بابر اعوان کا بِل اور غریب ترین طلبہ کا مستقبل!

 سینیٹر بابر اعوان نے گزشتہ دنوں ایوانِ بالا میں معزز ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا ترمیمی بل پیش کیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے متعلقہ قائمہ کمیٹی سے تجاویز طلب کر لی ہیں، دس روز میں کمیٹی کو سفارشات پیش کرنے کی ہدایت بھی جاری کر دی ہے۔ بل کے مطابق اراکین کو 25بزنس کلاس اوپن ایئر ریٹرن ٹکٹ کی بجائے مساوی مالیت کے واؤچر دیئے جائیں گے، جنہیں اراکین کے خاندان کے افراد بھی استعمال کر سکیں گے۔ بل پیش کرنے کا کارِ خیر اعوان صاحب نے پارلیمانی امور کے مشیر ہونے کے ناطے سرانجام دیا۔موجودہ حکومت کے ابتدائی ایام میں بھی بابر اعوان حکومتی عہدہ کے اہل و حامل تھے، تاہم نیب کی طلبیوں اور مخالفین کے اعتراضات وغیرہ کے بعد وہ اپنے عہدہ سے اصولی طور پر مستعفی ہو گئے تھے، بعدا زاں معاملات صاف ہو جانے کے بعد دوبارہ حکومت نے ان کی خدمات سے استفادہ کرنے کا پروگرام بنایا، یوں آپ مشیر پارلیمانی امور ہیں۔ ایک وکیل ہونے کے ناطے آئین و قانون کی باریکیوں اور پیچ وخم سے بھی خوب آگاہ ہیں، تجربہ کار بھی ہیں۔

ایوانِ بالا پاکستان کا معزز ترین آئین ساز ادارہ ہے، یہ ممبران عام عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے، یہاں تو لاکھوں لوگوں کے منتخب اور معزز ارکانِ اسمبلی ووٹ دیتے ہیں۔ تاہم ایوانِ بالا کے گزشتہ دو انتخابات پر ہی نگاہ ڈالنے سے بہت کچھ آئینہ ہو جاتا ہے، جب ایوانِ بالا کے ایک ایک امید وار نے کروڑوں روپے خرچ کرکے ووٹ خریدے اور بہت سے مقامات پر اپ سیٹ بھی ہوا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگائے، دوسروں کو کرپٹ قرار دیا، اعتراف بھی کیا کہ ہمارے لوگ بِک گئے، مگر اپنے اُن ارکان کو تلاش کرنے میں ناکام رہے، (یا دانستہ اُن کو ظاہر نہیں کیا)۔ حالانکہ یہ الیکشن خالصتاً پارٹی کے ووٹوں پر منحصر ہوتا ہے، اس کے باوجود گھوڑے بِکتے ہیں ۔ پارٹیوں نے اپنی صفوں سے کالی بھیڑیں نکالنے کے دعوے کیے مگر تمام تر دعوے سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ گئے، نہ کوئی گھوڑا پکڑا گیا اور نہ کسی خریدار پر ہی حرف آیا۔

سینیٹ الیکشن کے مختصراحوال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس معزز ترین ادارے کے لئے منتخب ہونے والے لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جن کا انتخاب مشکوک یا متنازع ہوتا ہے، اس قسم کے الیکشن سے یہ بات بھی کھل کر ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ عموماً اربوں پتی ہوتے ہیں، (یاد رہے کہ یہاں پارٹیاں اپنے خاص لوگوں کو بھی منتخب کرواتی ہیں، جو صرف الیکشن کی فیس وغیرہ کے علاوہ ایک روپیہ خرچ کیے بغیر منتخب ہو جاتے ہیں) ۔ یہ اربوں پتی جب اپنی تنخواہوں میں اضافہ کروانے کے لئے بل پیش کرتے ہیں، جوکہ انہوں نے خود ہی منظور کرنا ہوتا ہے، تو یہاں ’’محمود و ایاز ‘‘ ایک ہو جاتے ہیں، نہ حکومت کا طعنہ ، نہ اپوزیشن کا الزام، تمام ارکان یکجا و یک جان۔

میں ارب پتی غریب ، مستحق اور ضرورت مند ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کی بات کو آگے بڑھاتا ، اپنے جذبات کا اظہار جاری رکھتا، کہ میرے بہت ہی قریبی دوست کا ایک مواصلاتی پیغام آن پہنچا، میں نے دیکھا تو اُسے بہت بر وقت اور حسبِ حال پایا، مزید وضاحت کے لئے انہیں فون کیا تو بے چارگی کی پَرتیں کُھلتی گئیں۔ ’’بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز‘‘ کا سلسلہ 1995سے شروع ہوا، جوکہ ملک بھر کے 137اضلاع میں جاری ہے۔ ایک کمرہ ، ایک ٹیچر اور ایک سکول پر مشتمل یہ نظام اُن دور دراز علاقوں میں موجود ہے، جہاں سے روایتی تعلیم کا گزر کم ہی ہوتا ہے۔ ان سکولوں کے ٹیچرز کی ڈیوٹی میں تیس تک بچے اکٹھے کرنا بھی شامل ہے، حاضری بھی پوری رکھنا ہوتا ہے، چھٹی کا تصور بھی نہیں ہے، مانیٹرنگ کا نظام بھی ہے، تھرڈ پارٹی سے بھی مانیٹرنگ کروائی جاتی ہے۔ اس وقت گیارہ ہزار نو سو آٹھ اساتذہ کی زیر نگرانی سات لاکھ بچے علم کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں۔ ایک ہزار روپے سے ان کی تنخواہ کا آغاز ہواتھا، پچیس برس کے عرصہ میں اس میں اضافہ کچھوے کی چال چلتا ہوا، آٹھ ہزار تک پہنچا ہے۔ یہ بھی چھ چھ ماہ نہیں ملتی،پھر احتجاج ہوتا ہے، ترسا ترسا کر یہ پیسے دیئے جاتے ہیں۔ 2018میں اسلام آباد میں دھرنا دینا پڑا، ان لوگوں کو مستقل کرنے کا وعدہ ہوا جو کہ ایفا نہ ہو سکا۔
 
مٹی چھان کر لعل تلاش کرنے کا یہ سلسلہ جان فشانی کے ساتھ جاری ہے، اساتذہ سخت امتحان میں ہیں، کہ ان کی ذمہ داریاں بے شمار اور بہت سخت ہیں، مگر ایک استاد کے طور پر وہ ایک نہایت ہی کم ترین سطح کے بے بس اور لاچار لوگ ہیں، جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حکومتیں انہیں چند ہزار روپے دے کر اُن پر احسان کر رہی ہیں، وہ بھی رُلا رُلا کر۔ ایک مزدور ان سے زیادہ کما لیتا ہے۔ جن والدین کو اپنے بچوں کے مستقبل کی ذرہ بھر بھی فکر نہیں، ان کے بچوں کو کھینچ کھینچ کر سکول لانا اور مستقل آنے پر قائل کرنا بذاتِ خود جان جوکھوں کا کام ہے، کیا کبھی کسی بابر اعوان یا کسی صادق سنجرانی نے یہ سوچا ہے کہ صلاحیت صرف امیروں کے بچوں میں ہی نہیں ہوتی، غریب کو تعلیم کا موقع میسر ہو تو اُن میں سے بھی صادق سنجرانی، بابر اعوان اور شفقت محمود پیدا ہو سکتے ہیں، اِن سکولوں میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ستم ملاحظہ ہو کہ تین برس سے ان بچوں کو سرکاری طور پر کتابیں بھی فراہم نہیں کی گئیں۔وزیر تعلیم صاحب! کچھ رحم کیجئے، سات لاکھ چراغ ٹمٹما رہے ہیں، آپ کی عدم توجہی کی بنا پر یہ بجھ جائیں گے، ان کے مقدر کی تاریکیوں میں آپ کا حصہ بھی ہوگا۔ اسی طرح پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا معاملہ ہے، آپ کے پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس کی ضد کی وجہ سے تیس لاکھ بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کو ہے، اساتذہ اپنے مطالبات کے لئے دھرنے دے رہے ہیں۔ بابر اعوان صاحب ! آپ لوگ اربوں پتی ہیں، ملک بہت غریب ہے، یہاں تعلیم اور بنیادی سہولتیں بہت کم ہیں، قربانی دینے کی بجائے قوم کا خون چوسنے کے حیلے نہ کیجئے۔ ہمیں یقین ہے، کہ آپ لوگوں کی تنخواہ اور مراعات میں اضافہ ضرور ہو جائے گا، عوام کے ٹیکسوں سے ممبران اور ان کی فیملی کی عیاشی ضرور جاری رہے گی، مگر اپنی عیاشیوں کی خاطر قوم کے بچوں کو جہالت کی تاریکیوں میں تو نہ دھکیلیں، اس صورت میں تاریخ میں آپ لوگوں کا نام سیاہ حروف میں ہی لکھاجائے گا ۔

 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472398 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.