو اتنا نہ دبایا جائے اور مقبوضہ کشمیر سمیت کمزورکو اتنا دبتے بھی نہ دیکھا جائے کہ وہ چلا اُٹھیں کہ ”میں سانس نہیں لے سکتا“۔ویسے تو مظاہرین کے تیور بتارہے ہیں کہ ٹرمپ کا جانا اب ٹھہر گیا۔چونکہ انسان تجربات،مشاہدات، احساسات او روقت کی حساسیت سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔خواہش ہے کہ امریکہ کے اندرونی حالات اپنی نارمل زندگی کی جانب رواں دواں ہوجائیں اورامریکہ میں پھیلی آگ سے کندن بن کر ٹرمپ اپنے نئے سیاسی سفرمیں کمزوروں کی آواز بن کر اُبھریں۔ ورنہ تاریخ تو بتاتی ہے کہ آواز کو جتنا دبایا گیا اُتنی بلند ہوئی اور جب ایک بار بلند ہوجائے توپھر سب چیخ و پکار بھی مدھم پڑ جاتیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 121 Articles with 116171 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More