کوروناوائرس ہر طرف ’’ موت کا خوف ‘‘رقص کرتے نظر
آتا ہے۔ شروع شروع میں کچھ لوگ ’’ کوروناوائرس ‘‘ کو ڈھونگ اور مزاق کے
علاوہ کچھ نہ سمجھتے تھے۔ پھر دیکھا دیکھی ایک دو نہیں بلکہ گنتی کے دو چار
ملک چھوڑ کردنیا بھر کے سبھی ممالک ’’ کوروناوائرس ‘‘ کی لپیٹ میں آتے گئے۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام ممالک میں لوگ بے موت ’’ کوروناوائرس ‘‘ میں
مبتلا ہوکر موت کو سینے لگانے لگے!
کرونا وائرس نظر نہ آنے والی ایک ایسی وبائی بیماری ہے ۔ جس نے جسمانی طور
پر کم مگر دماغی طور پر ہر شخص کو مفلوج کر دیا ہے۔وہ ہسپتال جہاں لوگوں کا
پختہ اعتماد ہوتا تھاکہ ’’ بیماروں کو شفاء ملتی ہے اب یہ افواہیں پھیلائیں
جا رہی ہے کہ ہسپتال جانے والوں کو ’’ ڈاکٹرز ٹیکہ لگا کر مار رہے ہیں ‘‘
یہ عقل اور ایمان کے بالکل خلاف ہے۔ ڈاکٹرز جو حقیقی مسیحاء ہیں وہ ایسا
کیوں کریں گئے؟ کہانی بنانے والے ’’ سوشل میڈیا ‘‘ پر کہتے ہوئے تھکتے نہیں
کہ ڈاکٹرز کو بندے مارنے کے پیسے ملتے ہیں ! مرنے والوں کے نام پر کون پیسے
دیتا ہے ؟ وہ بھی ( یورو، پونڈز اور ڈالرز ) ہزاروں میں؟ ایسا بالکل کچھ
نہیں ۔ یہ من گھڑت کہانی ہے !
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے ؟
سوشل میڈیا پر ایک نہیں بہت سارے ویڈیوز نظر سے گزرتے ہیں کہ عام نارمل
آدمی ہسپتال گیا ، ہسپتال انتظامیہ نے کہا اس کو داخل ( طبی سہولیات ) کرتے
ہیں پہلے اس کو Declair کریں کہ ’’ کورونا‘‘ ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے یہی
وہ چیز ہے جو ہسپتالوں کے خلاف شک و شہبات پیدا کر رہی ہے۔
کچھ ویڈیوز میں لواحقین الزامات لگاتے نظر آتے ہیں کہ ہمارا ’’ مریض اچھا
خاصہ تھا انہوں نے ٹیکہ لگا کر مار دیا ہے وہ بھی پانچ دس منٹ کے وقفہ سے!
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مرنے والے کی ’’ کوروناوائرس رپورٹ بھی
منفی آجاتی ہے۔ مگر دکھ کا مقام یہ ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ ’’ موت کا سبب
‘‘ بننے والے عوامل کو سامنے نہیں لاتی جس وجہ سے شک و شہبات کا پیدا ہونا
قدرتی عمل ہے۔ موت کی جو بھی وجہ ہو وہ فوراً لوحقین کو بتائی بلکہ Death
Certificate پر درج کر کے دی جانی چاہیے تاکہ مسیحاؤں کو قصاب کوئی نہ کہہ
سکے !
کوروناوائرس کے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ اس تین درجات یا کیفیات ہیں ۔
اول:۔ ہلکہ کورونا۔ ، دوئم :۔ درمیانہ درجہ ۔، سوئم :۔ شدید درجہ میں
کورونا
اول:۔ ہلکہ کورونا-کوئی بخار نہیں یا ہلکہ بخار 99.5F تک فلُو ہلکی کھانسی
ایک سے سات دن میں ختم مگر کمزوری ضرور ہو گی اور سونگھنے کی حس ختم
دوئم :۔ درمیانہ درجہ ۔ —— زیادہ تیز بخارF 100-100.5F کھانسی زیادہ کمزوری
بہت زیادہ بھوک ختم سونگھنے کی حس ختم چار پانچ بڑے بڑے موشن
یہ بھی ایک سے سات یا دس دن میں ٹھیک ہو جائے گا تھوڑا سانس کی تکلیف بھی
ہو سکتی ہے مگر ایسی نہیں جیسے دمہ والے کو ہو
سوئم :۔ شدید درجہ —-بہت تیز بخارF 101-104F تک, شدید کھانسی, دمہ کی طرح
سانس کا پھولنا, شدید کمزوری, کھانے کو دیکھنا بھی نہ چاہے
جو لوگ پہلی اور دوسری حالت میں مبتلا ہوں گے ان کی صحت کے 80-90 % امید ہے
اور یہ اﷲ کا کرم ہے امریکہ میں بھی 85% لوگ بچ گئے
تیسری حالت سب سے خطرناک ہے اور ویسے تو اﷲ ہی بچاتا ہے اور مارتا ہے اس
حالت میں صرف 50%امید ہے یہ بھی اس رب کا کرم ہے یہ صرف 10-15% لوگوں کو
ہوتی ہے یہ پورے 14 دن تک رہے گی اس میں آخر دن فیصلہ کن ہوتے ہیں یا تو
مرض صحیح ہو جاتا ہے یا بہت زیادہ خراب۔دنیا بھر کے سینئر ڈاکٹرز اس نتیجہ
پر پہنچے ہیں کہ کوروناوائرس کے ٹیسٹ ضروری نہیں ۔
اگر علامات پیدا ہو جائیں تو ٹیسٹ کے نتائج جو ملتے ہیں وہ خون کے نمونے سے
30 فیصد، اور اگر ناک سے مواد لیا جائے تو 70 فیصد رزلٹ ملتے ہیں۔ آپ نے
اکثر سُنا ہوگا ایک دفعہ ٹیسٹ پازیٹو تو دوسری دفعہ نیگٹو ہوتا ہے۔ مزے کی
بات علاج میں ٹیسٹ رپورٹ مثبت منفی کی بنیاد پر علاج نہیں بلکہ وہ علامات
جو پیدا ہوں ان کے حساب سے علاج ہوتا ہے۔ ایک اور بات عرض کروں کہ اگر کسی
کا ’’ کوروناوائرس + پازیٹو ہے اور چودہ دن (کم و بیش ) علاج کے بعد علامت
ختم یعنی بندہ ٹھیک ہوگیا تو لازمی نہیں کہ اس کا ’’ کوروناوائرس ٹیسٹ
رپورٹ بھی نیگیٹو ‘‘ ہو رپورٹ پازیٹیو بھی ہو سکتی ہے مگر ایسا مریض جس کی
علامت ٹھیک ہوگئی ہے اب وہ نارمل ہے ۔ ایسے لوگ کوروناکو آگئے پھیلانے کا
سبب بھی نہیں بنتے اور نہ ہی ان میں کوئی علامت ہوتی ہے مگر کورونا رپورٹ
پازیٹو ہوتی ہے ایسا عموماً ایک ماہ سے ڈیڈھ ماہ تک ہوتا ہے کیونکہ
کوروناوائرس کے ٹکڑے جسم کے اندر ہوتے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر ایک بحث ’’ کوروناوائرس جانوروں پرندوں کا وائرس ہے یا لیب
میں انسانوں کا بنایا ہوا؟ چائنا نے اپنی لیب میں تیار کیا یا امریکہ
اسرائیل اور بھارت کی سازش تھی؟ دنیا نے دیکھا جب چائنا میں کورونا نے
تباہی مچاہی تھی یورپ اور امریکہ خوش تھے۔ انہوں نے اس کی ویکسین اور علاج
اپنے پاس رکھا ہوا تھاپھر کیا ہوا؟ چائنا نے ان کے خواب چکنا چور کیسے کر
دئیے ؟!
کیا یورپ امریکہ میں تباہی مچانے والہ اور چین میں قیامت ڈھانے والہ
کوروناوائرس ایک نہیں دو ہیں !
چائنا نے کوروناوائرس کو’’ ڈی کوڈنگ ‘‘ کر دیا جس سے پہلے سے موجود ویکسین
اور علاج امریکہ اور یورپ کا موثر نہ رہا اور دنیا بے موت مرنے لگی!اس جیسی
ملتی کہانیاں ہمیں آئے روز سوشل میڈیا پر نظر آتیں ہیں ۔ یہ حقیقت ہے یا
افسانہ اس سے ہٹ کر ہمیں سسکتی تڑپتی دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوہ کرنے
کا سوچنا ہوگا۔
آخری بات ! اگر آپ یا آپ کے جاننے والے ابھی تک ’’ کوروناوائرس ‘‘ سے بچے
ہوئے ہیں تو اس کو ماسک ، سنی ٹائیزر ، گلوز یا احتیاط نہ سمجھیں بلکہ ’’
قدرت کاملہ ‘‘ کا کرم و فضل سمجھے کیونکہ احتیاطی تدابیریں بتانے اور ان پر
سختی سے عملدرآمد کرنے والے معالجین بھی ’’ کوروناوائرس ‘‘ کے شکار سے بچ
نہ سکے اور جام شہادت نوش فرما رہیں ہیں ۔ اس کا یہی بھی مطلب نہیں آپ
احتیاطی تدبیریں استعمال نہ کریں ، احتیاطی تدبیریں استعمال نہ کرنے کا
مطلب خودکشی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر حال میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا
کیا جائے۔اور تندستی ہزار نعمت سمجھتے ہوئے عبادت اﷲ تعالیٰ کی جائے اور
اطاعت محسن انسانیت نبی کریم ﷺ کی جائے اور خدمت ِ انسانیت کی جائے ۔تاکہ
کوروناوائرس کے خلاف ہمارا مدافعتی نظام متحرک رہے۔ جب تک ہمارامدافعتی
نظام متحرک رہے گا تب تک کوروناوائرس سمیت کسی MICRO- ORGANISMS کا اثر
نہیں ہوگا۔
|