کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں لاکھ لوگوں کی جانیں
لیں وہاں ہزاروں داستانیں کو بھی جنم دیا ۔سوشل میڈیا ، سیاستدانوں سمیت
اتائی حکیموں ،ڈاکٹروں اور نام نہاد تجزیئے نگاروں نے جھوٹی شہریت حاصل
کرنے کیلئے پوسٹیں شیئر کیں ۔اور سرکاری ہسپتالوں کے عملے کی جانب سے غیر
ذمہ داری نے ان فرضی داستانوں کی تصدیق کردی۔ آج سوشل میڈیا سمیت گلی محلوں
میں سرکاری ہسپتالوں غریبوں کا قبرستاں کہا جارہاہے لیکن حکومت اور اپوزیشن
ان تمام معاملے کو نظر انداز کررہی ہے ۔ اس بات پر کب اور کون نوٹس لے گا۔
تاریخی لفظ کچھ یوں ہے ۔
بقول شاعر ’’ ساغر‘‘
’’میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے۔۔ میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا
یاد نہیں‘‘
ڈاکٹروں اور نرسوں کا کام سیاست کرنا نہیں دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے،
ڈاکٹروں اور نرسوں کا سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ڈاکٹروں اور
نرسوں کا کام دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے اور جن ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور
نرسیں مسیحائی نہیں بلکہ سیاست کرتے ہیں ان کے خلاف جنگ کریں گے، عوام کو
ڈاکٹروں کے احتجاج کی نہیں علاج کی ضرورت ہے۔یہ لفظ ہے قومی اسمبلی کے
اپوزیشن اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب صدرمسلم لیگ نون میاں شہبازشریف نے لاہور
میں کڈنی ہسپتال ملتان کی انتظامی باگ ڈور نجی تنظیم کے حوالے کرنے کی
تقریب سے خطاب میں اداکیے اور کہا کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کو صوبائی
حکومت فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن یہ بد گمانی پھیلانا درست نہیں کہ
شہباز شریف نے پرائیوٹائزیشن کا عمل شروع کر دیا ہے۔ عوام ایسی سیاست رد
کرتے ہیں جہاں ان کی جانیں اس کی نذر ہو جائیں،لوگ ہسپتال جاتے ہیں لیکن ان
کا سامنا ہڑتالوں اور سیاست سے ہوتا ہے،20کروڑ عوام ایسی سیاست کو رد کرتے
ہیں جہاں ان کی جانیں اس کی نظر ہو جائیں۔ ہماری اولین ترجیح عوام کو زیادہ
سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنا اور ان کے مستقبل کو سنوارنا ہے۔
’’ میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو ۔۔ہم سے کہتے ہیں وہی عہد
وفا یاد نہیں‘‘
چندماہ قبل موجودصوبائی وزیر صحت اور تحریک انصاف کی رہنماء ڈاکٹریاسمین
راشد نے بھی ایک پیغام شیئر کیا ۔ ڈاکٹری پیغمبرانہ پیشہ ، اگرخلوص نیت ،
ثواب اور انسانیت کی خدمت کی غرض سے کیا جائے ، ڈاکٹرکومریضوں کابہترین
علاج معالجہ کرکے اپنامسیحائی کا کردار ادا کرنا چاہئے،مریضوں کاخیال
رکھناڈاکٹرزکی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے،ڈاکٹرزکی معمولی غفلت کسی
مریض کی موت کاباعث بن سکتی ہے۔
’’جسے اﷲ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، پردے پر وینا ملک نے
قران کا پیغام شیئرکیا ، احمقوں کی طرف سے بے جا تنقید جاری‘‘
پاکستان میں ڈاکٹرزکی غفلت کی وجہ سے مریض کی جان خطرے میں آنے کے کئی
واقعات سامنے آتے ہیں،مریض کے علاج معالجہ سے پہلے ہسٹری لیناانتہائی اہم
عمل ہوتاہے،فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرناقابل
فخرہے،انسان کیلئے ہرآنے والا نیادن سیکھنے کاموقع دیتاہے وہ اس سلسلے میں
فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں ورلڈپیشنٹ سیفٹی ڈے کے حوالہ سے منعقدہ
سیمینار سے خطاب کررہی تھیں۔
’’زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے۔۔جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ‘‘
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاو کی وجہ سے دنیا کے 4
ارب سے زیادہ انسان تشویش اور خوف میں مبتلا ہیں۔ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا
ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک دنیا میں سوئے ہوئے تھے پھر اچانک ایک اور
دنیا میں آنکھ کھولی ہے۔ ہالی اور بالی وڈ کی رونقیں غائب ہوگئی ہیں۔ دنیا
کے حسن پر وائرس نے ایک بڑا حملہ کر دیا ہے اور دیوار چین تک محفوظ سرحد
ثابت نہیں ہو رہی۔ پیار و محبت اور میل ملاپ بند ہوگیا ہے۔ انسان کو پیسے
اور اپنی طاقت پر جو ناز تھا وہ فی الحال کورونا وائرس اپنے ساتھ بہا کر لے
گیا ہے۔ برآمدوں اور ہسپتالوں کے رستوں پر پڑے انسان مہذب معاشرے کا منہ
چڑا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ہسپتال صرف 30 فیصد متاثرین کو علاج
کیلئے قبول کر رہے ہیں تاہم لواحقین ان میں سے زیادہ تر کے ساتھ واپس گھر
نہیں لوٹتے ہیں۔ یہ کورونا انسانیت اور اسکی آج کی تلخ حقیقت ہے۔ انسان کو
زندہ رہنے کا حق ہر مذہب، تہذ یب اور دور میں ملتا رہا ہے۔ انسانی زندگی
اور موت وہ مفاد ہیں جو کم ازکم انسانیت کے لئے ایک جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔
کورونا وائرس کا سب سے المناک انسانی پہلو اس بنیادی حق کی نفی ہے۔ چار
ستون مل کر ایک انسان کے تصور کو مکمل کرتے ہیں جو جسمانی، دماغی، جذباتی
اور روحانی شکل میں سمجھے اور پرکھے جاتے ہیں۔ کورونا وائرس ان سب پر بیک
وقت حملہ آور ہوا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھر میں حکومت اور اپوزیشن کے ااراکین کے
ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے حوالے سے خودساختہ تجزیئے اور بیانات اور سرکاری
ہسپتالوں میں مریضوں کے لواحقین کے ساتھ ناوراسلوک انسدادکورونا اقدامات کے
لئے نیک شگون نہیں ۔ بلکہ میں کئی نئے بحرانوں کو دستک دے رہے ہیں۔ ڈاکٹروں
، نرسوں سمیت پیرامیڈیکل سٹاف اور انسدادکورونا مہم میں شامل تمام اداروں
کے افسروں اور ملازمین کے لئے نیک جذبات میں کوئی شک نہیں۔ انسداد کورونا
مہم کو متاثر کرنے والے شرپسند عناصر سمیت تمام غیر ذمہ دار افراد کے
بیانات پر حکومت پابندی عائد کرے ۔سرکاری ہسپتالوں کے عملے کے غیر مناسب
طریقہ اورکورونا کی آڑ میں شہری کو خوف اور بد امنی کا پیغام دینے والوں کے
سخت ترین کاروائی کریں ۔ نجی ہسپتال کے مالکان سرکاری ڈاکٹروں کے خلاف
ہیلتھ ایمرجنسی قوانین تحت سخت سے سخت کاروائی کریں ۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں
جب سرکاری ہسپتال کو غریبوں کا قبرستان کہا جائے گا ۔تاریخ گواہ ہے کہ کھیل
تو ہرروزہوتے رہے ہیں ۔ لیکن کپتان اور ٹیم نئی ہوتی ہے ۔
|