سپریم کورٹ لحظہ لحظہ کورونا کی بابت بیدار ہورہا ہے ۔ کل
تک اس کو کورونا کے ساتھ جینے والوں کا خیال نہیں تھااب مرنے والے والوں کی
فکر ستارہی ہے۔ کورونا سے مرنے والوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک
پرعدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کہا افسوس جتایا لاشیں کوڑے کے
ڈھیر پر مل رہی ہیں، انہیں کوڑے ڈھونے والی گاڑیوں پر رکھ کر لے جایا جارہا
ہے یا پھرانہیں انتہائی توہین آمیز طریقے سے 'ٹھکانے لگادیا‘ جارہا ہے۔
دہلی کے ایک سرکاری ہسپتال میں لابی اور ویٹنگ ایریا میں لاشیں پڑی ہوئی
تھیں یا مریضوں کے پاس ہی لاشیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک 82 سالہ کووڈ مریضہ کی
لاش آٹھ دن کے بعد ہسپتال کے ٹوائلٹ میں پائی گئی جبکہ اسپتال والوں کا
کہنا تھا مریضہ بھاگ گئی اور پولس نے اس کی تائید کردی تھی۔ عدالت نے آخری
رسومات میں رشتے داروں عدم شمولیت اور لاشوں کے تبدیلی پر تشویش کا اظہار
کیا ۔
عدالت کی بیداری قابلِ تعریف لیکن تارکین وطن مزدوروں کے تعلق سے عدالت
عظمیٰ کے رویہ کو دستاویز کے طور پر محفوظ کرلینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ
نسلوں کو پتہ چلے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کی آڑ میں کیسے کیسے مظالم کیے
گئے اور اس میں عدلیہ نےکیسا گھناونا کردار ادا کیا ۔ لاک ڈاون کے فوراً
بعد 31مارچ کو ذرائع ابلاغ پیدل مزدوروں کی تصاویر سے اٹا پڑا تھا مگر
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں
ڈھٹائی سے کہہ دیا کوئی مزدور سڑک پر نہیں ہے اور عدالت عظمیٰ نے اس خلافِ
حقیقت کے دعویٰ کو آنکھ موند کر قبول کرلیا ۔ جب حکومت کی جانب سے پیدل
چلنے والوں کو پچھلی مرتبہ کھانا پانی اور تحفظ دینے کا حکم دینے کی
درخواست کی گئی تو عدالت نے صاف کہہ دیا کہ یہ سرکار کا کام ہے اس بابت وہ
کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ کیسا دوغلا پن ہے کہ پیدل چلنے والوں کو حکومت کے رحم
و کرم پر چھوڑ کر ہوائی جہاز میں اڑنے والے مسافروں کی خاطر سرکار کا ڈانٹا
جائے ۔ مزدوروں کے بارے میں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ
کورٹ ان کی فریاد کو کیوں سنے ؟ مگر ہوائی جہاز کے مسافروں کا قریب قریب
بیٹھنا تک گوارہ نہیں کیا جاتا۔ کاش کے عدالت عظمی نے ٹرک میں مویشیوں کی
مانند بھرے ہوئے لوگوں کے کرب کو محسوس کیا ہوتا؟ ان کی حالت زار پر خالد
شیرازی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
میں کسی کے عدل کی ٹوٹی ہوئی زنجیر ہوں
مجھ پہ جو بیتی ہے دنیا کو بتاؤں کس طرح
اورنگ آباد سانحہ کے بعد ایک اور مفاد عامہ کا مقدمہ دائر کیا گیا جس میں
مہاجر مزدوروں کو بلاشرط مفت میں گھروں تک پہنچانے کا حکم دینے کی گذارش کی
گئی۔ اس پر عدالت نے کہہ دیا مرکزی اور صوبائی حکومتیں ضروری اقدامات کررہی
ہیں اس لیے مقدمہ کو باقی رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ریل پٹریوں پر سونے
والوں کو کون روک سکتا ہے؟ اس کے بعد چلچلاتی دھوپ میں ۲۲ مزدوروں کے ہلاک
ہونے کی خبر آئی اس پر پی آئی ایل کے ذریعہ توجہ دلائی گئی تو عدالت نے
حکومت کی دلیل دوہراتے ہوئے کہا یہ اس افواہ کے خوف سے ہورہا ہے کہ جس میں
کہا گیا لاک ڈاون تین مہینے چلے گا۔ لاک ڈاون فی الحال ڈھائی مہینے چل چکا
ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ افواہ نہیں تھی اور عوام کا اندیشہ درست تھا۔ عدالت
اگر اس وقت سرکار کے دلائل پر ہاں میں ہاں ملانے کے بجائےدیگر مسائل مثلاً
بھوک ،بیروگاری اور غربت وغیرہ پر غور کرتی آج یہ نوبت نہ آتی ۔ ایک طویل
غفلت کے بعد بیدار ہوکر مرکزی اور صوبائی حکومت کو نوٹس دینے کا جرم کرنے
والی عدالت کو کون سزا سنائے گا؟
عدالت عظمیٰ کے ذریعہ اس طرح کی سفاکی کامظاہرہ بارہا ہوتا رہا ہے۔ ہرش
مندر نے ۷ اپریل کو مفادعامہ کا مقدمہ پیش کیا اور مزدوری دینے کی بات کہی
تو قاضیٔ اعظم بوبڑے نے پوچھا کہ جب کھانا مل رہا ہے تو روپیہ کیوں چاہیے؟
اس جواب سے ایسا لگتا ہے گویا مزدور انسان نہیں مویشی ہے اور یہ سوال کیا
جارہا ہے کہ جب چارہ ڈالا جارہاہے تو اور کیا چاہیے؟ عدالت عظمی کے اندر ان
بے کس مزدوروں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کا گلاگھونٹنے کی خاطر
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے یہاں تک کہہ دیا کہ روزگار پیدا کرنے والی پی
آئی ایل کی اس دوکانداری کو ان سنگین حالات میں بند کردیا جانا چاہیے۔
مہتاجی نہیں جانتے کہ پی آئی ایل کوئی وقت گزاری کا سامان نہیں ہے۔ اس طرح
کے مشکل حالات میں ہی ان کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا اے سی میں
بیٹھ کر بغیر کسی معلومات کے مقدمہ درج کردینا قوم کی خدمت نہیں ہے جبکہ
وقت نے ثابت کردیا کہ مزدوروں کی پیروی کرنے والے عوام کی مخلصانہ خدمت
کررہے تھے اور تشار مہتا جیسے لوگ حکومت کے ایماء پر عدالت کو گمراہ کررہے
تھے۔
مقدمہ کی سماعت کے دوران مؤقر اخبار دی ہندو نے ایک جائزہ شائع کیا جس میں
انکشاف کیا گیا تھا کہ 96فیصد مزدوروں کو راشن نہیں ملا اور 90فیصد کو اپنی
محنت کی اجرت تک نہیں ملی ۔تشار مہتا بلا تحقیق اس سروے کو غلط ٹھہرا دیا
عدالت نے بھی چلاتفتیش اس دعویٰ کو قبول کرلیا ۔ اس مقدمہ کو عدالت نے کمال
رعونت سے یہ کہہ کر نمٹا دیا سرکار کو ضروری اقدامات کرنے کے لیے کہہ دیا
گیا ہے اور یہ باتنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ کیا کہا گیا ہے؟ سوامی اگنی
ویش نے کھیتمیں کام کرنے والے مزدوروں کی مشکلات پر پی آئی ایل داخل کی تو
چیف جسٹس نے اس پر ایس جی کے جواب کو سن کر بنا بحث مقدمہ ختم کردیا ۔ تشار
مہتا نے وزارت ذراعت کی رہنمائی پر عملدرآمد کا دعویٰ لیکن عدالت نے اس کو
جانچنے کی سعی نہیں کی ۔
صفائی کا کام کرنے والوں کو پی پی ای فراہم کرنے کا مقدمہ آیا تو سی جے نے
تحریری فیصلہ سنانے کے بجائے بس اتنا کہا مرکزی حکومت ڈبلیو ایچ او کی
ہدایت پر عمل کررہی ہے۔ اور مقدمہ لپیٹ دیا ۔ گاوں واپس آنے والے مزدوروں
کے لیے عارضی منریگا جاب کارڈ کا مطالبہ کرنے والے مقدمہ کو تشار مہتا کے
یہ کہنے پر کہ سرکار نے 6800کروڈ کی ادائیگی کردی ہے، طویل مدت کے لیے
ملتوی کردیا گیا۔ سب سے بڑا لطیفہ تو رکن پارلیمان مہوا موئترا کے ساتھ
ہوا۔ ان کے خط کو عدات نے خود ۳ اپریل کو مقدمہ میں تبدیل کیا اور 13اپریل
وجہ بتائے بغیر خارج کردیا۔مثل مشہور ہے جیسی روح ویسے فرشتے اسی طرح جیسی
سرکار ویساہی سرکاری وکیل ۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتاکی رعونت فی الحال
آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ عدالت کے اندر یہ جرأت نہیں ہے کہ ان کی زبان
پر لگام لگائے اس لیے وہ جو من میں بولتے ہیں۔ ایسے میں اگرجج صاحبان کو
اپنے وقار کا پاس و لحاظ ہوتا تو تشار مہتا جیسے بدزبان کو کان پکڑ کر
دروازے کا راستہ دکھا دیا جاتا۔
تشار مہتا نے اپنی حالیہ پیروی کے بعد عدالت سے اجازت لے کر مزدوروں کی
خاطر مداخلت کرنے والوں کو تباہی کے پیغامبر قرار دےدیا اور انہیں اپنی
حقانیت ثابت کرنے کے لیے کہا ۔ انہوں نے حق ِ نمک ادا کرتے ہوئےفرمایا
حکومت کے اقدامات سے عدالت مطمئن تھی مگر یہ لوگ منفی رحجانات کو فروغ دینے
کے لیے سوشیل میڈیا پر لکھتے اور انٹرویو دیتے ہیں ۔ وہ قوم کے حق میں خیر
نہیں ہے۔ انہوں نے کیوین کارٹر نامی فوٹوگرافر کی مثال دے کر کہا گوکہ
خودکشی کرنے والے اس فوٹو گرافر کو پلٹزر انعام سے نوازہ گیا لیکن ایک
صحافی نے اسے بھی گدھ قرار دیا تھا ۔ اس قبیل کے اپنی دوکان چمکانے والے
لوگوں کو سرکار پر تنقید کرنے والی عدالت ہی اچھی لگتی ہے۔ وکلاء کے بعد
انہوں نے ہائی کورٹ پر برستے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ متوازی حکومت چلا رہے ہیں
اور مرکزی و صوبائی حکومت سے سوال کرتے ہیں ۔
کپل سبل جب ان کا جواب دینے کے لیے اٹھے تو سیاست کرنے والے تشار مہتا نے
نصیحت کی کہ عدالت سیاست کی جگہ نہیں ہے۔ اس پر کپل سبل نے کہا میں انسانیت
کے مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر مہتا نے ایک ذاتی نوعیت کا
سوال کردیا کہ اس مصیبت سے بچانے میں آپ کی کیا حصہ داری ہے؟ اس کے جواب
میں کپل سبل نے کہا میرے چار کروڈ ہیں ۔ کاش کے اس کے بعد تشار بھی بتاتے
کہ انہوں کیا تعاون کیا ہے ؟ انہوں نے سرکاری چاپلوسی کے سوا کچھ کیا ہوتا
تو بتاتے۔ اس آفتِ ناگہانی نے سرکار اور اس کے وکیل دونوں کے مزدور دشمن
چہرے کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔مہتا کی طرح چیف جسٹس بوبڑے کا بھی یہی
خیال ہے کہ مشکل حالات انتظامیہ کو زیادہ سے زیادہ چھوٹ ملنی چاہیے تو کیا
عدالت کو محض خاموش تماشائی بن جانا چاہیے؟ اگر یہ موقف درست ہے تو ہوائی
جہاز کے مسافروں سے متعلق بھی حکومت اور ائیر انڈیا کو کھلی چھوٹ دے دی
جاتی۔ اس کو اتنی جلدی تاریخ دینے کے بجائے ٹال دیا جاتا ۔ ایسی سخت جرح
اور پھٹکار سنانے کے بجائے تشار مہتا کے دلائل کو بلا چوں چرا پہلے کی طرح
مان لیا جاتا۔ عارضی چھوٹ دینے بعد بامبے ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کے لیے
نہیں کہا جاتا۔یہ نہیں کہا جاتا کہ پہلی نظر میں سرکاری احکامات کی خلاف
ورزی ہوئی ہے اور آگے کی بکنگ نہیں کرنے کا حکم بھی نہیں سنایا جاتا ۔
عدالت کا میزان اگر کسی ایک جانب جھک جائے تو وہ اپنا وقار اور اعتبار
دونوں کھو دیتی ہے اور ایسا ہی معاملہ فی الحال سپریم کورٹ کے ساتھ ہورہا
ہے۔ کورونا کی وباء نے نے اس مرض کو بے نقاب کرنے کا کام کیا ہے۔ اس کا
علاج لادینی جمہوریت کے اندر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے الہامی ہدایت سے رجوع
کرنا لازم ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے
علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی
کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں
نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا
خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر
تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم
کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔ اس آیت میں تفریق و امتیاز کی ساری بنیادوں
(اپنا پرایا، کنبہ قبیلہ ، اور غریب امیر وغیرہ )کو ایک ایک کرکے اکھاڑ کر
پھینکا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اگر کوئی بھلائی کی خوش فہمی
میں عدل کو پامال کرتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ
سے زیادہ کوئی کسی کا خیر خواہی نہیں ہے۔ انسان اپنی چرب زبانی سے دوسرے
انسانوں کو فریب تو دیکھ سکتا ہے لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ سب کچھ
جانتا ہے ۔ دنیا کی عدالت میں سزا سے بچنا آسان ہے لیکن اللہ کی عدالت میں
بچ نکلنا ناممکن ہے۔ |