افغانستان میں پھر ایک مرتبہ جمعہ کی ادائیگی کے دوران مسجد میں دھماکہ

کورونا وائرس نے کیا کیا ستم ڈھائے۰۰۰ مدرس کو ترکاری فروش تک بنادیا

ایک طرف گذشتہ کئی ماہ سے کورونا وائرس نے لاکھوں انسانوں کو متاثر ہی نہیں کیا بلکہ چار لاکھ سے زائد افراد اس وائرس کی وجہ ہلاک بتائے جارہے ہیں۔ ابھی یہ سلسلہ دنیا کے 200ممالک میں جاری ہے ، کہیں پر کچھ کمی تو کئی ممالک میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بھی۰۰۰ اسی اثناء بعض انسانیت کے دشمن، درندہ صفت انسان، انسانیت کا قتل عام کرنے کیلئے پھر سے وہی دہشت گردانہ حملے کررہے ہیں۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعہ 12؍ جون کو نماز جمعہ کی ادائیبی کے دوران شیر شاہ سوری مسجد میں زوردار دھماکہ کیا گیا جس کے نتیجے میں امام مسجد عزیر اﷲ مفلح سمیت چار نمازی جاں بحق بتائے جاتے ہیں۔ دھماکے میں متعدد نمازی شدید زخمی ہوئے ہیں،جنہیں مختلف ہاسپتلوں میں منتقل کردیا گیا ۔ ابھی کسی گروپ کی جانب سے ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تاہم رواں ماہ کے ابتداء میں صوبہ ننگرہار کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ اگر داعش جہادی تنظیم ہوتی تو مساجد پر حملے نہ کرتی اور نہ عام مسلمانوں کا قتل عام کرتی ۔ان نام نہاد جہادی تنظیموں کی جانب سے ماضی میں بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم و دیگر بزرگان دین کے مزارات اور مساجد پر حملے کئے گئے ۔ اس سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ ان جہادی گروپوں میں دشمنانِ اسلام چھپے ہوئے ہیں اور وہ ایک طرف اس طرح کے دہشت گردانہ حملے کرکے بے قصوراور معصوممسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں تو دوسری جانب جہاد کے نام پر قربان ہونیو الے نوجوانوں کو یکجا کرکے انہیں بھی کسی نہ کسی ذریعہ قتل کردیا جارہا ہے ۔ یعنی جذبہ ایمانی کے تحت جہاد میں شامل ہونے والے افراد کو ایک پلٹ فارم پر لاکر آسانی سے قتل کیا جاسکتا ہے اور یہی صورت یہاں محسوس ہوتی ہے ۔ کاش دشمنانِ اسلام کی ان سازشوں کو مسلمان سمجھ پاتے اور ایک دوسرے کے درمیان جو نا اتفاقیاں اور مسالک کی بنا پر جوبدگمانیاں اسے دور کرنے کی کوشش کرتے یا اپنے اپنے مسالک پر عمل پیرا ہوکر متحد رہنے کی کوشش کرتے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے ان دہشت گردانہ حملے کرنے والوں کا متحدہ طور پر جواب دیں اور اسی وقت افغانستان میں امن وسلامتی کی فضا بحال ہوسکتی ہے۔ ورنہ ایسے ہی مزید دھماکوں کیلئے مسلمان اپنے آپ کوتیار رکھیں ۔

کورونا وائرس کے سنگین نتائج میں مزید اضافہ
کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 79,25,237سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد 4,33,648سے زائد ہے ۔ دو سو کے قریب ممالک میں کورونا وائرس کے متاثرین ہیں۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے جس قسم کے اقدامات یا احتیاطی تدابیر اختیار کئے جارہے ہیں اس سے کتنا فائدہ ہورہا ہے اور کتنا نقصان یہ تو آنے والا وقت بتائے گا ۔ کیونکہ ایک طرف اس وباء سے بچنے کیلئے سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لوگوں کو گھروں میں ہی رہنے کیلئے کہا جارہا ہے تو دوسری جانب اس کے سنگین نتائج معاشی بدحالی کی حیثیت سے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ بڑے بڑے سوپر پاور ممالک بھی آج معاشی اعتبار سے بدحالی کا شکار ہوچکے ہیں اور نہیں معلوم یہ تمام ممالک سنبھل پانے میں کتنا عرصہ لیں گے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اور انکا مستقبل بھی کیسا ہوگا اس سلسلہ میں بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کورونا وائرس میں مالدار، صاحب استطاعت ہر مذہب سے وابستہ افراد نے دل کھول کر غریبوں اور محتاجوں کی مدد کی ہے یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ماہ رمضان المبارک میں مسلمانوں نے مسلمانوں مختلف مذاہب کے غریبوں ، محتاجوں کا ہر طرح سے خیال رکھا ۔ لاکھوں تعلیم یافتہ افراد جومختلف ہنر رکھتیہیں وہ بھی محتاجی کا شکار ہوگئے ، لیکن اﷲ رب العزت نے اپنے بندوں کو بھوکا نہیں رکھا بلکہ انہیں اچھے سے اچھا کھانا پینا نصیب فرمایا۔ ایک طرف احتیاطی تدابیر کے نام پر ایک دوسرے کو الگ تھگ کردیا گیا، ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے کیلئے سخت تدابیر بتلائے گئے تو دوسری جانب مالدار اور صاحب استطاعت لوگوں نے اپنے غریب بھائیوں کا خیال کرتے ہوئے ان کی مدد کی اور انہیں اپنے قریب کیا۔کورونا وائر س کے موقع پر جو لاک ڈاؤن کیا گیا تھا یہ دن کروڑوں لوگوں کے لئے یادگار رہیں گے جنہوں نے اپنے غریب بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرکے خوشی حاصل کی تو وہیں غریبوں کے دلوں میں ان مدد کرنے والوں کے احسانوں کے تئیں عزت و احترام میں اضافہ ہوا ۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے دنیا بھر میں جس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیارکی گئیں اس سے کروڑوں افرادمختلف مسائل کا شکار ہوئے ہیں سب سے اہم مسئلہ روزگار سے محرومی کا ہے۔ کروڑوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں اور بعض ایسے لوگ جو مختلف پیشوں سے وابستہ رہ چکے ہیں روزگار سے محرومی کے بعد کسی نہ کسی طرح محنت کرکے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہوئے ترکاری اور پھلوں کی دوکانیں کھول لئے ہیں اور اس میں وہ اچھی خاصی کمائی حاصل کررہے تھے ۔مختلف چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے تو پھلوں اور ترکاری کی دوکانیں لگاکر زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان ہی میں بعض تعلیم یافتہ ،بہترین صلاحیتوں کے حامل مختلف ہنر رکھنے والے بھی ترکاری اور پھل فروش کے پیشہ کو چند دنوں کیلئے اپناتے ہوئے روزگار حاصل کررہے ہیں۔ یہ لوگ حکومت اور مالداروں سے مانگنے کے بجائے اپنی محنت کی کمائی کھانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ایسے ہی افراد میں بعض تدریس سے وابستہ لوگ بھی ہیں۔ایک ٹیچر کی مثال دیکھیے،استاد امجد عابد ہیں جو راولپنڈی پاکستان کے مختلف خانگی اسکولوں میں گذشتہ 17برس سے شعبہ تدریس سے منسلک ہیں۔اسکولوں اور پھرگھروں پر ٹیوشنس بند ہونے کے بعد انہوں نے ذریعہ معاش کے لئے بغیر کسی شرمندگی کے سبزی اور پھل فروخت کرنے کے لئے دوکان لگالی ۔ایسے لوگ جو خوددار ہوتے ہیں وہ کسی سے مانگنے کے بجائے ، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے محنت مزدوری کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے اور حلال کمائی کے حصول کیلئے کوشش کرتے ہیں۔

مصر میں کورونا سے متاثر 55ڈاکٹر جاں بحق
دنیا کے بیشتر ممالک جہاں جہاں کورونا وائرس پایا جارہا ہے اور ان ممالک میں لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے ایسے ممالک میں فرنٹ لائن میں رہنے والا عملہ بشمول ڈاکٹرس، نرسس ،دیگر طبی عملہ بھی متاثر ہوا ہے اور ان میں سے کئی ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ بتایا جاتا ہیکہ مصر میں کورونا وائرس سے اب تک 55ڈاکٹرس جاں بحق ہوچکے ہیں۔ مصر میں ڈاکٹروں کی جنرل سنڈیکیٹ کونسل کے رکن ڈاکٹر ابراہیم الزیاد کے مطابق فرنٹ لائن پر کام کرنے والے مزید آٹھ ڈاکٹرس وائرس سے متاثر ہوکر جاں بحق ہوگئے ہیں ، اس طرح مصر میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران ہلاک ہونے والے ڈاکٹرس کی تعداد اب تک 55ہوگئی ہے۔بتایا جاتا ہیکہ مصری ڈاکٹروں کی جنرل سنڈیکیٹ فنڈ کے سکریکٹری ڈاکٹر محمد عبدالحمید نے بتایا کہ حالیہ دنوں کے دوران مصری ڈاکٹروں اور معاون صحت کے عملے کے حلقوں میں وزارت صحت سے متعلق شکایات تھیں۔ وزیر اعظم اور وزیر صحت نے ڈاکٹروں سے ملاقاتیں کیں ۔ اس کے بعد ہی صورتحال بہتر بتائی جارہی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر صحت نے ڈاکٹروں سے ملاقاتیں کیس جس سے صورتحال بہتر بتائی جارہی ہے۔ ہاسپتلوں میں ڈاکٹروں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے اور وائرس سے متاثرہ ڈاکٹروں کیلئے اسپیشل قرنطینہ کا بندوبست کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مصر میں 8؍جون تک کورونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 32612ہے ان میں8535صحت یاب ہوچکے ہیں جبکہ اب تک مرنے والوں کی تعداد 1198بتائی گئی ہے۔مصری فوج کے میجر جنرل اسٹاف شرفی عبدالحلیم داؤد اور میجر جنرل خالد شلطوط کا بھی کورونا وائرس کے دوران متاثرین کی خدمات انجام دیتے ہوئے انتقال ہوا ۔

چند اسلامی ممالک میں کورونا وائرس
عرب ممالک میں کووڈ 19کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تاحال 3,3,131متاثرین بتائے جارہے ہیں اور ان میں ہلاک ہونیو الوں کی تعداد 1614بتائی جارہی ہے۔سعودی عرب میں جملہ کورونا کیسوں کی تعداد 1,0857ہوگئی ہے جبکہ مرنے والوں کی اب تک کی تعداد 783بتائی جارہی ہے۔پاکستان میں کورونا وائرس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں متاثرہ افراد کی تعداد 1,25,933ہوگئی ہے جبکہ 40,247مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد 2463بتائی جارہا ہے۔ کویت میں بھی نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اب تک جملہ 32,510مریضوں کی نشاندہی ہوچکی ہے ۔متحدہ عرب امارات میں منگل کے روز کورونا وائرس کے 528نئے مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے ، عرب امارات میں اب تک 40ہزار 986افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 286بتائی جارہی ہے۔کویت میں کورونا کے متاثرین کی تعداد 32510سے زائد ہے ۔ عراق میں متاثرین 16675بتائے جارہے ہیں ،مراقش متاثرین کی تعداد 8537گئی ہے ۔اردون میں وزارت صحت کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ کے مطابق متاثرین کی کل تعداد 890ہوچکی ہے جبکہ لبنان میں 1402ہیں۔ سعودی عرب میں ایک اور پاکستانی ڈاکٹر کورونا وائرس کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پاکستانی ڈاکٹر عبدالغنی فرنٹ لائن پر کام کررہے تھے ، وہ گذشتہ 35سال سے سعودی عرب میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ بتایا گیا ہیکہ سعودی عرب میں اس سے قبل بھی ایک اور پاکستانی ڈاکٹر کورونا وائرس فرنٹ لائن خدمات انجام دیتے ہوئے جاں بحق ہوئے ہیں۔

اسرائیلی عدلیہ کا اسرائیلی متنازعہ قانون کے خلاف فیصلہ
ججس اگر انصاف پر مبنی فیصلہ دیں تو اس سے عدلیہ کا وقار بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ عوام ججس کو نہیں بلکہ عدلیہ کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بے شک انصاف پسند ججس کا احترام اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ اسرائیلی عدلیہ نے بھی انصاف پر مبنی فیصلہ سنا کر انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا ہے اور اس سے پھر ایک مرتبہ عدلیہ کے تشخص کو جِلا ملی ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے یہیودیوں کی آبادیاں قائم کرنے کیلئے 2017ء میں ایک متنازعہ قانون بنایا تھا جس کے خلاف انسانی حقوق کی اسرائیلی اور فلسطینی تنظیموں نے مقدمات دائر کئے تھے ، اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت نے یہودی آبادکاری سے متعلق اس متنازعہ قانون کے خلاف فیصلہ دیا ہے ۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی مقبوضہ زمینوں پر یہودی بستیوں کی تعمیر کو ان کے وجود میں آنے کے بعد قانونی قرار دینے سے متعلق یہ متنازعہ قانون بنایاتھا۔ عدالت کے ججوں نے اس قانون کو غلط قرار دے دیا ہے، جس کی مدد سے اسرائیلی حکومت مقبوضہ مغربی اردن کے علاقے میں سینکڑوں ہیکٹر زمین کو اسرائیل کے ریاستی علاقے میں شامل کرنا چاہتی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ اسرائیلی قانون فلسطینی آبادی کے حقوق کی نفی کرتا ہے اور اس لئے ریاستی آئین سے متصادم ہے۔

سعودی کابینہ کا اجلاس ۰۰عالمی برادری سے فلسطینیوں کے تحفظ کی درخواست
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قصر یمامہ میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں عالمی برادری سے درخواست کی گئی کہ وہ فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کرے اور بین الاقوامی قانون کے خلاف اسرائیلی پالیسیوں سے نمٹنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ سعودی کابینہ نے غزہ پٹی پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ ان حملوں سے کئی شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حملے بین الاقوامی معاہدوں ، انسانیت نواز اصولوں اور بین الاقوامی قانون کے سراسر خلاف ہے۔سعودی کابینہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے روزگار و امداد کی ایجنسی ’’اونروا‘‘ میں تین سال کی توسیع کے متفقہ بین الاقوامی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری نے یہ اقدام فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حق میں اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق دلانے سے متعلق اپنے عہد کی پاسداری میں کیا ہے۔ سعودی کابینہ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ اونروا کی مد کرنے والا سب سے بڑا ملک سعودی عرب ہے ۔سعودی عرب نے 2002سے 2019تک اونروا کو 900ملین ڈالر دے چکا ہے ۔اس رقم سے اونروا نے فلسطینی پناہ گزینوں کی اعانت کے متعدد پروگرام انجام دیئے ہیں۔سعودی نے فلسطین کو 7ارب ڈالر کے لگ بھگ امداد دی ہے ۔ ستمبر2019میں 50ملین ڈالر کی اضافی اعانت بھی اونروا کو دی گئی۔ سعودی کابینہ نے شامی بحران سے متعلق رپورٹ کا جائزہ لیا اور شام میں آئینی کمیٹی کے قیام پر ہونیو الے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسی طرح میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے میانمار کے حکام سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اقلیتوں سے متعلق اپنی سیاسی اور انسانی ذمہ داری پوری کرے۔اس کے علاوہ سعودی کابینہ نے واضح کیا کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے بحرہ احمر میں رابغ تھری سے سمندری جہاز پر قبضہ کرکے خطرناک مثال قائم کی ہے۔ حوثیوں نے اپنے اس اقدام سے عالمی جہاز رانی اور بین الاقوامی تجارت کی آزادی کو حقیقی خطرہ لاحق کیا ہے ۔ اسے سعودی عرب نے آبنائے باب المندب کے امن کو مخدوش کرنے والی مجرمانہ نظیر قرار دیا ہے۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 208722 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.