باسفورس پل، یورپ اور ایشیا کی تہذیبوں کا سنگم
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
|
New Page 2
ترکی، جو دنیا کے اُن چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جو دو براعظموں یورپ اور ایشیا پر مشتمل ہے، جغرافیائی، تاریخی اور تہذیبی لحاظ سے بے حد منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ان دونوں براعظموں کے درمیان فاصلہ بہت کم ہے، اور ان کے درمیان حائل قدرتی رکاوٹ کو باسفورس آبنائے (Bosphorus Strait) کہا جاتا ہے، جو بحیرہ اسود (Black Sea) کو بحیرہ مرمرہ (Sea of Marmara) سے ملاتی ہے۔ اسی آبنائے پر واقع ہے ترکی کا مشہور زمانہ، عظیم الشان اور انجینئرنگ کا شاہکار باسفورس پل، جو دنیا کے چند عظیم معلق پلوں (Suspension Bridges) میں سے ایک ہے۔ یہ پل ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول (Istanbul) میں واقع ہے، جو خود بھی دو براعظموں میں بٹا ہوا ہے، اس کا ایک حصہ یورپ میں اور دوسرا ایشیا میں ہے۔ باسفورس پل ان دونوں حصوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور استنبول کے باسیوں کے لیے روزمرہ آمدورفت کا اہم ذریعہ ہے۔ اس پل کی تعمیر کا آغاز 1970 میں ہوا، اور اسے 29 اکتوبر 1973 کو ترکی کے 50ویں یومِ جمہوریہ کے موقع پر عوام کے لیے کھولا گیا۔ اس وقت یہ دنیا کا چوتھا طویل ترین معلق پل تھا، اور یورپ اور ایشیا کو براہِ راست زمینی طور پر جوڑنے والا پہلا پل بن گیا۔ باسفورس پل ایک سسپنشن برج ہے، یعنی یہ دو بلند ٹاورز پر کھینچے گئے فولادی کیبلز کے ذریعے معلق ہے۔ اس کی کل لمبائی 1,560 میٹر ہے ، ٹاورز کے درمیان درمیانی اسپین 1,074 میٹر، پل کی چوڑائی (ڈیک) 39 میٹر ہے، ٹاورز کی بلندی: تقریباً 165 میٹر (سطح سمندر سے) اور سطحِ آب سے اونچائی تقریباً 64 میٹر ہے تاکہ بڑے بحری جہاز گزر سکیں، لینز کی تعداد چھ (تین ایک طرف اور تین دوسری طرف) ہیں اور اس پل پر رفتار کی حد 100 کلومیٹر فی گھنٹہ تک مقرر ہے ۔ یہ پل روزانہ لاکھوں افراد کو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک لاتا لے جاتا ہے۔ اس کی گنجائش، رفتار اور تعمیراتی معیار اسے دنیا کے مصروف ترین پلوں میں شامل کرتی ہے۔ باسفورس پل نہ صرف ایک تعمیری شاہکار ہے بلکہ ایک سیاحتی مرکز بھی ہے۔ یہاں سے استنبول کی خوبصورت عمارات، مساجد، محلات اور سمندر کے نیلے پانی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر رات کے وقت جب پل کو مختلف رنگوں کی روشنیوں سے سجا دیا جاتا ہے، تو یہ پورے شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ پل کے دونوں کناروں پر موجود علاقے اورتاکوئے (Ortaköy) اور بیلربی (Beylerbeyi) تاریخی عمارتوں، کیفے، ریسٹورنٹس اور بازاروں کی وجہ سے سیاحوں کے لیے بھی خاص کشش رکھتے ہیں۔ یہاں سے کھینچی گئی ڈرون یا پرندوں کی نظر سے لی گئی تصاویر دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ شروع میں اس پل کا نام صرف "باسفورس برج" تھا، تاہم 15 جولائی 2016 کو ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے دوران یہی پل ایک اہم مقام بن گیا جہاں عوام نے اپنی جانیں قربان کر کے جمہوریت کا دفاع کیا۔ انہی قربانیوں کی یاد میں اس پل کا نام تبدیل کر کے "15 جولائی کو شہداء پل" (15 July Martyrs Bridge) رکھ دیا گیا۔ باسفورس پل صرف ایک تعمیراتی کارنامہ نہیں بلکہ مشرق و مغرب، ایشیا و یورپ، قدیم و جدید، روایت و ترقی کے ملاپ کی علامت ہے۔ اس پل پر کھڑے ہو کر ایک ہی وقت میں آپ دو براعظموں میں موجود ہوتے ہیں، ایک طرف ایشیائی تہذیب کی گہرائی تو دوسری طرف یورپی ترقی کی چمک۔ یہ احساس خود ایک تجربہ ہے جو ہر دیکھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ آبنائے باسفورس پر دیگر پل اور جدید توسیع بھی کی گئی ہے. استنبول میں باسفورس آبنائے پر مزید دو پل تعمیر کیے گئے ہیں فاطح سلطان محمد پل (Fatih Sultan Mehmet Bridge) 1988 میں تعمیر ہوا اور دوسرا یوز سلطان سلیم پل (Yavuz Sultan Selim Bridge) 2016 میں مکمل ہوا یہ پل جدید ٹریفک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، مگر باسفورس پل اب بھی تاریخی، علامتی اور جذباتی لحاظ سے سب سے زیادہ مشہور اور اہم پل ہے۔ الغرض باسفورس پل محض ایک راستہ نہیں بلکہ تہذیبوں کے ملاپ، قوموں کی ترقی، اور انسانی تخیل کی بلندی کا استعارہ ہے۔ یہ پل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جغرافیائی فاصلوں کو مٹا کر دلوں کو جوڑنا ممکن ہے۔ جہاں یہ پل لاکھوں افراد کو منزل تک پہنچاتا ہے، وہیں یہ دلوں، ثقافتوں اور خوابوں کو بھی جوڑتا ہے۔ |
|