تبلیغی اجتماع کے لیے چپاتا کی ایک یادگار حاضری

تبلیغی اجتماع کے لیے چپاتا کی ایک یادگار حاضری

از: خورشید عالم داؤد قاسمی
چپاتا کے سفر کا ارادہ:
ہم، مفتی محمد نعمان پٹیل، مفتی محمد آصف اعظمی اور راقم الحروف، لوساکا میں موجودتھے؛ تاکہ حضرت مولانامحمد قمر الزماں صاحب حفظہ اللہ سے ملاقات اور ان کی نصیحتوں سے استفادہ کرسکیں ؛ چوں کہ وہ 23 تا 27/ جولائی 2025 کے دوران لوساکا میں تشریف فرما تھے۔ الحمد للہ، ہماری نیت کے مطابق، اللہ تعالی نے ہمیں 25/جولائی 2025 کو حضرت کے بیان اور نورانی مجلس سے استفادہ کا موقع دیا۔ اس کے بعد، ہماری نیت اور منصوبہ تھا کہ ہم چپاتا کا سفر کریں؛ تاکہ قومی تبلیغی اجتماع میں شرکت کرسکیں۔ چناں چہ منصوبے کے مطابق ہم نے سفر جاری رکھا۔

مدرسہ رحمانیہ کے لیے روانگی:
ہم 26/ جولائی 2025 کو علی الصباح نیند سے بیدار ہوئے۔ وضو اور دیگر ضروری تیاریوں سے فراغت کے بعد، فجر کی نماز ادا کی، جس سے روح کو تازگی اور دل کو اطمینان حاصل ہوا۔ ہمارا قیام مولانا محمد اکرم صاحب کے گھر پر تھا؛ جب کہ وہ ہندوستان کے سفر پر تھے؛ چناں چہ ان کے بڑے بھائی جناب محمد اکبر صاحب اور دوسرے احباب، مثلا: مولانا ابو طلحہ صاحب قاسمی وغیرہ نے خلوص و محبت کے ساتھ ہمارے ناشتے کا عمدہ انتظام کیا۔ ناشتے سے فراغت کے بعد، حضرت مولانا محمد جسات صاحب ہمیں لے کر، مدرسہ رحمانیہ، گریٹ ایسٹ روڈ، لوساکا کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں مولانا قاری محمد افضل صاحب، ہیڈ اسلامک ڈپارٹمنٹ، مدرسہ ہذا نے نہایت شفقت سے ایک بار پھر ہمارے لیے ناشتہ کا اہتمام فرمایا۔ ان کی محبت، مہمان نوازی اور حسنِ سلوک نے ہمارے دل پر ایک خوشگوار اور دیرپا اثر چھوڑا۔

مدرسہ رحمانیہ، لوساکا:
مدرسہ رحمانیہ کے بانی جناب حاجی غلام حسین پٹیل صاحبؒ ہیں۔ انھوں نے سن 1976ء میں، ایک ٹرست کے تحت یہ ادارہ قائم کیا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ سن 1980 میں اس ادارے میں تشریف لائے اور باضابطہ اس ادارے کا نام: مدرسہ رحمانیہ رکھا۔جناب حاجی غلام حسین صاحبؒ کے صاحبزادے جناب نجمل حسین پٹیل صاحب حفظہ اللہ کی قیادت میں یہ ادارہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اس ادارے میں ابھی ناظرہ قرآن کریم، اسلامیات وغیرہ کے ساتھ بارھویں جماعت تک اسکول کی تعلیم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ الگ سے عالم کورس بھی شروع کیا ہے۔ حفظ کی پانچ کلاسیں ہیں۔ مجموعی طور پر طلبہ کی تعداد 270ہے۔

چپاتا کے لیے روانگی:
مدرسہ رحمانیہ میں کچھ وقت قیام کے بعد ہم چپاتا روانہ ہوئے۔ اس سفر کا مقصد سالانہ قومی تبلیغی اجتماع میں شرکت تھا۔ تقریباً گیارہ بجے دن ہم لوگ لوساکا سے چپاتا کے لیے روانہ ہوئے۔ لمبا سفر طے کرکے، تقریباً آٹھ بجے شب ہم چپاتا پہنچے، جہاں ہمارے عزیز رفقا: مولانا نسیم اختر قاسمی، مفتی عبدالقوی قاسمی اور مولانا منظر حسین قاسمی نے پرتپاک انداز میں ہمارا خیرمقدم کیا۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ، محبت بھرا انداز اور دل پذیر ملاقات نے سفر کی تھکن کو خوشی میں بدل دیا۔

مفتی عبدالقوی، مولانا منظر حسین اور مولانا نسیم اختر صاحبان:
مفتی عبدالقوی قاسمی، مولانا منظر حسین قاسمی اور مولانا نسیم اختر قاسمی ہمارے محترم درسی ساتھی ہیں۔ ہم سب نے دارالعلوم دیوبند میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد، ہم سب ایک بار پھر مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، انکلیشور (گجرات) میں جمع ہوئے، جہاں ہم نے انگریزی زبان و ادب کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ انکلیشور کے قیام کے دوران ہمارے باہمی تعلقات مضبوط ہوئے۔ آج ہم چاروں رفقا زامبیا کے مختلف شہروں اور اداروں میں دینی و تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مولانا نسیم اختر قاسمی صاحب چپاتا شہر میں مقیم ہیں۔ وہ چپاتا مسلم اسوسی ایشن کے تحت خدمات انجام دیتے ہیں۔ امسال زامبیا کا سالانہ ملکی تبلیغی اجتماع چپاتا ہی میں منعقد ہوا، جس میں شرکت کی غرض سے ہم اپنے دیگر احباب کے ساتھ چپاتا پہنچے۔ وہاں اپنے ان دیرینہ ساتھیوں سے ملاقات نے قلبی مسرت و طمانینت عطا کی اور ماضی کی حسین یادیں تازہ کر دیں۔

رفقاء سے ملاقات اور عشائیہ:
ہم تینوں رفقاءمولانا نسیم اختر صاحب قاسمی کے گھر پہنچے۔ وہاں متعدد ساتھیوں کے ساتھ ساتھ چند معزز احباب بھی موجود تھے، جن میں قابلِ ذکر مفتی محمد اظہرالحق مظاہری قاسمی (استاذ: معہد الرشید الاسلامی، چپاتا)، مفتی محمد شکیل صاحب (امام، جامع مسجد سندا) اور مولانا آصف اقبال صاحب قاسمی، اڈیشہ (تعلیمی نگراں: کٹیٹے مسلم اسوسی ایشن ٹرسٹ) ہیں۔ تمام احباب سے گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ و معانقہ ہوا، جس سے ملاقات کی خوشی دوچند ہو گئی اور دل میں اپنائیت کا خوشگوار احساس پیدا ہوا۔ کچھ دیر کے بعد، ہم سب مسجد تشریف لے گئے اور وہاں نمازِ عشاء ادا کی۔ نماز کے بعد جب ہم واپس آئے؛ تو دسترخوان پہلے ہی سج چکا تھا۔ تمام مہمانوں کی ضیافت مولانا نسیم اختر صاحب قاسمی کے ہی دولت کدے پر کی گئی تھی۔

مولانا نسیم صاحب نے نہایت اہتمام کے ساتھ طرح طرح کے لذیذ اور خوش ذائقہ کھانوں کا بندوبست کیا تھا، جن سے تمام مہمانوں نے خوب لطف اٹھایا۔ کھانے کے بعد احباب بیٹھے اور خوشگوار ماحول میں دوستانہ گفتگو کا سلسلہ کچھ دیر جاری رہا۔ ہم نے شب میں مولانا نسیم اختر صاحب کے گھر پر قیام کیا؛ جب کہ چند دیگر رفقاء، از راہِ محبت، مفتی محمد اظہرالحق صاحب مظاہری قاسمی کے گھر قیام کے لیے چلے گئے۔

اجتماع کے بیانات کا سلسلہ:
صبح سویرے ہم تمام ساتھی ضروریات سے فراغت کے بعد، نمازِ فجر کے لیے مسجد پہنچے۔ نماز کے فوراً بعد ہم اجتماع گاہ روانہ ہوئے، جہاں دن بھر کے پروگرام پہلے سے طے شدہ ترتیب کے مطابق شروع ہونے والے تھے۔ اجتماع گاہ میں قدم رکھتے ہی ایک عجیب روحانی کیفیت محسوس ہوئی۔ ہر طرف ایمان افروز مناظر نظر آرہے تھے۔ فضا اللہ کے ذکر سے معطر تھی اور دلوں میں نرمی، آنکھوں میں خشیت اور چہروں پر اخلاص کی جھلک نمایاں تھی۔ شرکاء کا جوش و جذبہ قابلِ دید تھا۔

بہرحال، فجر کے بعد کا بیان مولانا حفظ الرحمن صاحب پالنپوری مدظلہ العالی کا تھا، جنھوں نے نہایت اثرانگیز اور دلنشین انداز میں دینی نکات بیان فرمائے۔ تقریبا دس بجے علما کے درمیان مولانا مفتی الیاس صاحب حفظہ اللہ(آنند) کا بیان طے تھا۔ مفتی صاحب بڑے عمدہ اسلوب میں، علما سے خطاب کیا۔ انھوں نے ایمان کے فوائد اور کفر کے نقصانات اور اسی طرح علم کے فوائد اور جہالت کے نقصانات کو مختلف طریقے سے واضح کیا۔ سامعین ان کے بیان سے بہت متاثر ہوئے۔ مفتی الیاس صاحب کے اس پروگرام سے قبل، صبح تقریبا نو بجے، ہم اپنے رفقا کے ساتھ ان سے ملنے کے لیے ان کی قیام گاہ پر پہنچے۔ مفتی صاحب آرام فرما رہے تھے؛ مگر جب ان کو ہماری آمد کی خبر دی گئی؛ تو انھوں نے ہمیں ملاقات کے لیے بلایا اور بڑی بشاشت کے ساتھ ہمارے ساتھ گفتگو کی۔ ہم نے اپنا اور اپنے ادارے کا تعارف پیش کیا۔ وہ اسے سن کر بہت خوش ہوئے اور دعاؤں سے نوازا۔ جزاہم اللہ خیرا!

مفتی محمد اظہر الحق صاحب کی ضیافت اور معہد الرشید الاسلامی کی زیارت:
مفتی الیاس صاحب دامت برکاتہم کے بیان کے بعد، ہمارا قافلہ کچھ وقت کے لیے رفیق محترم مفتی محمد اظہر الحق مظاہری قاسمی کے گھر پہنچا۔ وہ معہد کے قدیم اور موقر استاذ ہیں۔ وہ ابتدائی درجات سے لے کر، دورۂ حدیث شریف تک پڑھاتے ہیں۔ وہ نہایت خوشخط، باصلاحیت، وجیہ، خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں۔ انھوں نے بسکٹس، میٹھائی اور چائے وغیرہ کا انتظام کیا۔ سب ساتھی مفتی صاحب کی اس ضیافت سے لطف اندوز ہوئے۔ ہم نے مفتی صاحب کی معیت میں، معہد کی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ ان کی ہی معیت میں معہد کے دار الاقامے، لائبریری، درسگاہوں وغیرہ کی زیارت کی۔ اللہ پاک مفتی صاحب کو بہترین بدلہ عنایت فرمائیں!

معہد الرشید الاسلامی، چپاتا:
معہد الرشید الاسلامی، چپاتا، زامبیا کے چند قدیم ترین دینی اداروں میں سے ہے۔ یہ معہد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ کےحکم پر، ان کے خلیفہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب متالاؒنے سن1399ھ (1978ء) میں قائم کیا۔ اس ادارے میں اکثر مقامی افریقی بچے دین اسلام کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ابتدائی درجات، ناظرہ، حفظ القرآن الکریم، تجوید وقرات وغیرہ سے لے کر، دورہ حدیث شریف تک تعلیم کا انتظام ہے۔ دورہ حدیث شریف کا آغاز سن 1999ء میں ہوا۔ یہاں سے فارغ علما ملک کے مختلف خطے میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت معہد میں طلبہ کی مجموعی تعداد تقریبا چار سو ہے۔ معہد کے بانی و ناظم حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب متالاؒ کی وفات کے بعد، ادارہ کا انتظام و انصرام ان کے صاحبزادے حضرت مولانا عبد الرشید صاحب حفظہ اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالی بزرگوں کے لگائے ہوئے اس ادارے کو قائم رکھیں اور نظر بد سے حفاظت فرمائیں!

اجتماع کا بقیہ پروگرام:
ظہر کے بعد کا بیان جناب بھائی صدیق صاحب نے پیش کیا؛ جب کہ عصر کے بعد کا بیان مولانا عبد الرحیم صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا۔ عصر ہی کے بعد طلبہ کے مخصوص حلقے میں پروفیسر اخلاق صاحب کا خصوصی بیان تھا۔ مغرب کے بعد مفتی الیاس صاحب دامت برکاتہم نے خطاب فرمایا، جن کے اندازِ بیان نے سامعین کے دلوں کو گرما دیا۔ آئندہ دن یعنی بروز پیر، 28 /جولائی 2025ء، اجتماع کا آخری دن تھا۔ اس دن ہدایت کے لیے بیان کی ذمہ داری جناب بھائی عبد اللہ صاحب کے سپرد تھی؛ جب کہ اختتامی دعا کے لیے مولانا حفظ الرحمن صاحب پالنپوری حفظہ اللہ کا نام مقرر تھا۔

شرکاءِ اجتماع کا نظم و ضبط:
تمام مقررین حضرات نے اپنے اپنے وقت پر پروگرام کے مطابق بیانات پیش کیے، جو نہایت مفید، فکر انگیز اور روح پرور تھے۔ تقریبا اٹھارہ سو فرزندانِ توحید نے اس اجتماع میں شرکت کی۔ ان کا اجتماع میں اس قدر نظم و ترتیب اور خشوع و خضوع کے ساتھ شریک ہونا، دین کی سچائی، جماعت کی محنت اور علمائے کرام کی قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ وقت پر بیانات، اجتماعی نمازیں، لائن میں لگ کر کھانے کے ہال تک جانا اور کھانا کھانا، ذکر و اذکار اور انتہائی سادگی و انکساری کے ساتھ مہمان نوازی کا ماحول ہر ایک کے دل کو چھو رہا تھا۔ اجتماع کی وسعت، انتظامی مہارت، منتظمین میں خدمت کا ذوق و شوق دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ اس اجتماع سے تین جماعت چار مہینے کے لیے اور ایک سو سات جماعتیں چلے کے لیے نکلیں۔اللہ تعالیٰ اس جماعت کے تمام منتظمین، کارکنان، مبلغین، علمائے کرام اور خدمت گاروں کو اپنی شایانِ شان جزا سے نوازے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے اخلاص و محنت میں مزید برکت عطا فرمائے! جزاہم اللہ أحسن الجزاء!

اجتماع کے بعد روانگی اور کٹیٹے کی جانب سفر:
اجتماع کی اختتامی دعا کے بعد، ہم مولانا نسیم اختر صاحب قاسمی کے دولت کدے پر واپس آئے، جہاں ناشتہ اور چائے سے تواضع کی گئی۔ صبح کے ان لمحات میں جب دل و دماغ اجتماع کی روحانیت سے لبریز تھے، مولانا کی پرتپاک میزبانی نے مزید خوشگواری پیدا کر دی۔ پیشگی طے تھا کہ اجتماع کے بعد مولانا نسیم اختر صاحب ہم تینوں رفقاء کے ساتھ کٹیٹے تک جانے والے تھے۔ مگر جماعتی و تنظیمی مصروفیات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا موصوف نہایت فعال اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے زیرِ نگرانی چپاتا مسلم اسوسی ایشن ٹرسٹ کے تحت درجنوں مکاتب ومساجد چل رہے ہیں، جن کی نگرانی اور تنظیم کے بیشتر امور وہ خود انجام دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس سالانہ اجتماع کی انتظامی کمیٹی کے بھی رکن تھے، جس کی بنا پر ان کی مصروفیات عام دنوں کی نسبت کہیں زیادہ تھیں؛ لہٰذا ہم نے طے شدہ پروگرام کے مطابق،کٹیٹے کے لیے روانہ ہوئے۔

چپاتا مسلم اسوسی ایشن ٹرسٹ:
چپاتا مسلم اسوسی ایشن ٹرسٹ ایک سماجی فلاحی ادارہ ہے جو سن 1960 کی دہائی سے اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔ یہ ادارہ سماج کے پس ماندہ لوگوں کی کھانے پینے کی اشیاء کی شکل میں بھرپور امدادا کرتا ہے۔ چپاتا کے گردو نواح میں، مفلوک الحال لوگوں کے بچوں کے لیے چوبیس مکاتب بھی چلائے جاتے ہیں، جہاں سے وہ بنیادی دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ مکاتب مساجد سے چلتے ہیں۔ ان مساجد کی دیکھ بھال کا کام بھی ٹرسٹ سے ہوتا ہے۔ اس ٹرسٹ کے زیر انتظام، چپاتا شہر میں، ایک نرسری تا بارھویں جماعت اسلامی اسکول بنام چنگولولو اسکول چلتا ہے۔ جس گاؤں میں صاف پانی کا انتظام نہیں ہوتا ہے، یہ ٹرسٹ وہاں بورہول بھی کراتا ہے؛ تاکہ لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہوسکے۔ اسکول و کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ٹرسٹ کی جانب سے مالی امداد بھی کی جاتی ہے۔

کٹیٹے: دینی و فلاحی سرگرمیوں کا مرکز:
کٹیٹے، چیپاتا سے تقریباً اسی (80) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹی آبادی والا شہر ہے۔ اس شہر میں ہمارے مخلص اور دیرینہ رفیق مولانا منظر حسین قاسمی اور عزیز شاگرد مولانا محمد آصف اقبال صاحب قاسمی، اڈیشہ قیام پذیر ہیں۔ مولانا آصف اقبال صاحب قاسمی نے انگریزی زبان کی تعلیم راقم سے مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، انکلیشور، گجرات میں حاصل کی۔ وہاں ہم اپنے ساتھی مولانا منظر حسین صاحب قاسمی کے گھر پہنچے، جہاں ہمہ وقت مشغول شخصیت مولانا منظرحسین صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ ان دونوں حضرات کے گھر مسجد کے قریب میں ہی واقع ہیں۔ ہم نے ظہر کی نماز مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد ہم سب مولانا منظر حسین صاحب کے گھر پہنچے جہاں انھوں نے بڑے اکرام کے ساتھ ہماری مہمان نوازی کی اور دسترخوان پر ذائقہ دار کھانے کی متعدد قسمیں سجائی تھی۔ ہم سوچ میں پڑگئے کہ کس ڈش سے شروع کیا جائے اور کس پر ختم کیا جائے؟ بہرحال، دسترخوان پر حاضر دوستوں نے اپنی پسند کے کھانے سے لطف اٹھایا اور بے تکلفانہ ماحول میں، ہم سب نے آسودگی سے کھانا تناول کیا۔ جزاہ اللہ خیرا!

اسی موقع پر مولانا آصف اقبال صاحب نے بڑی محبت اور اصرار کے ساتھ ہمیں دعوت دی کہ ہم آج رات کٹیٹے میں ہی قیام کریں اور رات کا کھانا ان کے گھر پر مل کر کھائیں۔ ان کی اس خلوص بھری دعوت اور تواضع نے ہمیں بے حد متاثر کیا؛ تاہم، وقت کی قلت کی وجہ سے ہمیں معذرت کرنی پڑی؛ کیوں کہ رات کا قیام اور طعام ہمیں اپنے پرانے رفیق اور درسی ساتھی مفتی عبد القوی صاحب کے گھر پیٹاؤکے میں کرنا تھا۔ مولانا محمد آصف اقبال صاحب نے ہماری روانگی سے قبل اپنے گھر پر چائے کی دعوت دی، جسے ہم نے خوشی خوشی قبول کیا۔ جب ہم چائے کے لیے پہنچے؛ تو ہم نے مشاہدہ کیا کہ مولانا نے صرف چائے پر ہی اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ اپنی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چائے کے ساتھ مختلف اقسام کی بسکٹس، چاکلیٹ، کھجور اور دیگر لذیذ اشیاء بھی پیش کیں۔ جزاہ اللہ خیرا!

کٹیٹے مسلم اسوسی ایشن ٹرسٹ:
کٹیٹے مسلم اسوسی ایشن ٹرسٹ سن 2000 میں قائم کیا گیا۔ اس ٹرسٹ کے تحت کٹیٹے کے علاقے میں تقریبا تیس دینی و تعلیمی مکاتب اور مساجد چل رہے ہیں۔ یہ ٹرسٹ جناب حافظ سراج کسک صاحب کی قیادت میں، مقامی سطح پر امت کے متعدد سماجی و فلاحی منصوبے نہایت سرگرمی سے انجام دےرہا ہے۔ مولانا منظر صاحب اسی ٹرسٹ کے تحت قائم مکاتب ومساجد کی نگرانی اور انتظامی امورانجام دے رہے ہیں۔ تقریبا دو برس قبل مولانا منظر صاحب نے مولانا محمد آصف اقبال صاحب کو یہاں طلب فرمایا۔ وہ مکاتب و مساجد کی خدمات میں، مولانا منظر صاحب کے معاون ہیں۔ محترم حافظ سراج صاحب کی قیادت میں، مولانا منظر حسین صاحب اور مولانا آصف اقبال صاحب کی مشترکہ دینی و سماجی سرگرمیاں کٹیٹے میں ایک خوشگوار دینی فضا قائم کیے ہوئے ہیں، جو اہلِ علاقہ کے لیے نہ صرف علم و تربیت کا ذریعہ ہے؛ بلکہ امید و ہدایت کی ایک روشن کرن بھی۔

پیٹاؤکے کے لیے روانگی اور سندا کی مسجد کی زیارت:
چائے کے بعد ہم مولانا منظر حسین اور مولانا محمد آصف اقبال صاحبان کی معیت میں پیٹاؤکے کی جانب روانہ ہوئے۔ کٹیٹے سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع "سندا" میں مفتی شکیل صاحب ایک مسجد میں امامت کرتے ہیں۔ وہ بھی چپاتا کے اجتماع میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ انھیں کچھ ذاتی مصروفیات تھیں؛ لہذاانھیں سندا پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔ وہ مغرب کے وقت تک وہاں نہیں پہنچ سکے۔ جب ہمارا قافلہ سندا کی حدود میں داخل ہوا؛ تو مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ ہم نے مفتی شکیل صاحب کی مسجد میں باجماعت نمازِ مغرب ادا کی۔ ابھی اس مسجد کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض اور خوبصورت مسجد ہے۔

مولانا منظر حسین صاحب کی رائے ہوئی کہ مسجد سے متصل اس کے دوسرے حصے کی بھی ہم زیارت کریں۔ چنانچہ مغرب کی نماز کے بعد ہم نے مسجد کے دوسرے حصے کی زیارت کی۔ مسجد کا ہر حصہ منفرد اور خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی، سب سے پہلے مسجد کا اصلی حصہ نظر آتا ہے، جہاں سے آگے چلتے ہوئے دائیں اور بائیں طرف باغیچے کے لیے کچھ جگہ مختص ہے۔ چند قدم آگے وضو خانے کی عمارت ہے، جس میں چار پنکھے نصب ہیں۔ وضو خانے سے آگے بھی دونوں طرف باغیچے کے لیے جگہ موجود ہے۔ پھر تبلیغی جماعت کے قیام کے لیے ایک ہال اور اس کے ساتھ مطبخ وغیرہ ہے۔ اس کے بعد بھی دائیں اور بائیں طرف باغیچے کے لیے جگہ مختص ہے۔ اس کے آگےطہارت خانہ واقع ہے۔ مسجد کی تعمیر اسی طرز پر ترتیب دی گئی ہے اور صحن میں ابھی کافی جگہ خالی ہے جہاں مکتب کے معلمین و مدرسین کے لیے مکانات بنانے کا ارادہ ہے۔ جب یہ تمام تعمیراتی کام مکمل ہو جائیں گے؛ تو مسجد کی خوبصورتی میں بہت اضافہ ہو گا۔ یہ خوبصورت مسجد سیبل کمپنی کے مالک، جناب نذیر صاحب کے ذاتی خرچ سے بنائی جا رہی ہے۔ جناب نذیر صاحب علما اور دین کا کام کرنے والوں سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ وہ دینی کام کے لیے ہر وقت ہر طرح کا تعاون کے لیے تیار رہتے ہیں۔مولانا منظر حسین صاحب کی معیت میں، چند منٹ کے لیے مغرب بعد، ہماری ان سے ملاقات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائیں اور ان کو بہترین بدلہ عطا فرمائیں!

انوسا سکنڈری اسکول، پیٹاؤکے کے احاطے میں:
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر، ہم سب کار میں بیٹھے اور پیٹاؤکے کے لیے روانہ ہوئے۔ قبیل عشاء، ہم انوسا سیکنڈری اسکول اور مدرسہ انوار الاسلام، انوسا، پیٹاؤکے کے احاطے میں پہنچے، جہاں ہمارے دوست مفتی عبد القوی قاسمی صاحب تقریباً سترہ سالوں سے منسلک ہیں۔ مفتی صاحب اس ادارے کے نہایت محنتی، مخلص اور متحرک مدرس، نگراں اور منتظم کے طور پر اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں۔ یہ ایک اسلامی اسکول ہے، جہاں نرسری سے بارھویں جماعت تک تعلیم کا انتظام ہے۔ اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ طلبہ حفظ بھی کرتے ہیں۔ ابھی اسکول میں تقریبا چار سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

جب ہم ان کے گھر پہنچے، تو وہ حفظ کے طلبہ کے ساتھ مصروف عمل تھے۔ ہم سب نے درسگاہ کا دورہ کیا اور چند لمحے بچوں کے ساتھ گزارے۔ ایک طالب علم نے نہایت عمدہ اور پراثر انداز میں قرآن مجید کی تلاوت سنائی، جسے سن کر دل مسرور ہو گیا۔ ہمارے ساتھی مفتی محمد آصف اعظمی اور مفتی محمد نعمان پٹیل صاحبان نے ان بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی جیبوں سے کچھ نقد رقم بطور انعام دی؛ تاکہ وہ مزید محنت سے تعلیم حاصل کریں۔ پھر عشا کی اذان ہوئی، ہم سب نے وضو کیا اور باجماعت مسجد پہنچ کر نماز ادا کی۔

نمازِ عشاء کے بعد ہم مفتی عبدالقوی صاحب قاسمی کے گھر پہنچے، جہاں انھوں نے بڑی محبت اور خلوص کے ساتھ مختلف اقسام کے لذیذ کھانے پیش کیے۔ ہم سب نے ان کے دسترخوان پر بیٹھ کر دل کھول کر کھانے کا لطف اٹھایا اور مہمان نوازی کے اس حسین ماحول سے مستفید ہوئے۔ کچھ دیر بعد مولانا منظر حسین صاحب اور مولانا آصف اقبال صاحب کٹیٹے کے لیے روانہ ہو گئے؛ جب کہ ہم لوگ مفتی عبدالقوی صاحب کے گھر پر قیام کرتے ہوئے تھوڑی دیر بے تکلفانہ گفتگو میں مشغول رہے۔ پھر رات کے سکون میں ہم اپنے اپنے بستر پر آرام سے دراز ہو گئے اور پر سکون نیند سوئے۔ ہم نے اول وقت میں فجر کی نماز ادا کی۔ ناشتہ تیار تھا۔ ہم نے مختصر ناشتہ کیا۔ پھر مفتی صاحب نے ہمارے راستے کے لیے کچھ توشہ تیار کرایا۔ ہم اس توشے کے ساتھ لوساکا کے لیے روانہ ہوئے۔ مفتی صاحب نے بڑی سخاوت اور محبت سے ہماری ضیافت کی اور ہر ممکن احترام و اکرام کا مظاہرہ کیا۔جزاہم اللہُ احسن الجزاء!

مولانا محمد اکرم صاحب کے گھر پر:
ہم دوپہر میں تقریباً دو بجے لوساکا واپس پہنچے۔ گھر کے استعمال کی چند ضروری اشیاء خریدنے کے بعد ہم مولانا محمد اکرم صاحب قاسمی کے گھر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مولانا کے بڑے بھائی جناب محمد اکبر صاحب اس وقت کسی دفتری کام میں مصروف ہیں، تاہم گھر پر موجود احباب: مولانا ذکی الرحمن قاسمی (جو آئی گے ٹرسٹ میں کام کرتے ہیں اور ہم لوگوں سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے۔)اور بھائی عبد اللہ صاحب نے ہمارا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ہمارے آنے کی خبر ملتے ہی جناب محمد اکبر بھائی نے ہمارے کھانے تیار کروا رکھے تھے۔ گھر پر پہنچتے ہی ہم نے وضو کیا، نماز پڑھی اور ہم نے ان کی محبت بھرے انداز میں پیش کیے گئے کھانے سے لطف اٹھایا۔ ہم وہیں رات بھر قیام کیا۔ پھر تیس جولائی کی صبح کو ہم اپنے رفقاء سفر کے ساتھ مپلنگو کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم رات کے تقریبا آٹھ بجے اپنے گھر پہنچے۔ الحمد للہ اولا وآخرا، والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ••••

 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 221 Articles with 274500 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.