کراچی کا سفر۔۔۔ چوتھی قسط

شکر ہے کہ سفر کے دوران ٹھنڈے موسم سے نپڑنے اور سردی کے توڑ کے لئے والدین کے اسرار کرنے پہ گرم چادر کا انتظام کر لیا تھا ورنہ تو واقعی میں خون نے جمنا تھا۔ مگر گرم چادر کو سخت سردی کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ زیادہ کارآمد ثابت نہ ہوسکا اور بلخصوص رات کے اختتام اور صبح کے آمد کے قریب ایسی ٹھنڈ شروع ہوجاتی کہ سر تا پیر کپکپی طاری ہونے لگتی اور ٹھنڈ سے بچنے کی ناکام کوشش کرتے ہوۓ اپنی کرسی پہ سکڑ جاتی۔ ٹھنڈ اتنی شدید ہوتی کہ ایسا محسوس ہونے لگتا جیسے کسی ایسے کمرے میں آگئ ہوں جہاں موجود فرج کے اوپر نیچے کے دونوں خانے دو تین گھنٹوں سے کھلے چھوڑ ديۓ گئے ہو جس کے نتیجے ٹھنڈ نے پورے کمرے میں اپنے ڈیرے جما لیۓ ہو ۔ پھر جوں جوں رات کی تاریکی میں صبح کے آثار نمودار ہوتے جاتے سخت سردی کے عذاب اور کڑکتی ٹھنڈ کی تکلیف سے رہائی ملتی جاتی اور سورج کے آہستہ آہستہ فلک کی سیڑیاں چڑھتے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈ کی جگہ گرمی لے لیتی بلخصوص پنجاب کے اختتام اور سندھ کے حدود میں باقاعدہ سفر جاری رکھنے کے دوران گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتاجاتا اورعین دوپہر کے وقت گرمی پورا زور پکڑنے لگتی ۔اوپر سے میں اس سہولت سے بھی محروم تھی کہ اندر کی طرف بیٹھ کر ،کھڑکی کو زرا کھسکا کر قدرتی اے سی کے مزے لیتی۔ہاں مگر اس کے باوجود تھوڑے بہت ہوا کے جھونکے کہی نہ کہی سے آکے چہرے سے ٹکراہی جاتے مگر یہ نازک،بےاثر ہوا کی لہرے کھڑکی سے پورے غصّے کے ساتھ جھانکتے ہوۓ دھوپ اورگرمی کی شدت کو کم کرنے سے قاصر رہتے بلکہ سخت گرمی ٹھنڈی ہواوں کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیتی جس کے نتیجے گرمی کا احساس ان ہواوں سے بھی ہونے لگتا ۔ پھران لمحات میں میرا صرف یہی کام بچتا کہ گھڑی کی طرف نظریں جماۓ ایک ایک لمحے کو گنتے ہوۓ اس وقت کا انتظار کرنا شروع کرتی کہ جب سورج افق کی سیڑیاں اترتے اترتے اپنے آپ کو منظر سے اوجھل کر دیتا اور ساتھ ساتھ اپنے زردی مائل سائے کو ہر شے سے اٹھاکر زمین کو اپنے گرم اثر سے آزاد کردیتا ۔

بلآخر جب وہ وقت آتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے ہواوں میں پھر سے تازگی آگئ ہو ۔ ہوا کے جھونکے کھڑکی کے سّرے سے اندر جھانکتے اور چہرے سے ان ہوا کے لہروں کے ٹکرانے کے ساتھ ہی ایک ٹھنڈک کے احساس سے پورا وجود تروتازہ ہوجاتا اورساتھ ہی ساتھ دل و دماغ کو بھی سکون ملتا ۔
کبھی سخت سردی تو کبھی سخت گرمی کے تکالیف برداشت کرتے اور موسم کے نشیب و فراز کو جھیلتے ہوۓ دو دنوں کا سفر تو گزر گیا مگرایک طرف اس سفر کے دوران جہاں موسم نے مختلف انداز میں امتحان لیۓ وہی دوسری طرف سفر سے متعلق ایک پرانے اصول کو سامنے رکھتے ہوۓ اس لمبے سفر میں کھانے کےایک نوالے کو بھی حلق سے نیچے اتارنے نہیں دیا ۔دو دنوں پہ مبنی سفر میں ایک چپس کا پیکٹ ، ایک پندرہ روپے والی بسکٹ اور ان کے ساتھ ایک بیس روپے والا جوس کا ڑبہّ دو دنوں کی بھوک وپیاس کو بہلانے کے لیۓ دوا کا کام کرتے رہے تھے ۔یہ بھی وہی چیزیں تھی جنھے ابّو نے بس کے اندر قدم رکھنے سے پہلے بغیر صلاح مشورہ کیۓ اپنی پسند کو سامنے رکھتے ہوۓ خرید کر زبردستی ہاتھ میں تھما دیا تھا۔اگر سفر کے دوران کھانے پینے سے اجتناب کرنے کا بھی اجر ہوتا تو سو فیصد نہ سہی تو بسکٹ ،چپس اور جوس کو تھوڑا بہت تناول کرنے پر تیس فیصد اجر کو ہٹا کے ا‎سّی فیصد پورے ثواب کی تو مستحق ٹھرتی ۔۔۔
آگے جاری ہے۔۔۔

 

NoorinShafa
About the Author: NoorinShafa Read More Articles by NoorinShafa: 20 Articles with 19407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.