صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا ایک نجی ٹی وی کے
پروگرام میں یہ کہنا ہی تھا کہ اس جیسی (اہل لاہور) جاہل قوم دنیا میں کہیں
نہیں ہو گی کہ سوشل میڈیا، اپوزیشن اور ناقدین نے اپنی آستینیں اوپر چڑھا
لی اور محترمہ وزیر صحت کو آڑے ہاتھوں لے لیا. بلکہ یہی نہیں صوبائی اسمبلی
میں قرارداد بھی جمع کروا دی گئی کہ محترمہ لاہور کے باسیوں سے اپنے کہے کی
معافی مانگیں ورنہ اپنا استعفیٰ پیش کر دیں.
ایک لمحہ کو آپ سوچیں.... مگر ایک منٹ... اگر آپ کا تعلق یا ذاتی وابستگی
کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے تو براہ مہربانی سوچنے سے پہلے اس وابستگی کو
لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دیجیے گا تاکہ عقل کا دائرہ وسیع ہو سکے.
جہاں روز خبریں رپورٹ ہو رہی ہوں کہ ملک میں کرونا کیسز اور ان کی اموات
میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، کیا وہاں حکومتی وزیر کا اور
خاص طور پر صحت کے وزیر کا پریشان اور نالاں ہونا نہیں بنتا...؟ جب حکومت
اپنی منطق اور سوچ (قطع نظر اس کے کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط) کے
مطابق صحت اور معیشت دونوں کو بچانے کے لئے کوشاں ہوں اور عوام سے منت
سماجت پر اتر آئے.... جبکہ عوام ڈھیٹ بن جائے اور ایس او پیز کو ہوا میں
اڑا دے تو کیا یہ ایوان میں بیٹھنے والوں اور حکومتی وزرا کے لئے پریشان کن
نہیں ہو گا؟ راہ چلتے بھی آپ کو ایسے باشعور افراد نظر آئیں گے جنھوں نے
ماسک اپنی ناک اور ہونٹوں سے نیچے لگایا ہو گا اور سوشل میڈیا پر وائرل
ہونے والی تصویر میں تو ان باشعور صاحب نے حد ہی کر دی جنھوں نے ماسک سر کے
پچھلے حصے پر باندھا ہوا تھا. ایسے میں جاہل کا خطاب نہیں ملے گا تو اور
کیا ملے گا؟
اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہم واقعی جاہلوں جیسا ہی رد عمل
دے رہے ہیں. ملک میں تین ہزار سے زائد اموات ہو چکی اور ڈیڑھ لاکھ سے اوپر
مریض سامنے آ چکے ہیں جبکہ عالمی ماہرین کے آکڑے اس سے کہیں زیادہ خطرناک
ہیں. ایسے میں ہم میں سے بہت سے ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر پا رہے کہ
دنیا میں کرونا حقیقت ہے یا فسانہ.... ہر کسی کی ایک الگ منطق اور سوچ ہے
جو بڑے وثوق کے ساتھ کرونا پر اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں پر ایسا مضحکہ
خیز تبصرہ کرتی ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین اپنی انگلیاں دانتوں میں
دبا کر بیٹھ گئے اور ورطہ حیرت میں گرفتار ہو گئے کہ اکیسویں صدی میں بھی
دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے باسی ایسی باشعور سوچ رکھتے ہیں تو صاحب ایسے
میں اگر لاہور کے باسی نے خود کو بھی جاہل کہہ دیا تو کونسی قیامت برپا ہو
گئ ہے؟
|