بیشترہم وطنوں کا خیال ہے کہ پیش کردہ وفاقی بجٹ طوطا
مینا کی کہانی ہے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا حکومت اربوں، کھربوں کی
باتیں کرتی ہے جبکہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کا گذاراکرنا مشکل ہو گیا ہے
سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا گیا لیکن نجی شعبے میں کام
کرنے والے ملازمین کی حالت انتہائی ابترہے ان کے اہل ِ خانہ س اندا زسے
مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں وہی جانتے ہیں مثلاً ایک شخص کی 25ہزار روپے
تنخواہ ہے اور میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہو حکومت بتائے وفاقی بجٹ
میں اس طبقے کے لئے کیا ریلیف دیا گیا ہے جبکہ سرکاری محکمے میں ڈیلی ویجز
ملازم کی اتنی تنخواہ نہیں بنتی کہ گھر کے بل پورے ہو سکیں جبکہ کچن کے
اخراجات اس کے علاوہ ہیں اس لئے عام آدمی کی پختہ رائے ہے کہ بجٹ صرف
اشرافیہ کے لئے آسانیاں لے کر آتا ہے جبکہ غریبوں پر مزید بوجھ بڑھ جاتا ہے
حکومت اگر کوئی ریلیف دینا بھی چاہتی ہے تو کسی بھی معاملہ پر کوئی گرپ نہ
ہونے کے باعث ایک ہفتے بعد ہی اکثر اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اب عام
آدمی کیا کرے کوئی اس کا حل نہیں جانتا ؟ اسی لئے کہاجاسکتاہے کہ بجٹ صرف
الفاظ کا ہیر پھیر ہوتاہے عوام کئی دہائیوں سے بجٹ تقریر سن رہی ہے لیکن اس
کا غریب کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا حکمران عوام کو بتا سکتے ہیں کہ
اشیائے خوردونوش میں کمی کے حوالے سے کیاکیا گیا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح
موجودہ حکمرانوں نے بھی بری طرح مایوس کیا ہے ایک اور خاص بات یہ ہے کہ
حکومت نے کرونا سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے بجٹ میں کوئی حکمت ِ
عملی وضح نہیں کی بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کوئی اقدام
نہیں کئے اب اگریہ کہاجائے کہ بجٹ 2020-21 انتہائی متوازن اور عوام دوست ہے
بڑی عجیب بات ہے اس لئے یہ نیا بجٹ بنایا جائے جو کہ عوامی بجٹ ہو جو
کورونا سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹے کی صلاحیت رکھتا ہو یہ درحقیقت غیر
حقیقی اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہے جس میں سے عوام کو پریشانیوں کے سواکچھ
نہیں ملے گا بجٹ میں خواتین کی ترقی کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ‘حکمرانوں
کو عوام سے کوئی سروکار نہیں، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ ہونے سے
لوگوں کی بہت دل شکنی ہوئی ہے کچھ ماہرین کی رائے یہ بھی ہے کہ انہیں بجٹ
کے حقائق پر مبنی ہونے پر شک ہے اگر بجٹ کے اہداف پورے نہ ہوئے تو عوام کو
ریلیف نہیں ملے گا اس لئے آئندہ مالی سال کا بجٹ پی ٹی آئی کے منشور کے
برعکس ہے ہے جو غیر حقیقت پسندانہ ہے بجٹ تجا ویز مایوس کن ہیں۔ایف بی آر
کے لئے جو ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے اس میں سے صوبوں کو ادائیگی کے
بعد وفاق دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پوری نہیں کر سکتا ہے۔حکو مت نے نان
ٹیکس آمدنی بڑھانے کا کہا ہے اس کا مطلب ہے کہ دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ
پٹرولیم لیوی بڑھے گی تاجررہنماؤں نے نئے ٹیکس عائد نہ کرنے اور پہلے سے
عائد ٹیکسوں میں کمی کا فیصلہ خوش آئند قرار دے دیا ہے اگرچہ حکومت نے ٹیکس
فری بجٹ کے ساتھ چند اور اچھے اقدامات اٹھائے ہیں لیکن موجودہ صورتحال کے
پیش نظر مارک اپ کی شرح کم کرکے چار تا پانچ فیصد کی شرح پر لانا ضروری ہے۔
بر آمدات بڑھانے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کسی حصوصی
پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ نقصان دہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز قومی خزانے
پر بوجھ ہیں ، ان کے متعلق پالیسی وفاقی بجٹ کا حصہ ہونا چاہیے تھی۔ خام
مال پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی، ٹیرف ریشنلائزیشن ، مینوفیکچررز کی طرف سے خام
مال اور مشینری کی د رآمد پر کسٹمز ڈیوٹیوں کا خاتمہ اچھے اقدامات ہیں جبکہ
وفاقی بجٹ میں چھوٹے کاروبار کو نظرانداز کردیا گیاہے۔کروناکے تناظر میں
شناختی کارڈ کی شرط مکمل طورپرختم کی جانی چاہیے تھی۔چھوٹے تاجروں کے لئے
آسان قرضہ سکیم کا اجرا بھی نہیں کیا گیا۔ناقص حکومتی پالیسیوں نے 51 ارب
ڈالر کی معیشت سکیڑ دی۔ دراصل حکومت کرونا کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے۔اگر
کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا تو بجٹ خسارہ 7 فیصد سے کم ہوکر 4.4 فیصد کیسے
کریں گے۔ حکومت فائلر اور نان فائلر کا چکر چلا کر بری الزمہ نہیں
ہوسکتی۔تعمیراتی شعبے کی طرز پر تمام سیکٹرز کو سہولت دی جانی چاہئے۔اس کے
برعکس حکومتی شخصیات کا کہناہے حکومت نے بجٹ میں بہت ریلیف دینے کی کوشش کی
ہے اور کرونا کے حوالے سے مسائل کو بھی مدنظر رکھا ہے یہ ٹھیک ہے کہ اس
مرتبہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا مگر ملک اس وقت
بہت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اس لئے عوام کو حکومت کااحساس کرنا
ہوگائندہ مالی سال کا بجٹ حقائق پر مبنی نہیں بجٹ میں عوام کو ریلیف نہیں
دیا گیا حکومت نے پیٹرولیم پر بجٹ سے قبل عوام کو 70ارب کا ریلیف دیا ہے۔
کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹیاں کم کی گئی ہیں یہ کاروبار دوست بجٹ ہے جس میں
کوئی نیا ٹیکس نہ لگانا خوش آئند ہے۔ بچوں کی درآمدی اشیاء پر مراعات دینا
اچھا اقدام ہے۔ ٹیکس شرح کم ہونا کاروباری افراد بہت بڑا ریلیف ہے جبکہ
کپڑے،جوتے،سیمنٹ،مقامی موبائل فون اور میڈان پاکستان موٹرسائیکل سستے ہونے
سے بھی عوام کی مشکلات میں کمی آنے کی توقع ہے موجودہ حالات میں اس سے
بہتروفاقی بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا ۔
|