دسمبر 2019 میں چین کے ووہان شہر سے شروع ہوا کورونا
وبائی مرض دنیا کی نقل وحرکت اور اقتصادیات کو کافی حد تک متاثر کرچکا ہے۔
اور اس بیماری کے خوف نے لوگوں کے چین وآرام کو چھین لیا ہے۔ ہندوستان کے
جنوب میں واقع صوبہ کیرالا میں کوود 19 سے متاثر پہلاشخص جنوری 2020 کو
سامنے آیا تھا۔ آج 11 جون کو دنیا میں تقریباً 72 لاکھ افراد اس مرض میں
مبتلا ہیں جبکہ چار لاکھ سے زیادہ افراد اس وبائی مرض کی وجہ سے مرگئے ہیں۔
امریکہ، برازیل، روس، انگلینڈ اوریورپ کے بعض ممالک کے علاوہ ہندوستان اور
سعودی عرب میں بھی یہ مرض کافی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان میں
مریضوں کی تعداد تین لاکھ کے قریب جبکہ سعودی عرب میں ایک لاکھ سے زیادہ
ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام بیماروں کو شفاء کاملہ وعاجلہ نصیب فرمائے اور پوری
دنیا کو اس مرض سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی
سختی کے ساتھ لاک ڈاؤن پر عمل کیا گیا مگر جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے شمار
اقتصادی مسائل درپیش آگئے، حکومتوں کے خزانے خالی ہونے لگے، عام لوگ بے حد
پریشان ہوگئے اور مزدور طبقہ دو وقت کھانے کا محتاج بن گیا تو دو ماہ سے
زیادہ عرصہ سے نافذ لاک ڈاؤن کو پہلی جون سے اَن لاک میں تبدیل کردیا گیا۔
ہمارے ملک میں مہلت دئے بغیر جلد بازی میں نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن پر کافی
نکتہ چینی کی جارہی ہے، مگر حکومت کا یہ فیصلہ بھی سیاست کی نظر ہوگیا ہے۔
دنیا اپنی ترقی کے منازل طے کرنے کے باوجود اب تک موجودہ کورونا وائرس کے
پھیلنے کی اصل وجہ سے ناواقف ہے اور شاید عام لوگوں کو یہ پتا بھی نہ چل
سکے کہ یہ وبائی مرض Biological ہتھیار کا ایک نمونہ ہے جو مستقبل میں ایک
طاقت دوسری طاقت کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کرسکتی ہے، یا چین کی کوئی
سازش یا خفیہ منصوبہ ہے جس سے دنیا ابھی تک ناواقف ہے، یا واقعی اللہ
تعالیٰ کا عذاب ہے؟
یہ مرض کافی پرانا ہے، مگر بعض دیگر امراض کی طرح اس کے علاج کے لئے بظاہر
کوئی ٹیبلیٹ یا ویکسین ابھی تک دستیاب نہیں ہے۔ تقریباً چھ ماہ سے دنیا کے
بڑے بڑے سائنس داں، ڈاکٹروں کی ٹیمیں اور دوائیں بنانے والی بڑی بڑی
کمپنیاں عالمی وملکی پیمانہ پر اس مرض کی دوا یا ویکسین بنانے کے لئے دن
رات کوشاں ہیں۔ وقتاً فوقتاً دوا کی ایجاد میں کامیابی کے نعرہ بھی بلند
ہونے لگتے ہیں مگر وہ دوا صرف نیوز چینلوں اور اخباروں کی زینت بن کر رہ
جاتی ہے۔ تحقیقی بات یہی ہے کہ انسان کی قوت مدافعت (Immunity) ہی اس وائرس
کو ختم کردیتی ہے، لہذا قوت مدافعت (Immunity) کو بڑھانے والی غذاؤں کا
استعمال کرنا چاہئے۔ میڈیکل نقطہ نظر سے اس وبائی مرض کی دوا یا ویکسین کے
لئے کافی وقت درکار ہے۔ مگر پھر بھی اس مرض سے حفاظت کے لئے مختلف علاج
سامنے آرہے ہیں، ان میں ایک علاج کافی حد تک مشترک بھی ہے اور وہ صبح وشام
گرم پانی پینا ہے تاکہ گرم پانی کی وجہ سے وائرس حلق میں زیادہ دیر تک نہ
رک سکے۔ اس وبائی مرض سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے البتہ فکر مند ضرور ہونا
چاہئے جس کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے ہی دنیاوی مشاغل میں
مصروف رہیں، اور ضرورت کے مطابق ہی گھر سے باہر نکلیں۔
وہ ادارے اور حکومتیں جو پہلے لاک ڈاؤن کے حق میں تھے اب وہی یہ کہنے پر
مجبور ہیں کہ اب ہمیں اس بیماری کے ساتھ ہی جینا ہوگا۔ چنانچہ اس مرض میں
مبتلا افراد اور مرنے والوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہونے کے باوجود اب
وہی ادارے اور حکومتیں شراب کی دکانیں، داخلی پروازیں، ریل گاڑیاں، بسیں
اور حتی کے بازاروں کو کھولنے کے اعلانات کررہے ہیں۔ اب چونکہ ہمیں اس مرض
کے ساتھ ہی دنیا میں رہنا ہے تو دنیا میں آئی اس مصیبت کے وقت ہمیں چاہئے
کہ اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے دیگر تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ آخری نبی
حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیمات کے مطابق کلونجی کا استعمال شروع کردیں۔ اللہ
تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ نہ صرف ہم اپنی ذات کو بلکہ ہزاروں
انسانوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ آج سے تقریباً 1400 سال قبل
تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: کلونجی استعمال کیا کرو
کیونکہ اس میں موت کے سوا ہر بیماری کے لئے شفا ہے۔ پوری انسانیت کے نبی
حضرت محمد مصطفیﷺ کا مذکورہ یہ فرمان بخاری ومسلم کے علاوہ حدیث کی متعدد
کتابوں میں موجود ہے۔ اور پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ
نے کلونجی کے استعمال کی امت کو بار بار ترغیب دی ہے۔ موجودہ دور کے سائنس
داں حضرات بھی کلونجی کے بے شمار فوائد تسلیم کرتے ہیں بلکہ بے شمار دوائیں
آج بھی کلونجی سے تیار کی جاتی ہیں۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ روزانہ صبح کلونجی
کے چند دانے (سات یا پانچ) منہ میں ڈال کر چاب لیں۔ شہد کے ساتھ کلونجی کے
استعمال کی صورت میں فوائد کئی گنا زیادہ ہوجائیں گے کیونکہ حضور اکرم ﷺنے
ارشاد فرمایا: دو باعثِ شفاء چیزوں کو لازم پکڑ لو۔ شہد اور قرآن کریم۔
حضور اکرم ﷺ بھی شہد کا عموماً استعمال فرمایا کرتے تھے۔
اس کے ساتھ ہمیں ہر وقت خاص کر ایسے مصیبت زدہ حالات میں اللہ تعالیٰ کی
طرف رجوع کرنا چاہئے، اپنے گناہوں سے معافی کے ساتھ اللہ کے احکام پر
پابندی سے عمل کرنا چاہئے۔ قرآن کریم میں بھی حالات آنے کے وقت صبر اور
نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن وحدیث میں نماز
پڑھنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ ہمیں اس بیماری سے بچنے کے لئے اسباب
اختیار کرتے ہوئے مساجد کو ویران ہونے سے بچانا ہے۔ حکومت کی جانب سے بیک
وقت صرف پانچ افراد کو نماز بجماعت ادا کرنے کی اجازت دینے پر دارالعلوم
دیوبند اورجمعیت علماء ہند نے اپنا اختلاف ظاہر کرکے اس تعداد کو کسی حد تک
بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بہرحال کچھ حضرات ضرور مسجد میں نماز بجماعت ادا
کریں۔ مسجد کے قریب دالان یا مدرسہ وغیرہ میں دوسری اور تیسری جماعت کی
جاسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں ضرورت کے پیش نظر محراب سے ہٹ کر مسجد میں بھی
دوسری جماعت کرنے کی گنجائش ہے۔ جو حضرات مسجد نہ جاسکیں وہ گھروں میں رہ
کر بھی نمازوں کا اہتمام کریں۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض ہمارے بھائی مصیبت
کی اس گھڑی میں بھی نماز کی ادائیگی نہیں کررہے ہیں۔
ایک اہم درخواست مالدار اور حیثیت والے حضرات سے ہے کہ وہ اس مصیبت کے وقت
غریبوں کی حتی الامکان مدد کریں، ضروریات زندگی کا سامان خرید کر ان کے گھر
تک پہنچانے کا انتظام کریں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ رسول
اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور
تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (بخاری) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسکین اور
بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی
طرح ہے۔ (بخاری،مسلم)
اس وبائی مرض کے خاتمہ کے لئے دعاؤں کے ساتھ ہمیں سچے دل سے توبہ بھی کرنی
چاہئے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اللہ کے
حضور سچی توبہ کرو۔ کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیاں تم سے
جھاڑ دے، اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کردے، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
(سورۃ التحریم8) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے کہا کہ وہ سچی
توبہ کریں۔ سچی توبہ کے لیے ضروری ہے کہ پہلے گناہ سے باہر آئیں، اس گناہ
پر شرمندہ بھی ہوں اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ بھی ہو۔ لیکن اگر توبہ
کے بعد پھر گناہ دوبارہ ہوجائے تب بھی ہمیں چاہئے کہ ہم دوبارہ سچی توبہ
کریں۔ ہمیں گناہوں سے بچ کر ہی زندگی گزارنی چاہئے، لیکن اگر ایک ہی گناہ
بار بار ہوجائے تب بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اللہ
تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہئے۔ ہاں یہ فکر ضرور کریں کہ اس حال میں
موت کا فرشتہ ہماری روح نکالنے کے لیے نہ آئے کہ ہم کسی بڑے گناہ میں مبتلا
ہوں اور معافی مانگنے کا موقع بھی نہ مل سکے۔
جب ہمارا یہ یقین ہے کہ حالات سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتے ہیں، اور
وہی مشکل کشا، حاجت روا، بگڑی بنانے والا اور صحت دینے والا ہے، لہذا ہم
دعاؤں کا خاص اہتمام رکھیں کیونکہ دعا ایک اہم عبادت بھی ہے۔ ہمیں دُعا میں
ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم مصیبتوں
اور بیماریوں کے دور ہونے کے لئے بہت سی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ
نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس
لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے خالق ومالک کے سامنے خوب دعائیں کریں کہ اللہ
تعالیٰ پوری دنیا سے اس بیماری کو دور فرمائے، آمین۔
|