انسان نے ترقیاتی زندگی کے سو سال مکمل کر لئے ہیں ،
لیکن اس ترقی میں اخلاقی، اقداری اور روایاتی پستی جس طور دیکھی گئی ہے اس
کی نظیر بنی اسرائیل کی پست اقوام میں بھی نہیں ملتی۔ گردش ایام کا اصول ہے
کہ جس قوم نے بھی تاریخ سے عبرت حاصل نہیں کی اسے بھی سابقہ قوموں کی طرح
عبرت کا نشان بننا پڑا۔ کچھ مفلسی میں اپنی روایات سے دور ہو گئے تو کئی
حسد ، لالچ اور تکبر کی چادر اپنی عقلوں پر لپیٹ چکے ہیں۔ دونوں طرح کے
معاشرے اپنی تباہی کا مؤجب تو بنے ہی تھے لیکن اب اپنے اختتام کا انتظار کر
رہے ہیں۔دنیا بھر کو معاشی، اقتصادی اور معاشرتی بحران اپنی لپیٹ میں لے
چکا ہے۔ تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہو چکا ہے ، اور جنگ میں سبقت لے جانے
والوں نے بنا کسی گولی چلائے اپنی برتری کا اعلان کر دیا ہے۔بڑی بڑی
اقتصادی قوتیں اور بڑے بڑے برج زمین بوس ہو گئے ہیں۔ان کی سازشی شیطانیت تب
تک نہیں جائے گی جب تلک نیست نابود نہ ہو جائیں ! اور ہٹ دھرمی پر قائم
ایسے رہیں گے جیسے کوئی بد مست ہاتھی۔یہ بد مست ہاتھی جب تک اپنا سر پھوڑ
کر مر نہیں جاتا تب تک برائی پھیلاتا رہے گا۔تاریخ گواہ ہے کہ عالمی
چوہدراہٹ کے حصول کیلئے ہر بار سروں کے مینار اٹھائے گئے اور لوگوں پر
زندگی تنگ کر دی گئی۔آخری بار جب عالمی چوہدراہٹ روس سے امریکہ کے پلڑے میں
گئی تو روس کے ٹکڑے ہوئے اور کئی ریاستوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا
پڑا۔ امریکہ نے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ جن معاہدوں میں گٹھ جوڑ کر رکھا
تھا ان سے مکر گیا ۔بلکہ روس سے بڑھ کر دہشتگرد ثابت ہوا جس نے تیل اور
معدنی ذخائر کے حصول کیلئے کتنے ہی مسلم ممالک کو آگ میں جھونک دیا۔ ساری
دنیا کے ممالک جانتے تھے کہ امریکہ کیلئے اس چوہدراہٹ کا تسلسل رکھ پانا
ناممکن ہو جائے گا۔لیکن امریکہ نے اسے قائم رکھنے کیلئے نہ صرف پیٹرولیم
مصنوعات کی تجارت بلکہ اسلحہ کی تجار ت پر بھی زور دیا۔ لیکن اس سے نقصان
صرف انسانیت کو ہوا! چاہے یہ جنگیں امریکہ کو یہاں تک لانے والوں کی منشاء
تھی یا امریکہ کی اپنی پالیسی لیکن انسانیت کیلئے کسی طور فائدہ مند نہیں
رہا اور آج امریکہ کو اپنا کیا بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے
امریکی لابی کو گرانے کا کام بہت تیزی سے جاری ہے۔ اس دوڑ میں دنیا کی
مختلف طاقتوں نے حصہ لیا ہے جن میں چین ، روس، برطانیہ اور ترکی سر فہرست
ہیں۔ ہرکس کو اپنے اتحادی چاہیئے تھے۔ اور یوں اتحادی بھی اس عالمی سازش کی
لپیٹ میں آئے جو ان ممالک نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے بن رہے تھے۔
پانچ سال قبل اس کے جواب میں ان ممالک نے ایک اتحاد قائم کیا جو اس مسلسل
ہٹ دھرمی سے زیادہ متاثر ہو رہے تھے اور انہیں اپنے وجود کا خطرہ پڑ چکا
تھا۔ ان ممالک میں پاکستان، چین اور روس کا اشتراک شامل تھا لیکن روس اس
میں مخلص نہیں تھا بلکہ انہی آقاؤں کے زیر تسلط کام کر رہا تھا جنہوں نے
امریکہ کو اپنی انگلیوں پر نچایا اور کیلیفورنیا کو ایک سو پچپن کے قریب
کھرب پتی دئیے۔امریکہ کے سابقہ صدارتی انتخابات میں ولادی میر پیوٹن کی
جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں بیانات اسی کا حصہ تھے۔ چین کے ون بیلٹ ون
روڈ میں اقتصادی راہداری منصوبہ اور گوادر پورٹ حصہ بنے تو پاکستان پر
امریکی لابی کے حملے تیز ہو گئے۔ بھارت ، افغانستان اور ایرانی حکومتوں کو
بطور کٹھ پتلی استعمال کیا گیا اور اپنے راستے پاکستان تک ہموار کئے
گئے۔لیکن اس سہہ ملکی اتحاد نے ان عالمی شرپسندوں کو منہ توڑ جواب دیا اور
عراق، شام اور افغانستان میں ناکوں چنے چابنے پر مجبور کر دیا۔ چین کی
تجارت کو تقویت دی گئی جس کے بعد چین دنیا بھر کے ایک سو ساٹھ ممالک سے
زائد ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے جبکہ امریکہ
کے تیل اور اسلحہ کی تجارت اب ٹھکرائی جا چکی ہے۔اس معاشی و اقتصادی گٹھ
جوڑ اور ترقی کی روک تھام کیلئے آسان اہداف تک رسائی سب سے پہلے کی گئی،
چین میں مختلف آبادیوں میں فسادات بپا کروائے گئے اور پاکستان میں مختلف
طبقاتی تعصبات کو فروغ دے کر خانہ جنگی کروانے کی کوشش کی گئی۔جب اس کی روک
تھام کر لی گئی تو مسئلہ کشمیر کو ہوا دے خطے بھر کو جنگ میں جھونکنے کی
کوشش کی گئی، دوسری طرف ایف اے ٹی ایف کے ذریعہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر
قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ سلام ہے اس ملک کے حساس اداروں کو جنہوں نے
بروقت ہر سازش کا جواب دے کر پاکستان کی سالمیت کو یقینی بنائے رکھا۔
دانشوروں کے ایک طبقے کا ماننا ہے کہ روس ، چین اور امریکہ کی ایشیاء میں
مداخلت صرف گرم پانی تک رسائی کی تھی، جس کیلئے ہندوستان، پاکستان ، ایران
اور افغانستان انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ یعنی پانی کے ذریعے تجارت سے معاشی
پالیسی مرتب کرنا، اس کیلئے تمام ممالک کے اقدامات الگ الگ تھے، روس اور
امریکہ جبراََ مسلط ہونا چاہتے تھے جنہیں منہ کی کھانی پڑی لیکن چین نے کچھ
لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنائی اس سے بڑھ کر یہ کہ چین نے اسلحہ ، پیٹرول
اور نعشوں پر تجارت مضبوط کرنے کی بجائے اشیائے خوردو نوش کی تجارت کو فروغ
دیا۔اور اس طرح اس نے اقتصادی راہ داری منصوبوں کے ذریعے گرم پانی تک رسائی
کو یقینی بنا یا۔لیکن میری ذاتی رائے اس سے مختلف ہے۔ عالمی چوہدراہٹ کے
حصول کیلئے تمام ممالک خاص طور پر دنیا میں ایٹمی پاور کے حامل ممالک ہمہ
تن گوش سرکرداں رہتے ہیں۔ایک مکمل منصوبہ بندی اور سازشوں کے تحت دونوں
اطراف میں اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔دونوں اطراف کے اتحادی انتہائی مشکل
صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں معاشی، معاشرتی، سیاسی، عسکری نیز تمام قسم کے
چیلنجز کا سامنا ہے جن سے یہ نمٹ رہے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ چین کے
اتحادیوں کی پالیسیاں امریکی اتحادیوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوئی
ہیں اور وہ ہر صورت ثابت قدم رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی ، علاقائی،
لسانی اور قومی تعصب بھی امریکی لابی کی سازشیں ہیں۔ اور پاکستان پر یہ سب
محض اسی لئے مسلط ہے کیونکہ پاکستان چین کا اتحادی اور اس کے اقتصادی
منصوبے کا اہم رکن ہے۔(جاری ہے)
|