اکثر اوقات تبدیلی کو تبدیلی کی ضرورت لاحق ہوتی ہے.
کیونکہ تبدیلی کا نعرہ اپنے ساتھ خوش فہمی بھی لاتا ہے. یعنی کہ خوشگوار
واقعات کے ساتھ چند نا خوشگوار واقعات بھی جنم لیتے ہیں. جب بھی کسی ملک
میں تبدیلی جنم لیتی ہے تو اس کے محرکات بھی ہوتے ہیں. یعنی کہ عوام کا
بوسیدہ نظام سے اُکتا جانا یا پھر اعتبار کی کمی بعض اوقات تبدیلی کے مواقع
فراہم کرتی ہے. ایسا ہی پاکستان میں ہوا جہاں عوام دو پارٹی نظریے سے اُکتا
گئے تھے. مزید یہ کہ دونوں پارٹیوں پر کرپشن چارجز نے اس میں جلتی پر تیل
کا کام کیا. جس کے باعث عوام اب ان دو پارٹیوں کو چور بھی سمجھنے لگ گئی
تھی. لہٰذا اب ماحول ایک تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور آخر کار اس
تبدیلی کو حقیقت میں لانے کے لئے امپائر کی انگلی بھی اٹھ چکی تھی. لہٰذا
25 جولائی 2018 کا الیکشن اس تبدیلی کا راستہ اختیار کر گیا اور عوام نے
جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے دو پارٹی نظریے کو مسترد کر دیا اور یوں ایک
نئی جماعت پاکستان کی تاریخ میں اقتدار میں آئی.
لہٰذا اب اس جماعت نے بوسیدہ نظام کو ختم کر کے نئے پاکستان کا نظریہ
متعارف کروانا تھا. اس سلسلے میں 18 اگست کو عمران خان نے ملک کے 22 ویں
وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور سو دن میں تبدیلی کے نفاذ کا اعلان کردیا. لیکن
اس کے نفاذ میں حکومت وقت ناکام ہوگئی. جس پر حکومتی موقف یہ تھا کہ ہمیں
صحیح طرح سے حالات کا تدارک نہیں تھا. اس وقت حقیقتاً سو دن میں تبدیلی کا
نعرہ حقیقت پسند نعرہ نہیں تھا. بلکہ کسی خوش فہمی کا پیش خیمہ تھا. کیونکہ
تبدیلی سو دنوں میں نہیں آتی اور اس بات کا علم حکومتی وزراء کو بھی تھا.
لیکن عوام کو تبدیلی کی خوشی محسوس کروانے کے لئے خوش فہمی کا انتخاب کیا
اور ایک حقیقت سے عاری بیان دے دیا جو کہ نا قابل عمل تھا. خیر گرم گرم
تبدیلی ملک میں برسر اقتدار تھی اس لئے عوام نے اس دفعہ حکومت پر بھروسہ
کرتے ہوئے اعتماد کا اظہار کیا. لیکن حکومتی وعدے اور بیان مزید پروان چڑھ
رہے تھے اور عوام کو دیا گیا شعور اب اسی حکومت کو آئینہ دکھا رہا تھا.
اور آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو حکومت کو یہی مسئلہ لاحق ہے اور
عوام کو غلط اور صحیح کا شعور خود حکومت کے لئے باعث خطرہ ہے. تبدیلی کی
خاص بات یہ ہے کہ اس کو ہر ادوار میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے. یعنی کہ اگر
حکومت نے ایسے وعدے کیے ہیں جو کہ ناقابل عمل ہیں تو حکومت کو چاہیے یا تو
اپنے الفاظ واپس لے لے اور تبدیلی کا رخ ہی تبدیل کردے یا پھر ریاست کی رٹ
قائم کرتے ہوئے اپنے تمام وعدوں کو پائہ تکمیل تک پہنچائے . یقیناً یہ ہی
تبدیلی نئے نظام کی تبدیلی ثابت ہوگی.
لیکن موجودہ حکومت تبدیلی کے دونوں نظریات سے منہ چھپائے ہوئے ہے . کیونکہ
نہ تو وہ اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی اپنے وعدوں کو
عملی جامہ پہنا رہی ہے . اس صورتحال کو ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ گویا
حکومت زبانی کلامی کی تبدیلی لانا چاہتی ہے. لیکن کورونا وائرس جیسے متعدی
مرض کے موقع پر زبانی کلامی حالات پر قابو نہیں پایا جا سکتا. لہٰذا اس
سلسلے میں حکومت کو طاقت کا نفاذ کرنا ہوگا. ویسے تو حکومت نے کورونا کے
پیش نظر لاک ڈاؤن کیا تھا لیکن اس لاک ڈاؤن کا نفاذ نا ہونے کے برابر تھا .
کیونکہ عوام میں وہ شعور بیدار نہیں کیا گیا جو کرنا چاہیے تھا اور یہی وجہ
ہے کہ عوام کورونا وائرس کا خوف نہیں رکھتی. اگر حکومت اس جہالت کا الزام
عوام پر عائد کرتی ہے تو اس میں حکومت بھی اتنی ہی جاہل ہے. کیونکہ حکومت
کے پاس طاقت ہے، انفارمیشن ہے لیکن اس کے باوجود طاقت کا استعمال نہ کرنا
یہ حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے. لیکن اس صورت حال میں یقیناً عوام
اور عدلیہ دونوں کا کردار بھی متنازعہ رہا ہے. کیونکہ عدلیہ نے غلط فیصلے
کیے اور عوام کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے حکومت کی جانب سے دی گئی ہدایات پر
عمل درآمد نہیں کیا. یقیناً یہ وائرس حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا.
یقیناً اس نقصان کا تدارک اب ناممکن ہے. لہٰذا اب حکومت کو تیزی کے ساتھ
اپنے وعدوں کو حقیقت کا رخ دینا ہوگا. تاکہ اس نقصان کا کچھ ازالہ ہوجائے.
مزید برآں پوری دنیا اس قسم کے حالات سے دوچار ہے اور ہر جگہ عوام کا یہی
طرز عمل ہے اور حکومتیں بھی ایک طرح کی پالیسیاں اختیار کر رہی ہیں . لہٰذا
اب تو کورونا کا خاتمہ ہی تبدیلی ثابت ہوگا اور اس تبدیلی کے بعد ہی حقیقی
تبدیلی آسکتی ہے. لیکن جو لوگ حکومت کی حمایت کرتے تھے ان کے خیالات تبدیل
ہو رہے ہیں اور وہ اب حکومت سے کسی بڑی تبدیلی کی امید ختم کر چکے ہیں.
لیکن جو بھی ہو اس تبدیلی کے دور کو پائہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے. ملک میں
حقیقی تبدیلی کے لئے عمران خان کو پہلے اپنی کابینہ میں سے کالی بھیڑوں کو
تبدیل کرنا ہوگا اور مافیا کو جڑ سے اُکھاڑ دینا ہوگا. حکومت کو بھی چاہیے
کہ وہ بیان کی جگہ عمل کو اپنا ہتھیار بنائے اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ
فائدہ پہنچائے اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے جوکہ حکومت وقت کے منشور کا
اہم نقاد تھا تاکہ تبدیلی کا خواب کچھ حد تک پورا ہوجائے. |