منقسم ریاست جموں کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے
سارے محب وطن ریاستی باشندے بے حد پریشان نظر آتے ہیں۔ اندرون و بیرون ملک
بسنے والے محب وطن وقتا فوقتا مجھ سے رابطہ کر کے اپنی تشویش کا اظہار کرتے
رہتے ہیں اور کچھ دوست ناراضگی کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ آخر ہم لوگ اتنی
بڑی قربانیاں دے کر کسی حل کی طرف کیوں نہیں بڑھ رہے جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں
جو مشورہ دیتے ہیں کہ ہم اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اپنے متفکر
ساتھیوں خاصکر نوجوان نسل کو بہتر اور حقیقت پسندانہ راستہ بتائیں جس پر چل
کر ہم آزادی کی منزل حاصل کر سکیں اور وہ آزادی بھی ہندوستان اور پاکستان
جیسی نہ ہو جہاں اعلان آزادی کے ساتھ ہی کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گے اور خطہ
ایک بڑے قید خانے میں بدل گیا۔ ایسے ہی فکر مند اور صاحب الرائے دوستوں میں
ایک نام طارق جرال صاحب کا ہے جنہوں نے گزشتہ رات برطانیہ سے میرے ساتھ
طویل ٹیلیفونک گفتگو کی اور اس طرح کے آر پار اور اندرون و بیرون ملک محب
وطنوں کی طویل لسٹ ہے جن کے ساتھ اس طرح کا تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ میرے
خیال میں ریاست جموں کشمیر کے کسی بھی پس منظر کا مالک کوئی بھی ایسا
باشندہ نہیں جو موجودہ صورت حال سے پریشان نہ ہومگرصرف پریشانی اور فکر
مندی کافی نہیں بلکہ ہمیں قابل عمل پالیسی و حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس کے
لیے ہم نے سب سے پہلے یہ سوچنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ جہاں کھڑے ہیں کیوں
کھڑے ہیں یہاں سے ہم نے کس طرف جانا ہے اور جا سکتے ہیں؟
ساتھیو اور دوستو۔۔۔ ہماری ریاست اس وقت چار حصوں میں تقسیم ہے۔ ان حصوں کو
بھارتی مقبوضہ کشمیر، چینی مقبوضہ کشمیر، نام نہاد آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان کہا جاتا ہے۔ ریاست کے اندر اس وقت تین اسمبلیاں ہیں۔ ان میں اگر
ہمت و جرات ہو تو ان اسمبلیوں کے نمائندے آپس میں رابطے و مشاورت کر کے ایک
مضبوط، مربوط اور قابل عمل پالیسی مرتب کر کے اقوام عالم کے سامنے خود اپنا
مسلہ پیش کریں۔ ان میں سے آئینی طور پر سب سے مضبوط پوزیشن نام نہاد آزاد
کشمیر کی ہے جس نے ۴ اکتوبر۴۷ ۱۹ء کو ایک عبوری انقلابی حکومت قائم کر کے
پوری ریاست کی نمائندگی کا دعوی کیا تھا۔ اس حکومت نے وہ تمام ادارے قائم
کر دئیے تھے جو ایک آزاد و خود مختار ریاست کی ضمانت ہوتے ہیں مگر اس نے
اپنا نام تو آزاد رکھا عمل غلاموں والا شروع کر دیا۔نتیجہ ریاست کی تقسیم
نکلا۔ گلگت بلتستان بھی پاکستان کے حوالے کرکے دوبارہ کبھی اس طرف کا رخ نہ
کیا جسکی وجہ سے ان دونوں خطوں کی عوام کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں
پیدا ہوئیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی نے بھی۵۱ ۱۹ میں بھارت کے الحاق
کا اعلان کیا جبکہ جبری طور پر تقسیم کی گئی ریاست کے کسی حصے کی اسمبلی کو
پوری ریاست کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ بھارت کے ۵اگست کے
فیصلہ کے بعد یہ اسمبلی ویسے بھی مزید کمزور ہو گئی۔ نام نہاد آزاد کشمیر
اسمبلی کو بھارتی مقبوضہ کشمیر اسمبلی پر اس لیے برتری حاصل تھی کہ قانون
آزادی ھند کی دفعہ سات بی۱ کے تحت پندرہ اگست ۱۹۴۷ کو برطانیہ کے ساتھ
ریاستوں کے تمام معاہدات ختم ہو گے تھے۔ اس منقسم ریاست جموں کشمیر کے
معزول مہاراجہ کو اپنی عوام کی مرضی کے بغیر بھارت کے ساتھ اور نہ ہی آزاد
کشمیر کی انقلابیحکومت کا حلیہ بگاڑ کر پاکستان کو اپنے ساتھ ریاست کے
الحاق کا فلسفہ مسلط کرنے کا حق تھا۔ اقوام متحدہ کے کردار پر بھی بہت
تنقید کی جاتی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ۲۱ اپریل ۱۹۴۸، ۱۳ اگست ۱۹۴۸،
۵ جنوری ۱۹۴۹ اور چودہ مارچ ۱۹۵۰ کی اقوام متحدہ کی قراداوں کے وقت ریاست
جموں کشمیر کی قیادت کا کیا کردار رہا؟ کیا ہماری اس وقت اور بعد میں آنے
والی قیادت نے اپنی ریاست کی جدا گانہ حیثیت کی نمائندگی کا مطالبہ کیا؟
بھارتی وفد کے ساتھ اقوام متحدہ میں جانے والے شیخ اعبداﷲ سے تو بھارت نے
تقریر کروا دی مگر ریاست کی نام نہاد عبوری انقلابی حکومت کے صدر سردار
ابرہیم خان گائے بگائے یہ الزام لگاتے رہے کہ ان کی جگہ پاکستان کے کسی
نمائندہ کو ابراہیم خان بنا کر پیش کر دیا گیا۔ اگر ایسا تھا تو اس انقلابی
حکومت کا یہ انقلابی صدر عالمی فورم پر خاموش کیوں رہا۔ وہاں احتجاج کرنے
کے بجائے حسب ضرورت اپنی عوام کے سامنے مظلوم بننے کا کیا مقصد اور وہ بھی
اس وقت جب آقا اقتدار سے بائر کرے؟ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی بھی
ایسے خطے کی عوام کو حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک الگ آزاد و خود
مختار ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے جس کے ساتھ مذہبی، نسلی ، تہذیبی و
تمدنی اور علاقائی بنیادیوں پر انسانی حقوق پامال ہوتے ہوں جبکہ ریاست جموں
کشمیر کئی صدیوں سے الگ جداگانہ حیثیت کی مالک تھی ا اور آج ہم جس ریاست کا
مطالبہ کرتے ہیں وہ وہی ریاست ہے جس کی سرحدیں ۱۹۴۷ تک قائم تھیں۔ ان
سرحدوں کے اندر مختلف مذاہب اور نسل کے لوگ بستے ہیں۔ ایک طرف آر پار کے
اقتدار پرست ریاستی وحدت کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف تقسیم ہند کے
فارمولے کے تحت ریاست کا حل چاہتے ہیں جو ریاست کو تقسیم کرتا ہے۔ اس طرح
غیر ریاستی آئین کے تحت قائم اسمبلیاں بری طرح تضادات اور ذاتی مفادات کا
شکار ہیں۔ ہمارے مسلہ کا واحد حل غیر ملکی فوج کا انخلاء ، اور ۱۹۴۷ کی
پوزیشن کی بحالی یا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا مشترکہ سیٹ اپ بنا کر
عالمی سطع پر اپنا کیس خود لڑنے کے اختیار اور آزاد کشمیر کی فوج کی بحالی
میں مضمر ہے ۔ اب ۷۳ سال پرانے حالات نہیں ہیں۔ Political Duress یعنی
سیاسی اور فوجی خوف کے سائے میں کسی بھی جگہ عوام آزادانہ طور پر اپنی رائے
کا اظہار نہیں کر سکتی اور نہ ہی آقاؤں کی گود میں ۷۳ سالوں سے پلنے والے
ریاستی نمائندے اپنی عوام اور ریاست سے مخلص ہو سکتے ہیں ۔ آزاد کشمیر فورس
کی سب سے بڑی مخالفت بھارت کی ایما پر برطانیہ نے کی تھی جس کے خاتمے کے
لیے بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ مونٹ بیٹن نے لاہور کا خصوصی دورہ کیا
تھا۔ یہ بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر فورس کے خاتمے کا مطالبہ
تو بھارت اور برطانیہ کا تھا لیکن پورا پاکستان نے کیا۔ سادہ لوح کشمیریوں
کو یہ کہا گیا کہ آزاد کشمیر فورس کو پاک آرمی میں ضم کر کے اس کے حقوق پاک
فوج کے برابر کیے گے جو آج بھی نہیں ہیں۔ اپنی سادگی پہ رونے کو جی چاہتا
ہے۔ جہاں تک آزادی پسندوں کی بات ہے اگر انہوں نے سیاسی رواداری اور دور
اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا تو جس طرح روز محشر سب سے سخت امتحان اہل علم کا
ہو گا اسی طرح تاریخ انکا احتساب کرے گی۔ تین دہائیاں قبل جب ہم میدان میں
اترے تھے تو ہمارے پاس صرف جذبہ تھا جبکہ ہماری آج کی نوجوان نسل کے پاس
وسائل اور تین دہائیوں کے ٹھوس اور واضع تجربات ہیں۔ امید ہے ہماری نوجوان
نسل بہتر فیصلے اور باصلاحیت قیادت کا انتخاب کرے گی۔
ؑ
|